بدھ، 15 جولائی، 2015

٭رمضان کا چاند٭

٭رمضان کا چاند٭
آج سولہ جون کو کہیں پر بھی رمضان کا چاند دکھائی دینے کے کوئی آثار نہیں۔ سترہ جون کی شب رمضان کا چاند جنوبی امریکہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ، افریقہ، جنوبی ہندوستان (بمبئی، دکّن و کیرالہ)، سری لنکا، مالدیپ، سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں، یمن، ملائشیا و انڈونیشیا اور آسٹریلیا میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔
جبکہ ایران و عراق، شام و لبنان، پاکستان میں سندھ و بلوچستان، ہندوستان میں دہلی و اتر پردیش و بہار، بنگلہ دیش اور برما وغیرہ میں چاند نظر آنے کے بہت کم چانسز ہیں
 ...لیکن رؤیت ممکن ہے لہذا عادل گواہ ہوں تو قبول کر سکتے ہیں۔
یورپ میں کہیں پر بھی چاند نظر آنے کا کوئی چانس نہیں ہے سوائے اسپین، پرتگال اور اٹلی کے جزیرہ سسلی۔ لہذا یورپ میں پہلی رمضان 19 جون کو ہوگی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر، پاکستان کے شمالی علاقوں جیسے گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، خیبر پختوانخواہ کے اکثر جگہوں پر چاند نظر آنے کے کوئی چانسز نہیں لہذا یہاں کسی قسم کی رؤیت کا دعوی درست نہیں۔
اسی طرح وسطی ایشائی ریاستوں، قفقاز کی ریاستوں، چین و جاپان، کوریا، روس و منگولیا میں بھی چاند نظر نہیں آ سکتا۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
 
 

٭مومن کو شاد کرنے کی فضیلت٭

٭مومن کو شاد کرنے کی فضیلت٭
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فِي حَدِيثٍ طَوِيلٍ إِذَا بَعَثَ اللَّهُ الْمُؤْمِنَ مِنْ قَبْرِهِ خَرَجَ مَعَهُ مِثَالٌ يَقْدُمُ أَمَامَهُ كُلَّمَا رَأَى الْمُؤْمِنُ هَوْلًا مِنْ أَهْوَالِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ لَهُ الْمِثَالُ لَا تَفْزَعْ وَ لَا تَحْزَنْ وَ أَبْشِرْ بِالسُّرُورِ وَ الْكَرَامَةِ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ حَتَّى يَقِفَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَيُحَاسِبُهُ حِساباً يَسِيراً وَ يَأْمُرُ بِهِ إِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمِثَالُ أَمَامَهُ فَيَقُولُ لَهُ الْمُؤْمِنُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ نِعْمَ الْخَارِجُ خَرَجْتَ مَعِي مِنْ قَبْرِي وَ مَا زِلْتَ تُبَشِّرُنِي بِالسُّرُورِ وَ الْكَرَامَةِ مِنَ اللَّهِ حَتَّى رَأَيْتُ ذَلِكَ فَيَقُولُ مَنْ أَنْتَ فَيَقُولُ أَنَا السُّرُورُ الَّذِي كُنْتَ أَدْخَلْتَ عَلَى أَخِيكَ الْمُؤْمِنِ فِي الدُّنْيَا خَلَقَنِي اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْهُ لِأُبَشِّرَك
امام جعفر صادق(ع) ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں؛ "جب اللہ تعالی کسی مومن کو اس کی قبر سے محشور کرے گا تو اس کے ساتھ ایک صورت بھی ہوگی جو اس کے ساتھ ساتھ ہوگی۔ قیامت کی جن ہولناکیوں سے مومن گزرے گا وہ صورت اس کو کہے گی کہ مت ڈرو اور غم و اندوہ کو اپنے پاس نہ پھٹکنے دو، میں تمہیں اللہ عزّوجل کی طرف سے خوشی و سرور اور کرامت کی بشارت دیتا ہوں۔ یہاں تک کہ مومن اللہ کے پاس حساب کیلئے پہنچے گا، پس اللہ اس کا حساب آسان کرے گا اور اس کو جنّت میں جانے کا حکم دے گا۔ وہ صورت اسی طرح اس کے آگے آگے ہوگی، مومن اس سے کہے گا کہ تم پر اللہ کی رحمت ہو، تم وہ بہترین ساتھی تھے جو میرے ساتھ قبر سے خارج ہوئے اور مجھے خوشی و سرور اور کرامت کی بشارت دیتے رہے تاآنکہ میں نے ان کو پا لیا، پس تو کون ہے؟
وہ صورت کہے گی: میں وہ راحت ہوں جو تو نے دنیا میں اپنے مومن بھائی کو پہنچائی (یعنی اس کو خوش کیا)۔ اللہ نے محھے اس (سرور) سے خلق کیا تاکہ تمہیں بشارت دوں۔"
(اصول کافی: ج2 ص190)
رجال و درایۃ الحدیث:
اس حدیث کو شیخ کلینی نے اس سند کے ساتھ نقل کیا؛
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ سَدِيرٍ الصَّيْرَفِي
اس میں تمام راوی ثقہ ہیں، لیکن سدیر صیرفی کی توثیق نہیں وارد ہوئی البتہ وہ ممدوح ہیں۔ لہذا یہ حدیث "حسن" کے درجے پر ہے۔
اس حدیث کو کم و بیش انہی الفاظ کے ساتھ شیخ مفید کی امالی میں بھی اس سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے؛
قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الْقَاسِمِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُولَوَيْهِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ أَبِيه (امالی مفید: ص177)
شیخ مفید نے یہ حدیث ابن قولویہ سے نقل کی جو بزرگ محدّثین میں سے ہیں۔ ابن قولویہ نے اپنے والد اور انہوں نے سعد بن عبداللہ اشعری سے نقل کیا۔ البتہ یہاں حسن بن محبوب براہ راست سدیر سے نقل نہیں کر رہے بلکہ ان کے بیٹے حنان بن سدیر کے واسطے سے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کافی کی روایت میں حنان بن سدیر محذوف ہے۔ شیخ طوسی نے بھی ابن قولویہ سے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث نقل کی ہے (امالی طوسی: ص195)
فوائد الحدیث:
سند کی خوبصورتی کے ساتھ یہ حدیث ہم سب کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ آجکل کے دور میں جب اناپرستی و تعصّب انسان کو مجبور کرتی ہے کہ دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے اور اپنی ذات کے خول سے نہ نکلے، وہاں معصوم کا یہ فرمان کہ ایک مومن کو شاد کرنے یا سرور پہنچانے کا یہ اجر و ثواب ہے، اس معاشرے میں اکسیر ثابت ہوگا جہاں مذہب کے نام پر مومنین کی توہین بہت عام ہے۔ مذہب فقط لوگوں کے زبان کا چٹخارہ بن کر رہ گیا ہے جہاں حقوق العباد بالکل مفقود ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں حقیقی مومن بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
 
 

روزوں سے متعلق ایک اہم مسئلہ

اگر روزے کسی شرعی عذر کی وجہ سے قضا ہوئے ہیں جیسے سفر کی وجہ سے یا کسی مرض کی وجہ سے یا مخصوص ایّام کی وجہ سے، تو اگر آنے والے رمضان تک قضا نہیں کی تو قضا کا کفّارہ دینا ہوگا یعنی ہر روزے کے بدلے ایک مد طعام دینا ہوگا۔
لہذا اگر آپ کے پچھلے رمضان کے روزے قضا ہیں تو اس رمضان سے پہلے پہلے رکھ لیں۔ اگر نہ رکھ پائیں تو ہر روزے کے بدلے ایک "مد" کھانا کسی غریب یا مسکین کو دینا ہوگا۔
...
البتہ یاد رہے کہ اس کفّارے کے باوجود بھی روزوں کی قضا بدستور موجود رہے گی، یعنی زندگی میں ان کی قضا آپ کو ہر حال میں بجا لانی ہوگی۔ لیکن کفارہ ادا کرنے کے بعد اگلے رمضان تک بھی قضا نہ رکھ پائیں تو پھر کوئی کفارہ نہیں ہے، یہ کفارہ قضا روزوں کے بعد پہلی رمضان پر ہی لاگو ہوگا۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
 
 

کونڈوں کی شرعی حیثیت

کونڈوں کی شرعی حیثیت
س) کیا کونڈے جائز ہیں؟ اور اس میں جو لکڑہارے کی کہانی بیان ہوتی ہے، کیا وہ درست ہے؟
ج) اس سوال کی کئی جہات ہیں، مؤمنین بلکہ مسلمین بلکہ کسی بھی انسان کو کھانا کھلانا یا اطعام کرنا یا دعوت کرنا باعث ثواب ہے۔ اگر اس رسم کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ باعث ثواب ہے۔
اس سوال کی دوسری جہت یہ ہے کہ کیا رجب کے مہینے میں ہی اس کو منانے کی کوئی شرعی دلیل ملتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں کوئی شرعی دلیل نہیں ملتی کہ 22 رجب کو فلاں کیفیت کے ساتھ دعوتیں کی جائیں۔ ہاں اگر مومنین کو اطعام کی نیّت سے کیا جائے تو کسی بھی دن خوب رہے گا، لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ 22 رجب کو ہی اس خاص کیفیت سے کونڈے کرنے کا کوئی حکم معصوم کی طرف سے صادر ہوا ہے۔
 
شاید آپ میں بہت سوں کے لئے یہ بات نئی ہو، یہ کونڈے برّصغیر کی رسم ہے، اس کی شروعات بیسویں صدی کے اوائل یا انیسویں صدی کے اواخر میں اتر پردیش سے ہوئی۔ وہاں سے پھر یہ پنجاب و سندھ وغیرہ بھی پہنچا۔ اسی لئے برّصغیر کے دیگر علاقوں جیسے مقبوضہ جمّوں و کشمیر، لداخ و بلتستان، گلگت و پاراچنار وغیرہ میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے۔ برّصغیر سے باہر ایران و عراق، افغانستان، ترکی، لبنان، بحرین، شام و آذربائجان میں اس کا تصوّر بھی محال ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ مشہور کہانی جو کونڈوں کے موقعے پر پڑھی جاتی ہے خالص ہندوستانی اختراع ہے۔
 
یہاں اس سوال کے تیسرے جہت پر کلام کریں گے، اور وہ ہے لکڑہارے کی مشہور کہانی جو کونڈوں کے مواقع پر پڑھی جاتی ہے۔ یہ کہانی کافی لمبی چوڑی ہے جس کا ذکر طوالت کا باعث بنے گا، مختصر یہ کہ کسی لکڑہارے کے گھر پر فاقے ہو رہے تھے تو امام صادق(ع) نے ان کو خاص کیفیت میں پوڑیاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر کھلانے کا کہا۔ اس لکڑہارے نے ایسا کیا تو اس کی قسمت جاگی خزانہ ملا۔ اس کی بیوی پہلے کسی وزیر کے گھر پر خادمہ تھی، جب اس کی قسمت جاگی تو وزیر کی بیوی کو ان کونڈوں کے اسرار کا پتہ چلا لیکن اس نے ماننے سے انکار کیا۔ اس انکار کی اس کو سخت سزا ملی، وزیر کو اپنی وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ بادشاہ کا بیٹا غائب ہوا تو دشمنوں نے افواہ اڑائی کہ کہیں اس وزیر نے تو بیٹے کو ہلاک نہیں کیا۔ وزیر کی بیوی خربوزہ یا تربوز خرید رہی تھی ان کو پکڑ لیا گیا، بادشاہ نے اس کے ہاتھ میں رومال دیکھ کر کہا کہ اس میں کیا ہے تو وزیر نے کہا خربوزہ ہے لیکن کھول کر دیکھا گیا تو بادشاہ کے بیٹے کا سر نکلا۔ ان کو قتل کرنے کی سزا ہوئی، جب میاں بیوی بیٹھے تو انہوں نے سوچا کہ آخر ان سے کیا غلطی ہوئی ہے، تو بیوی نے بتایا کہ اس نے کونڈوں کا انکار کیا تھا، اس پر دونوں توبۂ نصوح کرتے ہیں اور کونڈوں کی منّت مانتے ہیں۔ جب بادشاہ نے دوبارہ بلایا اور رومال کھولا تو بیٹے کا سر نہیں تھا بلکہ وہ خربوزہ ہی تھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر سٹپٹا گیا تو وزیر نے کونڈوں کی کرامتیں سنائیں تو بادشاہ ششدر رہ گیا (ہم نے کہانی مختصر طور پر نقل کفر کفر نباشد کے مصداق لکھی ہے)۔
 
ہم نے یہ کہانی بہت مختصر کر کے سنائی ہے، اس پوری کہانی کو پڑھنے کے بعد اس بناوٹی کہانی پر لب کشائی کے لئے بھی الفاظ نہیں۔ واضح ہے کہ یہ کہانی یوپی کے کسی بانکے نے بنائی ہے، کیونکہ امام جعفر صادق(ع) کے دور میں بادشاہت میں وزارت کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ امویوں کے دورخلافت میں وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں ملتا، امام(ع) کا آخری دور عباسیوں کے عروج حاصل کرنے کا زمانہ تھا۔ اس میں بھی اس منصب کا کوئی وجود نہیں ملتا، بعد میں جب عباسی حکومت مستحکم ہوئی تو اس منصب کو بنایا گيا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ میں کسی قسم کی بادشاہت تھی ہی نہیں، بادشاہ کا دارالحکومت اموی دور میں دمشق تھا اور عباسیوں نے بغداد کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ لہذا اس کہانی پر کچھ کہنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے۔
اب یہ تو واضح ہے کہ یہ کہانی معصوم(ع) سے کسی طور منسوب نہیں، تو اس کہانی کا پڑھنا کیسا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ جب کسی واقعے کا جعلی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کو نقل کرنا معصومین(ع) پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ اگر بالفرض جعلی ہونا واضح نہ ہوتا تب بھی اس کا کسی مستند کتاب میں موجود نہ ہونا ہی اس کہانی کو پڑھنے کے عدم جواز کے لئے کافی تھا۔
نتیجہ گیری:
اوپر پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بذات خود کونڈے کھلانے اور اطعام مسلمین میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ باعث ثواب ہے، لیکن اس دن جعلی کہانی پڑھ کر معصومین ع پر جھوٹ نہ باندھا جائے۔ اگر کونڈے دلانا مقصود ہو تو فقط اس نیّت سے کھلائیں کہ اللہ کی رضا کے لئے مومنین کو دعوت دے رہے ہیں، اور جعلی کہانی کے بجائے کوئی معتبر دعا پڑھ لیں یا سورہ یس وغیرہ کی تلاوت کر لیں۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ