بدھ، 26 نومبر، 2014

مظلوميّت على (ع)

مظلوميّت على (ع)
جو بھى تاريخ اسلام كا مطالعہ كرے اس نكتہ كو با آسانى درك كرسكتا ہے كہ انتہائي افسوس كا مقام ہے كہ حضرت على _ جو علم و تقوى كا پہاڑ، پيغمبر اكرم (ص) كے نزديك ترين ساتھى اور اسلام كے سب سے بڑے مدافع تھے، انہيں اسطرح ہتك حرمت، توہين اور سبّ و شتم كا نشانہ بناياگيا_
انكے دوستوں كو اسطرح دردناك اذيتوں اور مظالم سے دوچار كيا گيا كہ تاريخ ميں اسكى نظير نہيں ملتي_ وہ بھى ان افراد كيطرف سے جو اپنے آپ كو پيغمبر اكرم (ص) كا صحابى شمار كرتے ہيں_
چند نمونے ملاحظہ فرمايئے

الف) لوگوں نے على ابن جہم خراسانى كو ديكھا كہ اپنے
باپ پر لعنت كر رہا ہے جب وجہ
 پوچھى گئي تو كہنے
 لگا: اس لئے لعنت كر رہاہوں كيونكہ اس نے ميرا نام على ركھا ہے
Ref; لسان الميزان ، جلد 4 ص 210

ب ) معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو آئين نامہ ميں لكھا: جس نے بھى ابوتراب (على _ ) اور انكے خاندان كى كوئي فضيلت نقل كى وہ ہمارى امان سے خارج ہے (اس كى جان و مال مباح ہے ) اس آئين نامہ كے بعد سب خطباء پورى مملكت ميں منبر سے على الاعلان حضرت على (ع) پر سبّ و شتم كرتے اور اُن سے اظہار بيزارى كرتے تھے_ اس طرح ناروا نسبتيں انكى اور انكے خاندان كى طرف ديتے تھے
Ref;النصائح الكافيہ ص 72


ج ) بنواميّہ جب بھى سُنتے كہ كسى نو مولود كا نام على ركھا گيا ہے اسے فوراً قتل كرديتے_ يہ بات سلمة بن شبيب نے ابوعبدالرحمن عقرى سے نقل كى ہے
Ref;تہذيب الكمال ، جلد 20، ص 429 و سير اعلام النبلاء ، جلد 5، ص 102


د) زمخشرى اور سيوطى نقل كرتے ہيں كہ بنو اميّہ كے دور حكومت ميں ستّر ہزار سے زيادہ منابر سے سبّ على (ع) كيا جاتاتھا اور يہ بدعت معاويہ نے ايجاد كى تھي
Ref;ربيع الابرار ، جلد 2، ص 186 و النصائح الكافيہ، ص 79 عن السيوطي

ہ) جس وقت عمر بن عبدالعزيز نے حكم ديا كہ اس بُرى بدعت كو ختم كيا جائے اور نماز جمعہ كے خطبوں ميں اميرالمؤمنين على _ كو بُرا بھلانہ كہا جائے تو مسجد سے نالہ و فرياد بلند

ہوگئي اور سب عمربن عبدالعزيز كو كہنے لگے '' تركتَ السُنّة تركتَ السُنّة'' تونے سنت كو ترك كرديا ہے_ تونے سنّت كو ترك كرديا ہے
Ref; النصائح الكافيہ ، ص 116 و تہنئة الصديق المحبوب، تاليف سقاف ص 59

يہ سب اس صورت ميں ہے كہ برادران اہلسنت كى معتبر اور صحيح كتب كى روايت كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا ہے كہ '' مَن سَبَّ عليّاً فَقد سَبّنى و مَن سبّنى فقد سبَّ الله '' جس نے على (ع) كو گالى دى اس نے مجھے گالى دى اور جس نے مجھے گالى دى اس نے خدا كو گالى دى ۔
Ref; اخرجہ الحاكم و صَحَّہُ و ا قرّہ الذہبى ( مستدرك الصحيحين ، جلد 3، ص 121

التماس دعاء سيد علي نقي 


شیعیت کے خلاف لکھی جانے والی چند کتب اور انکا کتبی جواب

شیعیت کے خلاف لکھی جانے والی چند کتب اور انکا کتبی جواب : ایک تقابلی جائزہ



دور حاضر میں شیعیت کے خلاف لکھی جانے والی کتابیں لوگوں کے گھروں میں موجود ہیں. وہابی تو اس طرح کی کتب مفت تقسیم کر رہے ہیں. اگر ناشرین میں انصاف ہوتا تو وہ ایک شیعہ مخالف کتاب شائع کرتے اور پھر شیعوں کی جوابی کتاب بھی شائع کرتے. اس طرح سے مسلمان یکطرفہ پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوتے اور ایک توازن قائم رہتا لیکن ایسا نہیں ہے.



شیعیت کے خلاف لکھی جانے والی چند کتب درج ذیل ہیں :



١. شیخ محمد خضری کی محاضرات فی تاریخ الامم الاسلامیہ

٢. صاحب 'تفسیر المنار' رشید رضا کی السنہ و الشیعہ

٣. قصییمی کی الصراع بین الوثنیه و الاسلام (بت پرستی اور اسلام کی جنگ )

٤. احمد امین کی فجر الاسلام اور ضحی الاسلام

٥. موسی جار الله کی الوشیعه فی نقد الشیعہ

٦. محب الدین خطیب کی الخطوط العریضه

٧. احسان الہی ظہیر کی الشیعہ و السنہ اور الشیعہ و القران اور الشیعہ و اھل البیت اور الشیعہ و التشیع

٩. ابن تیمیہ کی منھاج السنہ

١٠. فضل بن روزبھان کی ابطال الباطل

١١. ڈاکٹر ناصر غفاری کی اصول مذهب الشیعہ

١٢. عبد الله محمد غریب کی وجاء دور المجوس

١٣. شاہ عبد العزیز محدث دھلوی کی تحفہ اثنا عشریہ

١٤. محمد ثابت مصری کی جوله فی ربوع الشرق الادنی



اسکے علاوہ بھی دسیوں کتابیں شیعیت کی رد میں لکھی گئی ہیں. علماء شیعہ نے ان کتابوں کے مسکت جواب لکھے ہیں. دونوں فریقین کی کتب کا تحقیقی جائزہ یہ بتاتا ہے کہ علماء شیعہ نے دلیل و برہان سے اپنے مذهب کا دفاع کیا ہے اور انہوں نے کتب اہل سنت سے اپنے مذهب کو ثابت کرنے کی روش اپنائی ہے. انہوں نے دوسرے مذاہب پر خواہ مخواہ کیچڑ اچھالنے اور دشنام درازی سے پرہیز کیا ہے.

اسکے برعکس شیعہ مخالف کتب کے مولفین کی کوشش رہی ہے کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے شیعوں کو بدنام کریں خواہ اسکے لئے انہیں جھوٹ اور افتراء کا ہی کیوں نہ سہارا لینا پڑے.



شیعوں کی طرف سے جوابی کتابیں :



١. الشافی فی الامامه



سید مرتضیٰ علم الهدى کی اس کتاب کی چار جلدیں ہیں. اس کتاب میں انہوں نے اقلی و نقلی دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ امامت کا تعلق اصول دین سے ہے اور امامت ایک اجتماعی اور دینی ضرورت ہے اور امام علی ع نصوص پیغمبر ص کی بنا پر آنحضرت ص کے خلیفہ برحق ہیں اور جس نے بھی انکی مخالفت کی ہے تو اس نے حق و صداقت کی مخالفت کی ہے. امامت کے متعلق مخالفین کے جتنے بھی اعتراضات تھے یا ممکن ہو سکتے تھے ان سب کا سید مرتضیٰ علیہ الرحمہ نے جواب دیا ہے اور انکے تمام جوابات منطق ، عقل اور حدیث کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں.



٢. نھج الحق و کشف الصدق



علامہ حلی نے اس کتاب میں حسب ذیل موضوعات پر بحث کی ہے:

١- علم و ادراک ٢- تفکر ٣- صفات باری تعالی ٤- نبوت ٥- امامت ٦- قیامت ٧- اصول فقه ٨- فقه سے مربوط مسائل



اس کتاب کو پڑھنے والا اس نتیجہ پر پہونچتا ہے کہ کتاب کا مولف ایک عظیم محقق ہے. وہ اپنی راے میں متعصب نہیں ہے اور اس نے کتاب و سنت کو اپنے نظریہ کے پیچھے چلانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ اپنے عقائد کو قران و سنت کے تابع رکھ کر بحث کی ہے.

فضل بن روزبھان اشعری مے علامہ حلی کی اس کتاب کی تردید میں 'ابطال الباطل و اھمال کشف العاطل لکھی. انہوں نے اپنی کتاب میں علامہ حلی کی روش کا تتبع نہیں کیا بلکہ بہت سے مقامات پر دشنام طرازی سے کام لیا. اسکے باوجود اسکی کتاب کو کچھ نہ کچھ علمی کتاب کہا جا سکتا ہے اسی لئے بہت سے شیعہ علماء نے اسکی رد میں کتابیں لکھی تھیں.



٣- احقاق الحق

یہ کتاب شہید ثالث سید نور الله حسین شوستری کی لکھی ہوئی ایک ضخیم کتاب ہے. اس کتاب میں ابن روزبھان کی ابطال الباطل کا جواب دیا گیا ہے. آیت الله العظمیٰ شہاب الدین مرعشی نجفی نے اس کتاب پر حاشیہ لکھا ہے اور حاشیہ سمیت اس وقت اس کتاب کی ٢٥ جلدیں ہیں.

مولف کتاب نے بہترین دلائل پیش کئے ہیں اور کتب اہل سنت سے احادیث و روایات کی تخریج کی ہے. سچ یہ ہے کی یہ کتاب تمام مسلمانوں کے لئے ایک تحفہ ہے کیونکہ فرد واحد نے اتنا بڑا کام کیا ہے جس کے لئے ایک پوری جماعت کی ضرورت ہوتی ہے.



٤- دلائل الصدق

٣ جلدوں پر مشتمل یہ کتاب علامہ شیخ محمد حسن مظفر کی تالیف ہے. اس کتاب میں علامہ موصوف نے ابن روزبھان کی کتاب ابطال الباطل کے دلائل کی کاٹ کی ہے نیز انہوں نے ابن تیمیہ کی کتاب 'منھاج السنہ' کا بھی رد لکھا ہے. واضح رہے کی ابن تیمیہ نے یہ کتاب علامہ حلی کی 'منھاج الکرامہ' کی رد میں لکھی تھی. علامہ مظفر نے ابن تیمیہ کی کتاب کی مکمل تردید نہیں کی ہے، انہوں نے یہ لکھا ہے کہ اگر منھاج السنہ کا مولف بدزبان اور دشمن محمد و آل محمد علیھم السلام نہ ہوتا تو اسکی کتاب پر مکمل بحث کی جا سکتی تھی لیکن چونکہ ابن تیمیہ آل محمد علیھم السلام کا بدترین گستاخ ہے اور اسکی تحریر بھی اس لائق نہیں ہے کہ اس کے جواب میں سر کھپایا جاۓ. [دلائل الصدق، ج ١، ص ٣]



٥- الغدیر

١١ جلدوں پر مشتمل یہ عظیم کتاب علامہ عبد الحسین امینی کی تالیف ہے. یہ عظیم انسائیکلوپیڈیا محقق کی ان تھک شبانہ روز کاوشوں کا ثمر ہے. انہوں نے ہر طرح کے مستند دلائل سے مذهب اہلبیت ع کا اثبات کیا ہے اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے اہلسنت کی ٩٤،٠٠٠ کتابوں سے استفادہ کیا ہے. انہوں نے ضمنی طور پر اہلسنت کی حسب ذیل کتابوں کی بھی تردید کی ہے کیونکہ ان کتابوں میں مذهب شیعہ پر تنقید کی گئی ہے.

١- العقد فرید ٢- الفرق بین الفرق ٣- الملل و النحل ٤- منھاج السنہ ٥- البدایہ ا النھایہ ٦- المحصر ٧- السنہ و الشیعہ ٨- الصراع ٩- فجر الاسلام ١٠- ظہر الاسلام ١١- ضحی الاسلام ١٢- عقیدہ الشیعہ

علامہ امینی نے مذکورہ بالا کتابوں کے تمام الزامات کے بڑے ٹھوس جوابات دئے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ کتاب میں کوئی تعصب اور ناحق جدل کا شائبہ تک موجود نہیں ہے. کتاب کا طرز بیان شستہ اور محققانہ ہے.



٦- عبقات الانوار

اس کتاب کو مذهب اہلبیت ع کے اثبات کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاۓ تو بیجا نہ ہوگا. اس کتاب میں مذهب اہلبیت کا دفاع کیا گیا ہے اور مخالفین کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے. اس کتاب کا نام 'عبقات الانوار فی امامت الائمہ الاطھار' ہے. یہ کتاب ہندستان کے عظیم عالم، فقیہ، مجتہد، محقق سید حامد حسین بن سید محمد قلی کی تالیف ہے. شاہ عبد العزیز نے شیعہ عقائد کی رد میں تحفہ اثنا عشریہ لکھی تھی- یہ کتاب اس کتاب کی رد میں اور جواب میں لکھی گئی تھی. یہ کتاب دس ضخیم جلدوں پر مشتمل تھی.

تحفہ اثنا عشریہ کی رد میں شیعہ علماء نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں سے حسب ذیل کتابیں سرفہرست ہیں :

١- احمد بن عبد النبی نیشاپوری کی السیف المسلول علی مخر بی دین الرسول

٢- آیت الله العظمیٰ سید دلدار علی تقی لکھنوی کی ٤ کتب.

٣- میرزا محمد کشمیری کی النزھه اثنا عشریہ

٤- سید محمد قلی کی الاخبار الاثنا عشریہ المحمدیہ

٥- شیخ سبحان علی خاں ہندی کی الوجیز فی الاصول

٦- سید محمد بن سید کی الامامہ

سید مذکور نے فارسی زبان میں بھی ایک کتاب البوارق الالاہیه لکھی تھی.



تحفہ اثنا عشریہ کی رد میں مفصل ترین کتاب عبقات الانوار ہے. اس کتاب کے مولف کا طرز تحریر انکی علمیت اور عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے. ان کی تحریر انکے علمی تبحر اور مختلف اقوال سے انکی واقفیت کی دلیل ہے. انہوں نے مضبوط دلائل سے مخالفین کے تمام راستوں کو بینڈ کیا ہے اور انکے تمام بہانوں کو ختم کیا ہے اور انکے تمام شبہات کا رد کیا ہے اور اگر انہوں نے مخالف کی کسی دلیل کی تردید کی ہے تو انتہائی احسن انداز اور علمی طریقہ سے کی ہے.

عبقات کے عظیم مولف نے دلائل نبوی، استدلال حیدری اور جوابات رضوی کو مدنظر رکھ کر کتب اہلسنت اور انکے بزرگوں کے اقوال سے ہی معترض کے جواب دئے ہیں. [محقق کی کتاب کے دیباچہ سے اقتباس]

مخالفین کو آج تک عبقات الانوار کا جواب لکھنے کی جرأت نہیں ہوئی. یہ سنی علماء کی عاجزی کا خلا ثبوت ہے.



تحفہ اثنا عشریہ کی رد میں کئی کتابیں لکھی گئی تھیں. ان کتابوں کی رد میں سب سے پہلے محقق دوراں و مجتہد و فقیہ غفران مآب کی الصوارم الالاهیه اور صارم الاسلام منظر عام پر آی تھی. شاہ عبد العزیز دہلوی کے شاگرد رشید الدین دہلوی نے اسکے جواب میں الشوکہ العمریه نامی کتاب لکھی گئی. پھر اس کتاب کی رد میں علامہ باقر علی کی الحمله الحیدریہ چھپی تھی. اس کے بعد جناب مرزا محمد کشمیری کی النزھه اثنا عشریہ کے جواب میں ایک سنی عالم نے رجوم الشیاطین لکھی تھی. رجوم الشیاطین کے جواب میں سید جعفر موسوی نے معین الصادقین فی رد رجوم الشیاطین لکھی تھی. صاحب عبقات کے والد بزرگوار مجتہد سید قلی نے تحفہ کی رد میں الاجناد الاثنا عشریہ المحمدیہ لکھی. پھر رشید الدین دہلوی نے سید محد قلی کی رد میں ایک اور کتاب لکھی. اسکے بعد سید محمد قلی نے جواب الجواب کے طور پر الاجوبه الفاخرہ فی الرد علی الاشاعره نامی کتاب لکھی تھی.



اسکے تذکرہ کے لائق چند کتابیں درج ذیل ہیں :



معالم المدرستیں ٣ جلدوں پر مشتمل محقق دوراں علامہ سید مرتضی عسکری کی تالیف ہے.

المراجعات - یہ کتاب شیخ ازھر سلیم بشری اور علامہ سید عبد الحسین شرف الدین موسوی کے خطوط کا مجموعہ ہے.

الاجوبہ مسائل جار الله از عبد الحسین شرف دین

مع الخطیب فی خطوطه العریضه از لطف الله صافی

شبھات حول الشیعہ

کذبوا علی الشیعہ



ماخوذ از: حقیقت گمشدہ شیخ معتصم سید احمد سوڈانی ، صفحہ ١٧٠-١٧٦



انشاء الله جلد اہلسنت کی مندرجہ بالا کتب کی تحقیق و تنقید سامنے اے گی.



طالب دعا : احقر العباد قدسی رضوی

حضرت عمر کا یوم وفات ۔

حضرت عمر کا یوم وفات ۔

حضرت عمر کی تاریخ وفات کے باب میں دو قول مشہور ملتے ہیں۔

۔ 1 ۔ ایک قول یہ ھے کہ حضرت عمر زخمی ہونے کے بعد تین دن زندہ رہے اور پھر چھبیس 26 ذی الحجہ کو ان کا وصال ہوا ، چنانچہ علامہ قلقشندی ، اور حافظ ابن النجار البغدادی نے اسی قول کو اختیار کیا ھے ۔
علامہ قلقشندی لکھتے ہیں ۔

وطعنه أبو لؤلؤة الفارسي غلام المغيرة بن شعبة فبقي ثلاثاً ومات لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين من الهجرة
نهاية الأرب في معرفة أنساب العرب// جلد1 // صفحہ152// ۔

اسی قول کو حافظ ابن النجار البغدادی نے بھی اختیار کیا ھے،

وكانت وفاته رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين من الهجرة ۔

الدرة الثمينة في أخبار المدينة // ذکر وفات عمر // ۔

قلقشندی اور ابن النجار کے اس قول کی تایئید اس روایت سے بھی ہوتی ھے جس کو حافظ ابن شبہ نے اپنی تاریخ میں اور امام بیہقی نے سنن میں نقل کیا ھے، یہ روایت معدان ابن ابی طلحہ سے مروی ھے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے جمعہ کو خطبہ دیا اور جب ذی الحج کے چار دن باقی تھے، یعنی چھبیس ذی الحج کے دن حضرت عمر کا انتقال ہوا ملاحظہ ہو :
قال خطب لھم یوم الجمعة و مات یوم الأربعاء لأربع بقین من ذی الحجة ۔
السنن الکبری للبیھقی // رقم الحدیث 16578 //۔
تاریخ المدینة لأبن شبة // باب مقتل عمر // ۔

۔ 2 ۔ دوسرا قول جو کہ مشہور ھے، اور اسی قول کو جمھور مؤرخین اور علماء نے اپنی کتب میں بیان کیا ھے کہ ابو لؤلؤ نے چھبیس 26 ذی الحج کو ضرب لگائی تھی، جس سے حضرت عمر تین دن تک زخمی رہے اور پھر ان کا وصال ہوا اور حضرت صھیب رومی نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا، چنانچہ مؤرخ ابن اثیر نے اسی قول کو ابن قتیبہ سے نقل کیا ھے، ملاحظہ ہو ،

و قال ابن قتیبة : ضربه أبو لؤلؤة يوم الأثنين لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي، فصلى عَلَيْهِ صهيب ۔

أسد الغابة في معرفة الصحابة// جلد3// صفحہ676 //۔

مشہور سلفی محقق شیخ شعیب الأرنؤوط نے بھی مسند احمد کی تحقیق میں اسی قول کو اختیار کیا ھے، شیخ ارنؤوط رقمطراز ہیں ۔

وكانت خلافته رضي الله عنه عشر سنين وستة أشهر، ضربه أبو لؤلؤة المجوسي لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثاً وتوفي، فصَلَّى عليه صهيبٌ

المسند للأحمد // تحت رقم الحدیث 82 // مسند عمر //۔

یہ کلام تھا حضرت عمر کی تاریخ وفات کے باب میں، جہاں تک تدفین کی بات ھے تو بعضے علماء نے بیان کیا ھے، کہ حضرت عمر کو محرم کے پہلے دن دفن کیا گیا، تدفین کے اس قول کو ملا علی قاری نے شرح مشکاة میں اور حافظ ابن اثیر الجزری نے جامع الاصول میں اختیار کیا ھے، ملاحظہ ہو ،

وطعنه أبو لؤلؤة غلام المغيرة بن شعبة مصدر الحاج بالمدينة يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد غرة المحرم سنة أربع وعشرين ۔

جامع الاصول //جلد 12// صفحہ127// عمر بن الخطاب //۔

خلاصہ کلام : حضرت عمر کی تاریخ وفات سے متعلق جتنے بھی اقوال ہیں ان اقوال میں اختلاف اس حد تک ھے کہ ابو لؤلؤ نے ضرب کس دن لگائی ؟
جمھور کے نزدیک چھبیس ذی الحج ھے، بعض کے نزدیک چھبیس سے پہلے ضرب لگائی ، اور بعض کے نزدیک ستائیس ذی الحج کو ضرب لگائی ۔
لیکن ابو لؤلؤ کی ضرب اور حضرت عمر کی تدفین، ان دونوں باتوں سے قطع نظر ، کم از کم اس بات پر تو تمام مؤرخین و علماء کا اجماع ھے کہ حضرت عمر کا وصال ذی الحج کے مہینہ میں ہی ہوا ھے ، اس میں کوئی دو رائے نہی ہیں ۔ و اللہ اعلم بالصواب ۔


علمائے رجال کے قول کو کیوں حجت مانا جائے؟

قول رجالی کس لحاظ سے حجت ہے؟ کیوں ہم علمائے رجال کے قول کو مانیں؟ اس لحاظ سے ہمارے ہاں تین آراء ملتی ہیں؛

1) قول رجالی حجت ہے کیونکہ قول ثقہ حجت ہے۔ اکثر علماء کا یہی نظریہ ہے اور اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں "ان جاءکم فاسق بنبا فتبیّنو"۔۔۔۔ یعنی کوئی فاسق خبر لائے تو فورا نہ مانیں بلکہ تحقیق کریں لیکن اگر ثقہ خبر لائے تو قبول کریں۔

2) دوسرا قول کہتا ہے کہ قول رجالی اسی طرح سے حجت ہے جس طرح سے کسی فیلڈ کے ایکسپرٹ کی بات حجت ہے۔ مثلا ڈاکٹر کی بات کسی زخم کی دیت کے بارے میں حجت ہے کہ کتنا زخم لگا ہے۔ لہذا فقہی ابواب میں تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی فیلڈ میں اس کے ایکسپرٹ کی بات حجت ہے، اور یہی بات قول رجالی میں بھی ہے۔

3) ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ قول رجالی باب شہادت سے ہے، یعنی جس طرح عادل گواہوں کی بات حجت ہے اسی طرح علمائے رجال کا قول حجت ہے۔ ان کے مطابق ضروری ہے کہ یہ گواہ حسّی ہوں اور کم سے کم دو گواہ ہوں کیونکہ شہادت کی آیت "واستشھدو شھیدین من رجالکم" کہتا ہے کہ دو گواہ کم سے کم ضروری ہیں۔

محقق اردبیلی کے دو شاگرد صاحب معالم (شیخ حسن عاملی) اور صاحب مدارک (سید محمد موسوی عاملی) اس کے قائل ہیں۔

اگر پہلے اور دوسرے قول کو قبول کریں تو ایک گواہی یا قول کافی ہے، لیکن اگر تیسری رائے کو قبول کریں تو دو گواہیاں لازمی ہیں۔ اکثر نے پہلے دو اقوال پر تکیہ کیا ہے اور تیسرا قول اپنی محدودیت کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔

اوّل تو یہ کہ تمام جگہ پر دو شہادتیں ضروری نہیں ہیں، کیونکہ بعض جگہ ایک گواہ بھی کافی ہے ۔ مثلا کسی کا انتقال سفر میں ہو جائے تو اس کی وفات کی خبر کی حجیت کے لئے ایک گواہ کافی ہے۔ حتی بعض موارد میں ضروری بھی نہیں کہ گواہ مسلمان ہو۔

دوّم یہ کہ ہر راوی کے بارے میں ہمارے پاس دو گواہیاں نہیں مل سکتیں، لہذا اس سے توثیق و تضعیف کافی مشکل ہو جائے گی۔

اسی لئے علماء صاحب معالم و صاحب مدارک کی تصحیحات کو "صحیح اعلائی" کہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا کسی خبر کو صحیح قرار دینا ہمیں ایک قوی فیکٹر مہیّا کرتا ہے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی


غیرت کے نام پر قتل

سوال) کیا اسلام میں غیرت کے نام پر قتل جائز ہے؟ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر مرد اپنی بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھے تو وہ اپنی بیوی اور زانی کو قتل کر سکتا ہے۔ یہ بات کس حد تک درست ہے؟ کیا اس کی بنیاد پر غیرت کے نام پر قتل کی اجازت مل سکتی ہے؟

جواب) اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس میں عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ کسی عام شخص کو ہرگز یہ اجازت نہیں کہ وہ خود سزائیں دینے لگے، بلکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی نام پر قتل عمد کا مرتکب ہوگا تو وہ اسلامی قوانین کے تحت قاتل ٹھہرے گا اور اس کو قتل کی سزا ہوگی۔ البتہ کچھ مورد میں استثنی ہے لیکن ان کے ذکر کا یہ محل نہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کسی بھی صورت جائز نہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں رائج ہے۔ عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ محض تعلق کے شبہ میں قتل کر دیا جاتا ہے، اور اگر یقین بھی ہے تب بھی لڑکا اور لڑکی کو قتل کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے، چاہے وہ باپ ہو یا بھائی یا خاتون کا میاں۔ یہاں تک کہ اگر انسان زانی و زانیہ کو اپنی آنکھوں سے فعل حرام کا ارتکاب کرتے دیکھے تب بھی اس کو قتل کرنے کا اختیار نہیں ہے، جب بات اس حد تک پہنچنے کے باوجود قتل کی اجازت نہیں ہے تو کجا محض تعلقات کے شبہ پر قتل کر دیا جائے۔

البتہ فقہاء نے ایک استثنی بیان کیا ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو کسی اور کے ساتھ فعل حرام کا ارتکاب کرتے دیکھے اور اس کو یقین ہو کہ بیوی کی رضامندی شامل ہے تو وہ اس کو قتل کر سکتا ہے۔ یہ مورد بھی محض شوہر کے لئے ہے، خاتون کے والد یا بھائی یا کسی اور رشتہ دار کے لئے نہیں۔

لیکن جب ہم اس معاملے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں اس فتوی کی کوئی اصل نظر نہیں آتی،

اوّل تو یہ کہ قرآن مجید میں یہ حکم بیان نہیں ہوا،

دوّم یہ کہ اس معاملے پر کوئی بھی صحیح السند حدیث نہیں ہے۔ جو کچھ احادیث سے بیان ہوا ہے وہ اپنے گھر میں جان بچانے کے لئے اپنے دفاع کے لئے قتل کرنے کی اجازت ہے، مثلا کسی کے گھر کوئی ڈاکو گھسے تو اس کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس مسئلے کا زنا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سوّم یہ کہ یہ فتوی قرآن کی صریح روح سے متصادم ہے۔ اسلام میں بالخصوص قرآن میں انسان کی زندگی کی بہت قدر و قیمت ہے، کسی کی زندگی ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ لہذا قتل جیسے فعل شنیع کی اجازت کے لئے واضح اور قطعی دلائل ہونے چاھئیں جیسے قرآن کی آیت یا متواتر حدیث۔ یہاں متواتر تو کجا کوئی صحیح السند حدیث بھی نہیں۔

چہارم یہ اس کی اجازت دینے لگیں تو چھوٹے موٹے شک کی صورت میں مرد اپنی بیوی یا کسی بھی دوسرے شخص کو قتل کرتا رہے گا اور اس کو غیرت کا نام دے گا جیسا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں عام ہے۔ اس بات کو یقینی کیسے بنایا جائے گا کہ کسی مرد نے واقعی اپنی زوجہ کو حالت زنا میں قتل کیا ہے؟ یہاں تو فقط زوجہ کا کسی اور مرد کے ساتھ بیٹھے ہونے پر غیرت جوش میں آ جاتی ہے، اور معاملہ اس وقت سنگین ہو جاتا ہے جب دونوں بے قصور ہوں اور محض شک کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے۔ اس صورتحال میں ایسا فتوی ایک کھلا اجازت نامہ یعنی "اوپن لائسنس" ہے کہ جاؤ جیسے چاہو بیوی کو قتل کرو، تم سے کوئی بازپرس نہیں ہے۔

پنجم یہ کہ جن فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے ان کے مطابق مرد فقط اسی صورت میں زوجہ کو قتل نہیں کر سکتا جب اس کو معلوم ہو کہ اس میں اس کی زوجہ کی مرضی شامل نہیں، اس صورت میں وہ صرف مرد کو قتل کر سکتا ہے۔ اب یہ کون ثابت کرے گا کہ زوجہ کی مرضی تھی یا نہیں؟ محض اس حالت میں دیکھ کر نہ بیوی کی مرضی کا پتہ چل سکتا ہے اور نہ مرد کی۔ لہذا اس اجازت کی صورت میں شوہر دونوں کو قتل کر کے دندنا سکتا ہے، کسی کی بیگناہی معلوم نہیں ہو سکتی۔

ششم یہ کہ آیت اللہ العظمی خوئی، آیت اللہ شیخ حسینعلی منتظری اور رھبر آیت اللہ خامنہ ای جیسے فقہاء نے اس کی ہرگز اجازت نہیں دی اور مشہور قول سے اختلاف کیا ہے۔

ہفتم یہ کہ شیخ طوسی سے پہلے یہ مسئلہ کسی نے بیان نہیں کیا۔ ان کے بعد تقریبا ہر فقیہ نے انہی کی تقلید کی، اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شیخ طوسی نے یہ فتوی اہلسنّت سے لیا

ہشتم یہ کہ اس طرح کے احکامات سے اسلام کا انتہائی کریہہ چہرہ دنیا کے سامنے آ جاتا ہے، بالفاظ دیگر یہ وہن مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔

ان باتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہرگز اس طرح کے کسی عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


آئمہ ع اور محرّم کا مہینہ

قَالَ امام رضا ع كَانَ أَبِي إِذَا دَخَلَ شَهْرُ الْمُحَرَّمِ لَا يُرَى ضَاحِكاً وَ كَانَتِ الْكَآبَةُ تَغْلِبُ عَلَيْهِ حَتَّى يَمْضِيَ مِنْهُ عَشَرَةُ أَيَّامٍ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْعَاشِرِ كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ يَوْمَ مُصِيبَتِهِ وَ حُزْنِهِ وَ بُكَائِهِ وَ يَقُولُ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ الْحُسَيْنُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْه

امام رضا(ع): جب ماہ محرم آتا تھا تو کوئی بھی شخص میرے والد بزرگوار امام موسیٰ کاظم ع کو ہنستے ہوئے نہ پاتا تھا ، دس دن تک آپ ع پر غم و اندوہ طاری رہا کرتا اور جب عاشورا کا دن آتا تو یہ آپ کے لئے مصیبت، حزن و ملال اور گریہ و بکاء کا دن ہوتا تھا اور فرماتے تھے کہ آج وہ دن ہے جب امام حسین ع کو قتل کیا گیا۔

(امالی شیخ صدوق ص119، بحارالانوار ج44 ص283)

مذکورہ حدیث کی سند معتبر ہے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


محرّم کا مہینہ

امام رضا (عليه ‌السلام): إنَّ المُحَرَّمَ شَهرٌ كانَ أهْلُ الجاهِلِيَّةِ يُحَرِّمُونَ فِيهِ القِتالَ، فَاسْتُحِلَّت فِيهِ دِماؤُنا، وَهُتِكَتْ فِيهِ حُرْمَتُنا، وَسُبِيَ فِيهِ ذَرارِينا وَنِساؤُنا

امام رضا (عليه ‌السلام): محرّم وہ مہینہ ہے جس میں حتی کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بھی جنگ کرنا حرام سمجھتے تھے، (لیکن) اس ماہ میں ہمارے خون کو حلال سمجھا گیا، ہماری حرمت کی پامالی کی گئی، اور ہماری اولاد اور ہماری عورتوں کو قیدی بنایا گیا۔

امام رضا (عليه ‌السلام): محرّم ماهی است كه [حتّی] مردم زمان جاهليّت جنگ را در آن حرام می‌دانستند، [امّا] در آن ماه خون ما را حلال شمردند، حرمت ما را پايمال و فرزندان و زنان ما را اسير كردند

Imam Raza(as): Muharram is the month when even people of the Jāhillīyya time declared fighting unlawful, [but never less] in that month they declared shedding our blood lawful, trampled upon our honor and captured our children and women.

(بحار الأنوار، ج 44، ص 283)

اس حدیث کی سند معتبر ہے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


مام زمانہ عج کے زمانے کی ایک حقیقت

علامہ مجلسی بحارالانوار میں فضل بن شاذان کی کتاب سے اس کی اسناد سے یہ روایت نقل کرتے ہیں؛

وَ بِإِسْنَادِهِ يَرْفَعُهُ إِلَى ابْنِ مُسْكَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ الْمُؤْمِنَ فِي زَمَانِ الْقَائِمِ وَ هُوَ بِالْمَشْرِقِ لَيَرَى أَخَاهُ الَّذِي فِي الْمَغْرِبِ وَ كَذَا الَّذِي فِي الْمَغْرِبِ يَرَى أَخَاهُ الَّذِي فِي الْمَشْرِق

عبداللہ ابن مسکان کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق ع کو کہتے سنا: "قائم (آل محمد) ارواحنا فداہ کے زمانے میں مشرق میں موجود مومن، مغرب میں موجود مومن کو دیکھے گا۔ اور بالعکس جو مغرب میں ہے وہ مشرق میں موجود اپنے مومن بھائی کو دیکھے گا۔"

(بحارالانوار: جلد 52 ص391)

اسی طرح کافی میں شیخ کلینی رح نے یہ روایت نقل کی؛

عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ الشَّامِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ مَدَّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِشِيعَتِنَا فِي أَسْمَاعِهِمْ وَ أَبْصَارِهِمْ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقَائِمِ بَرِيدٌ يُكَلِّمُهُمُ فَيَسْمَعُونَ وَ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ وَ هُوَ فِي مَكَانِه

ابی الرّبیع شامی کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) کو میں نے فرماتے سنا: "جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو اللہ ہمارے شیعوں کی سماعتوں اور بصارتوں کو اتنی قوّت دے گا کہ ان کے درمیان اور قائم عج کے درمیان کسی قاصد کی ضرورت نہ ہوگی۔ ہمارا قائم(عج) ان سے گفتگو کرے گا اور وہ لوگ ان کو سنیں گے اور دیکھیں گے جبکہ آپ(عج) اپنی جگہ پر ہی موجود ہوں گے۔"

(الكافي ج8، ص: 241؛ الخرائج و الجرائح، ج2، ص: 840)

احادیث پر تبصرہ:

یہ دونوں احادیث امام زمانہ عج کے دور میں ٹیکنالوجی کی ترقّی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آجکل کے جدید دور میں یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی جگہ پر بیٹھے مشرق و مغرب، شمال و جنوب اور دنیا کے گوشہ و کنار میں موجود کسی سے بھی فون اور انٹرنیٹ پر رابطہ کر سکتے ہیں، ان کی آواز سنتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہیں۔ اگر ہم علامہ مجلسی کے دور کا سوچیں تو ان کے زمانے میں لوگوں کو یقینا یہ بات عجیب لگتی ہوگی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی جگہ بیٹھے اس طرح میلوں دور لوگوں کی آواز سنیں یا ان کو دیکھیں۔ علامہ مجلسی کا زمانہ تو بہت دور کی بات، ٹیلی فون کی ایجاد سے پہلے یہ بات ناممکن لگتی تھی کہ تاروں کے ذریعے آواز بھی سن سکتے ہیں، اور شاید آج سے بیس برس پہلے یہ بات عجائب میں لگتی ہوگی کہ اس طرح ایک دوسرے کو میلوں دور سے دیکھتے ہوئے بات بھی کر سکیں۔ لیکن سائنس نے یہ سب کر دکھایا اور آج ہم ان احادیث کو سمجھ سکتے ہیں اور آئمہ(ع) کی احادیث پر ہمارا مکمّل ایمان بڑھ جاتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ علامہ مجلسی کے دور میں کوئی "کج فہم" ان احادیث کا انکار کرے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اور قرآن کی آیت پیش کرے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی مشرق و مغرب کا حال نہیں جان سکتا، جبکہ اس حدیث کو سمجھنے کے لئے وقت چاھئے تھا لیکن یہ "کج فہم" اپنی "کج فہمی" کی وجہ سے آئمہ(ع) کے اقوال کا انکار کر بیٹھتے۔

اور یہ بات بھی عجیب ہوگی کہ پہلی روایت سند کے اعتبار سے مرفوع کہلائے گی جبکہ دوسری روایت مجہول ہے۔ گویا دونوں روایات ضعیف ہیں، لیکن ان کے متن کو دیکھا جائے تو اس حدیث کے صادر ہونے پر پختہ ایمان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ضروری نہیں کہ جو روایت مرفوع یا مرسل ہو یا اس کے راوی کے احوال نہ ملتے ہوں تو ہم اس روایت کو رد کر دیں، بلکہ ہم دیگر قرائن کی مدد سے روایت کے صدور کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

اس بات سے درج ذیل حقائق آشکار ہوتے ہیں؛

اوّل) سو فیصد رجال کے سخت اصولوں پر چلنا درست نہیں بلکہ جمہور علمائے شیعہ "وثوق صدوری" کے قائل ہیں

دوّم) جو روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہو، ممکن ہے کہ وہ متن کے حوالے سے قوی ہو

سوّم) امام زمانہ (عج) کے وجود پر ان روایات کو جمع کیا جائے جو "وثوق صدوری" پر پورا اترتے ہوں تو ایسی روایتیں سینکڑوں میں ہوں گی۔ اب ان سینکڑوں روایتوں کو متواتر نہ کہا جائے تو پھر متواتر کس کو کہتے ہیں؟

چہارم) کلام معصوم(ع) حق ہے اگر "وثوق صدوری" کے معیار پر پورا اترا جائے۔

پنجم) "کج فہمی" کا نتیجہ گمراہی ہے، لہذا لازمی ہے کہ منحرفین کی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے علمائے حق کی بات سنی جائے اور اس کو مانا جائے۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


عید کے ایام میں تکبیرات کا حکم

عید والے دن ظہر کی نماز سے لے کر ذی الحجہ کی تیرھویں تاریخ میں فجر کی نماز تک ہر نماز کے بعد تکبیر کہنا سنّت مؤکدہ ہے، یہ کل دس نمازیں بنتی ہیں۔۔۔۔ جو لوگ حج کے لئے منی میں ہیں ان کے لئے پندرہ نمازوں تک تکبیر کہنا مستحب ہے، اور عام دنوں میں دس نمازوں تک۔

جیسا کہ مروی ہے کہ امام علی(ع) عید والے روز ظہر پڑھ کر تکبیرات کہنے کا سلسلہ شروع کرتے تھے اور ایام تشریق کے آخری دن (13 ذی الحج) کو فجر پڑھ کر ختم کرتے تھے اور یہ تکبیر پڑھتے تھے؛

اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الاّ اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد

دیگر روایات میں "اللہ اکبر علی ما ھدانا اللہ" کا بھی اضافہ ملتا ہے

ایک روایت میں ان تکبیرات کے واجب ہونے کا بھی ذکر ہے لیکن شیخ طوسی نے اس کو سنّت مؤکدہ ہونے پر محمول کیا ہے۔

(وسائل الشیعہ، کتاب الصلوہ، نماز عید کا باب نمبر 22)

ان تکبیرات کو پڑھ کر خاکسار کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


قربانی کا صحیح وقت کیا ہے؟

سوال) کئی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ نماز فجر کے فورا بعد قربانی کی جاتی ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب) جب ہم آئمہ ع کی سیرت اور اقوال میں غور کرتے ہیں تو ہمیں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی جس میں نماز فجر کے بعد قربانی کا ذکر ہو، بلکہ اس کے برعکس ہمیں ملتا ہے کہ قربانی سورج چڑھنے کے بعد ہی کی جائے گی۔ افضل اور بہتر یہ ہے کہ نماز عید پڑھنے کے بعد قربانی کی جائے، اور مسنون و مستحب ہے کہ قربانی تک کچھ کھایا پیا نہ جائے اور قربانی کے گوشت سے افطار کیا جائے۔

کچھ احادیث پیش خدمت ہیں؛

1) عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قُلْتُ لَهُ مَتَى يُذْبَحُ قَالَ إِذَا انْصَرَفَ الْإِمَامُ قُلْتُ فَإِذَا كُنْتُ فِي أَرْضٍ لَيْسَ فِيهَا إِمَامٌ فَأُصَلِّي بِهِمْ جَمَاعَةً فَقَالَ إِذَا اسْتَقَلَّتِ الشَّمْسُ وَ قَالَ لَا بَأْسَ بِأَنْ تُصَلِّيَ وَحْدَكَ وَ لَا صَلَاةَ إِلَّا مَعَ إِمَام

سماعہ سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ قربانی کب کی جائے؟ آپ(ع) نے جواب دیا کہ جب امام (نماز پڑھا کر) واپس ہو جائے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ میں کسی ایسی جگہ ہوں جہاں کوئی امام نہ ہو جس کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے۔ تو آپ(ع) نے جواب دیا کہ جب سورج تھوڑا بلند ہو جائے (تب قربانی کرو)۔

پھر آپ(ع) نے فرمایا کہ فرادی(علاحدہ) پڑھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور امام (پیشنماز) کے بغیر یہ واجب نہیں ہے۔

(تہذیب الاحکام: ج3 ص276)

مذکورہ حدیث کی سند میں تمام راوی ثقات ہیں، لیکن ایک راوی واقفی المذہب جس کی وجہ سے سند مؤثق ٹھہرے گی۔

2) عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: لَا تَخْرُجْ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى تَطْعَمَ شَيْئاً وَ لَا تَأْكُلْ يَوْمَ الْأَضْحَى شَيْئاً إِلَّا مِنْ هَدْيِكَ وَ أُضْحِيَّتِكَ وَ إِنْ لَمْ تَقْوَ فَمَعْذُور

زرارہ امام باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا: عید الفطر والے دن اس وقت تک نماز پڑھنے کے لئے باہر نہ نکلو جب تک کچھ کھا پی نہ لو، اور عید الاضحی والے دن کچھ نہ کھاؤ جب تک (نماز کے بعد) قربانی کے گوشت میں سے نہ کھا لو۔ اور اگر (بھوک برداشت کرنے کی) طاقت نہ ہو تو پھر تم معذور ہو۔

(من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ص508)

شیخ صدوق کا طریق زرارہ تک صحیح ہے، پس یہ روایت اصطلاح میں صحیح قرار پائے گی۔

3) نیز من لا یحضرہ الفقیہ میں یہ روایت بھی ہے؛

عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع لَا يَأْكُلُ يَوْمَ الْأَضْحَى شَيْئاً حَتَّى يَأْكُلَ مِنْ أُضْحِيَّتِهِ وَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ وَ يُؤَدِّيَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ قَالَ وَ كَذَلِكَ نَفْعَلُ نَحْن

زرارہ کہتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا: امیر المؤمنین(ع) قربانی والے دن کچھ نہیں کھاتے تھے جب تک (نماز کے بعد) اپنی قربانی کا گوشت نہ کھا لیتے۔ اور عید الفطر والے دن اس وقت تک نماز کے لئے نہ نکلتے تھے جب تک کچھ کھا نہیں لیتے اور فطرہ ادا نہ کر لیتے۔ پھر آپ(ع) نے فرمایا کہ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

4) عَنْ جَرَّاحٍ الْمَدَائِنِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: اطْعَمْ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ تُصَلِّيَ وَ لَا تَطْعَمْ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتَّى يَنْصَرِفَ الْإِمَام

جرّاح مدائنی امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا: عید فطر والے دن نماز سے پہلے کھاؤ اور عید اضحی والے دن تب تک مت کھاؤ جب تک امام (پیشنماز) واپس نہ لوٹے۔

مذکورہ روایت شیخ کلینی نے کافی میں، شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں اور شیخ طوسی نے تہذیب الاحکام میں نقل کی ہے۔ اس کے اصل راوی جرّاح المدائنی کی توثیق کہیں وارد نہیں ہوئی لیکن ذکر ہے کہ یہ صاحب کتاب تھا۔ البتہ مشایخ ثلاث (کلینی و صدوق و طوسی) تینوں نے اپنی کتب میں نقل کیا اور اس کے متن کی تائید دیگر احادیث صحیحہ و مؤثقہ سے ہوتی ہے لہذا یہ روایت معتبر ٹھہرے گی۔

نتیجہ گیری:

جو کچھ معصومین(ع) سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ قربانی سورج چڑھنے کے بعد کی جائے گی جب لوگ نماز عید پڑھ چکے ہوں اور امام نماز پڑھا کر واپس لوٹ چکا ہو۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے نماز پڑھی ہو تبھی قربانی کر سکتے ہیں، بلکہ اگر مساجد میں لوگ پہلی نماز پڑھ لیں اور امام واپس چلا جائے تو آپ قربانی کر سکتے ہیں، چاہے آپ اس کے بعد نماز عید پڑھیں جیسا کہ بہت سی جگہوں پر نماز عید مختلف جگہوں میں مختلف شفٹ میں ادا کی جاتی ہے۔

البتہ بہتر اور افضل یہ ہے کہ آپ پہلے نماز عید پڑھیں اس کے بعد قربانی کریں، اور اس دن پہلا لقمہ اپنی قربانی کے گوشت کا کھائیں۔

قربانی کا گوشت خود بھی کھائیں اور اپنے پڑوسیوں، رشتہ داروں، عزیزوں نیز غرباء و مساکین کو ضرور کھلائیں اور مجھ خاکسار کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔

ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ