اتوار، 11 جنوری، 2015

کن مواقع پر نماز میں تاخیر مستحب ہے

٭کن مواقع پر نماز میں تاخیر مستحب ہے٭
اکثر ہمارے ہاں مشہور یہی ہے کہ نماز اوّل وقت پڑھنی چاھئے اور اس پر کافی تاکید کی جاتی ہے۔ البتہ شرع میں کچھ موارد ایسے ہیں جن میں تاخیر کا حکم ہے۔ ہم یہاں عالم تشیّع کے ایک عظیم عالم شیخ بہائی کے الفاظ نقل کرتے ہیں جنہوں نے ان عوامل کو جمع کیا ہے:
"نماز کو اوّل وقت میں پڑھنا عظیم ثواب کا حامل ہے خصوصا فجر اور مغرب کی نمازیں۔ اور نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے مگر چند جگہوں پر جہاں اوّل وقت سے تاخیر سے پڑھنا سنّت ہے۔
1) عشاء کی نماز میں تاخیر کرنا تاکہ مغرب کی طرف کی سرخی برطرف ہو جائے (عموما اس ٹائم پر اہل سنّت کی عشاء کی اذان ہوتی ہے)۔ اور بعض مجتہدین اس تاخیر کو واحب کہتے ہیں۔
2) نماز ظہر میں تاخیر کرنا۔۔ ان جگہوں پر جہاں ھوا کافی گرم ہو جاتی ہے، اس وقت تک جب تک ھوا کی گرمی کم نہ ہو جائے۔
3) نماز عصر کو تاخیر سے پڑھنا یہاں تک کہ زوال (ابتداء ظہر) کے بعد جو سایہ پیدا ہوتا ہے وہ شاخص کے برابر ہو جائے۔
4) وہ عورت جس کو استحاضۂ کثیرہ ہے، وہ ظہر و عصر اور مغرب کو آخر وقت میں پڑھے تاکہ چاروں نمازوں کو ایک غسل سے انجام دے
5) نماز فجر، ظہر و عصر میں تاخیر تاکہ ان کی نافلہ کو انجام دے۔
6) پیش نماز کا نماز کو تاخیر سے پڑھنا تاکہ مامومین جمع ہو جائیں۔
7) مامومین کا نماز تاخیر سے پڑھنا تاکہ پیشنماز حاضر ہو سکے (یعنی پیشنماز کا انتظار کرنا)۔
مسافر کا اس جگہ پہنچے کے لئے نماز تاخیر سے پڑھنا جہاں قیام کرنا ہے تاکہ نماز کو بہتر انداز میں اور توانائی کے ساتھ بجا لائے۔
9) نماز مغرب و عشاء کو تاخیر سے پڑھنا تاکہ مشعر الحرام میں پہنچ جائے جیسا کہ کتاب حج میں اس کا ذکر ہوگا۔
10) اس شخص کا مغرب کو تاخیر سے پڑھنا جس کا کچھ لوگ افطار کے لئے انتظار کر رہے ہوں، یا وہ خود روزے سے ہو اور سخت بھوک کا شکار ہو۔
11) بچوں کی ماں یا مربّیہ کا ظہر و عصر و مغرب کو آخر وقت میں پڑھنا تاکہ چاروں نمازوں کو صاف کپڑوں میں یا قلیل النجاست کپڑوں میں پڑھنا، چنانچہ کتاب طہارت میں ذکر ہوا۔
12) اس شخص کا تاخیر سے پڑھنا جو اپنی کچھ سابقہ نمازوں کو پڑھنے میں مشغول ہو اور نماز حاضرہ کو تاخیر سے پڑھنا۔ سیّد مرتضی نے اس صورت میں نماز کو تاخیر سے پڑھنا واجب کہا ہے اور ان کا فتوی یہی ہے کہ جس کے ذمے نماز قضا ہو اس پر واجب ہے کہ فوری طور پر اس کو بجالائے، اور اس کے لئے جائز نہیں کہ کسی مباح یا سنّت میں مشغول ہو جائے، یہاں تک کہ اپنی ذمہ داری کو تمام نمازوں سے فارغ کر لے۔ امّا مجتہدین میں سے جمع کثیر نے اس معاملے میں سیّد مرتضی سے موافقت نہیں کی۔"
(جامع عبّاسی از شیخ بہائی، ص35)
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

ہفتہ وحدت حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ


ہفتہ وحدت حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ

کسی بھی قوم، معاشرہ، دین یا افراد کی ترقی و عروج و کمال اس کے اتحاد، وحدت، اخوت اور برادرانہ تعلقات میں پنہاں ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابل زوال، سرنگونی اور پستی باہمی اختلاف، تفرقہ اور تقسیم کا مرہون منت کہا جاسکتا ہے۔ ازل سے یہ اصول واضح و روشن ہے کہ اتحاد و وحدت رشد و ترقی اور کامیابی کی ضمانت ہیں، تاریخ میں جن قوموں اور گروہوں میں اتحاد و وحدت پائی جاتی تھی، انہوں نے ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑے، اس بات کو اس انداز میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جن قوموں نے ترقی و عروج پایا اور اپنے نام کا سکہ چلایا، ان کی کامیابیوں کے پس پردہ راز اتحاد و وحدت کی قوت ہی تھی۔

اسلام جو دین فطرت ہے، اس کی تعلیمات و احکام خداوندی خالق و مالک کی حکمت و تدبیر کے عکاس ہیں، قرآن مجید جسے آفاقی و جاویدانی کتاب کا درجہ حاصل ہے، اس میں بھی اس موضوع کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اتحاد کی طاقت اور تفرقہ کے نقصانات بیان کئے گئے ہیں، اسلام کے پیروکاروں کو اتحاد کی تاکید کی گئی ہے اور تفرقہ سے بچنے کا کہا گیا ہے، سورہ آل عمران میں ارشاد خداوندی ہے : اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو، اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لئے بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔ قرآن مجید میں اس پہلو پر سورہ حجرات میں بیان کیا گیا ہے؛ بے شک مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور تقویٰ اختیار کرو، شائد خدا کی محبت تمہارے شامل حال ہوجائے۔ 

اگر ہم گذشتہ صدی کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک شخصیت ایسی نظر آتی ہے، جس نے امت کو اتحاد و وحدت کی عملی دعوت دی، ان کا کہنا تھا کہ امت کے تمام مسائل کا حل اتحاد و وحدت میں پنہاں ہے، اگر امت ایک ہوجائے تو اس کی طاقت کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا اور مسلمان ایک ایسی قوم کی شکل میں سامنے آئیں گے جن کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا، دنیا اس ہستی کو حضرت امام خمینی کے نام سے یاد کرتی ہے، حضرت امام خمینی جو انقلاب اسلامی ایران کے بانی ہیں، انہوں نے انقلاب سے قبل اور انقلاب کے بعد زیادہ شدت اور تاکید سے اس حوالے سے کام کیا اور امت کو ایک لڑی میں پرونے کی عملی کوششیں کیں۔ امام خمینی اگرچہ ممالک اور اسلامی ریاستوں کی سرحدوں کا احترام کرتے تھے، مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو ایک قوت اور ایک وحدت میں دیکھنے کے خواہشمند بھی تھے وہ ایک ایک فرد قوم کو اتحاد کی لڑی میں پرویا دیکھنا چاہتے تھے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں 
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

حضرت امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے بعد امت اسلامی کو ولادت باسعادت خاتم الانبیاء، معلم انسانیت، رحمۃاللعالمین حضرت محمد مصطفٰی کے عظیم موقع کو باہمی اختلاف سے نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے ایک ایسا پیغام دیا، جس کو امت کے مخلص و سنجیدہ طبقات نے ایک نعمت سے تعبیر کیا۔ امام خمینی نے بارہ تا سترہ ربیع الاول کو پورا ہفتہ بطور ہفتہ وحدت منانے کا حکم دیا اور اس پیغام کو دنیا بھر میں پہنچایا، امام خمینی کے اس پیغام کو عالمی سطح پر نہ صرف سراہا گیا بلکہ مختلف ممالک میں آپ کے نمائندگان نے اس کو عملی شکل دی اور استعمار کی جانب سے امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے اور باہم لڑانے کی سازش کو ناکام بنا دیا اور ہر طرف اخوت، بھائی چارے، یکجہتی و اتحاد کے عملی مظاہر کے لئے یہ موقع فراہم کیا۔ ماہ ربیع الاول جو رسول خدا خاتم الانبیاء سے منسوب مہینہ ہے، اس میں امت کے سرکردہ علماء و دانشوران کو قرآنی پیغام وحدت کو عام کرنا چاہیئے، تاکہ باہمی لڑائیوں اور جھگڑوں سے امت کمزور نہ ہو اور دشمن اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔

قرآن مجید ہمیں دعوت دیتا ہے کہ؛ خدا و اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، اگر ایسا کرو گے تو تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں امت اسلامیہ کو ایک ہونے کی ہمیشہ ہی ضرورت رہی ہے، مگر اس کی اہمیت اور افادیت اس وقت بہت زیادہ محسوس ہوئی، جب استعمار اور اسلام دشمن طاقتوں نے کئی ایک مواقع پر تعصب و تنگ نظری نیز اپنے مفادات کو ہر حالت میں ترجیح دی، بالخصوص اقوام متحدہ میں جب بھی کوئی ایسا مسئلہ پیش ہوا، جس کا تعلق امت مسلمہ سے تھا تو غیر مسلم طاقتوں نے اسے رد کر دیا اور مسلمانوں کا کبھی بھی ساتھ نہیں دیا، اس حوالے سے مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے رکھے جانے والے متعصبانہ رویہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ آج بھی عالمی سامراج بالخصوص غیر مسلم طاقتیں ایران کے جائز حق کو تسلیم کرنے سے انکارکرتی ہیں اور اس کے مقابل اسرائیل جو ایک ناجائز ریاست ہے، اس کے پاس ایٹمی ہتھیار کسی کو نظر بھی نہیں آتے۔ 

اسی طرح فلسطین، لبنان، شام، عراق اور دیگر اسلامی ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کی زیادتیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کسی کو نظر نہیں آتا، جب کہ امت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ممالک کو بہت ہی معمولی مسائل پر آگ و بارود کی بارش سے تہس نہس کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہوتے، اس کی وجہ صرف اور صرف امت کا متفرق و نامنظم ہونا ہے۔ آج امت مسلمہ میں وحدت کا فقدان اسلام دشمن قوتوں کو مضبوط اور طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا کرچکا ہے، جس کے باعث وہ ہر روز مسلمانوں پر ظلم کی نئی داستان رقم کرتے ہیں اور انہیں اپنا زیر نگیں بناتے ہیں، فلسطین کے مسلمانوں کی حالت زار کسی کو نظر نہیں آرہی، غزہ کے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمان مجبور و لاچار امت مسلمہ سے فریاد کناں ہیں کہ اتحاد و وحدت کی طاقت سے انہیں ظالمین و غاصبین کے چنگل سے نجات دلوائیں۔ حضرت امام خمینی نے اسی لئے امت کو اتحاد کا قرآنی پیغام عام کرنے اور امت کے تمام طبقات کو اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کی دعوت دی تھی۔ اے کاش آج بھی امت امام خمینی کے اس پیغام وحدت کی اہمیت، افادیت اور ضرورت سے بخوبی آگاہ ہو جائے اور قرآن و رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ میں پنہاں پیغام وحدت امت کو سمجھ جائے۔

منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ