پیر، 10 جنوری، 2022

ماتم، قرآن و حدیث میں



 ماتم، قرآن و حدیث میں




تحریر: سید علی اصدق نقوی

پہلے تو یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ماتم ایک ایسی چیز ہے جسکی شرعی حیثیت نہیں ہے، اسکو بطور احتجاج منایا جاتا ہے ظلم کے خلاف۔ مگر ہاں اسکی شرع میں گنجائش ہے اور یہ بدعت یا حرام فعل نہیں ہے یہ بات قابل غور رہے۔

قرآن کہتا ہے:
لَّا يُحِبُّ اللَّـهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ سَمِيعًا عَلِيمًا

ترجمہ:
الله ﷻ علانیہ بدگوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے کہ جس پر ظلم ہوا ہو (کہ اس کے لیے ظالم کی بدگوئی جائز ہے) اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔

یعنی الله ﷻ کو یہ عمل نہیں پسند کہ اعلانیہ مذمت کی جائے سوائے ظالم کی، ظالم کی مذمت کرنے کو اعلانیہ طور پر الله ﷻ پسند فرماتا ہے، اور یہی ماتم کا ہدف ہے۔

ایک روایت جو کہ اہل سنت کی معتبر کتب میں مذکور ہے:

عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ ـ عَلَيْهَا السَّلاَمُ ـ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لَهُمْ ‏"‏ أَلاَ تُصَلُّونَ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ عَلِيٌّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ لَهُ ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيْهِ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعَهُ وَهْوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَهْوَ يَقُولُ ‏{‏وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَىْءٍ جَدَلاً‏}‏‏.

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے اور فاطمہ بنت رسول اللہ علیم السلام والصلٰوۃ کے گھر ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا ۔ جوں ہی میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تو آپ پیٹھ موڑ کر واپس جانے لگے اور کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ” اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے “

[صحيح البخاري، رقم: 7347، صحيح مسلم، رقم: 775، سنن النسائي، رقم: 1611]

اس روایت کی شرح میں امام ابن حجر عسقلانی اپنی مشہور ترین کتاب فتح الباري، جو کہ صحيح البخاري کی شرح ہے، لکھتے ہیں:

قوله يضرب فخذه فيه جواز ضرب الفخذ عند التأسف

انکا قول کہ ران پر مارا اس بات کی دلیل ہے کہ غم میں اپنی ران پر مارنا جائز ہے۔

[فتح الباري، ج 3، ص 9، عمدة القاري، ج 7، ص 175]

حضرت عائشہ اور باقی عورتوں کا ماتم:

سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: " مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَحْرِي، وَنَحْرِي وَفِي دَوْلَتِي، لَمْ أَظْلِمْ فِيهِ أَحَدًا، فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي أَنَّ رَسُولَ اللهِ قُبِضَ وَهُوَ فِي حِجْرِي، ثُمَّ وَضَعْتُ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ، وَقُمْتُ أَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَاءِ، وَأَضْرِبُ وَجْهِي "

میں نے حضرت عائشہ کو فرماتے سنا کہ جب رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ میرے سینے پر تھے اور میری باری تھی، میں نے کسی پر ظلم نہیں کیا تھا انکے متعلق، یہ میری کوتاہی اور جوانی کے سبب تھا کہ رسول اللہ میری گود میں وفات پا گئے۔ پھر میں نے آپ (ص) کے سر کو تکیے پر رکھا اور کھڑے ہوئی اور باقی عورتوں کے ساتھ اپنے سینے کو مارا (ماتم کیا) اور اپنے چہرے کو بھی مارا۔

شيخ شعيب الأرناوؤط: إسناده حسن۔

[مسند أحمد بن حنبل، رقم الحديث: 26348، السيرة النبوة لإبن هشام الحميري، ج 4، ص، 1069، تاريخ الرسل والملوك للطبري، ج 2، ص 441، الكامل في التاريخ لإبن أثير، ج 2، ص 323، مسند أبي يعلى الموصلي، ج 8، ص 63]

حضرت ابو ہریرہ کا ماتم:



عَنْ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى جَبْهَتِهِ يَقُولُ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ تَزْعُمُونَ أَنِّي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم 



حضرت ابو رزین بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو رہریرہ کو دیکھا، وہ اپنا ہاتھ اپنے ماتھے پر (بطور تعجب و تاسف) مار رہے تھے اور فرمارہے تھے: او عراقیو! تم سمجھتے ہو کہ میں رسول الله ﷺ کا نام لے کر جھوٹ بول رہا ہوں؟

[سنن النسائي، رقم الحديث: 5370، سنن ابن ماجة، رقم الحديث: 393]

قرآن کہتا ہے:


فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيم

پس آپ(ع) کی بیوی (سارہ) چیختی ہوئی آئی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہا بوڑھی، بانجھ؟ (بچہ کس طرح ہوگا؟)

اس آیت میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ وہ غم میں آئیں اور اپنے چہرے پر مارا، فصكت، یعنی انہوں نے مارا، پیٹا، وغیرہ کے معنی میں ہے۔

صحابہ کا ماتم:

عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي، مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ ‏.‏ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَىَّ ‏.‏ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ



حضرت معاویہ بن ابی حکم سلمی سے روایت کی انھوں نے کہا:میں رسول الله ﷺ کے ساتھ نماز پڑ ھ رہاتھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا:یرحمک اللہ’’اللہ تجھ پر رحم کرے ۔‘‘لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا ۔میں نے کہا:میری ماں مجھے گم پائے ‘تم سب کو کیا ہو گیا؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھروہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے ۔

[صحيح مسلم، رقم الحديث: 537، سنن النسائي، رقم الحديث: 1218، سنن أبي داود، رقم الحديث: 930]

بدو صحابی کا ماتم، دنیا کی سب سے پہلی حدیث کی کتاب المؤطاء امام مالک سے، جو کہ فقہ کے چار آئمہ میں سے ایک ہیں:

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّهُ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَضْرِبُ نَحْرَهُ وَيَنْتِفُ شَعْرَهُ وَيَقُولُ هَلَكَ الأَبْعَدُ ‏.‏

یحیی نے مجھ سے روایت کی مالک سے جس نے روایت کی عطاء بن عبد الله الخراسانی سے جس نے روایت کی سعید بن المسیب (رض) جنہوں نے کہا کہ ایک بدو (اعرابی) رسول الله ﷺ کے پاس آیا اپنی چھاتی کو مارتا ہوا اور اپنے بالوں کو اکھاڑتا ہوا اور وہ کہہ رہا تھا کہ میں تباہ ہوگیا ہوں۔

[المؤطاء، رقم الحديث: 663]

یاد رہے کہ یہ بدو عرب مسلمان تھا اور صحابی تھا۔ اور اسکو منع نہیں کیا اس عمل سے یعنی غم میں ماتم کرنے سے رسول الله ﷺ نے۔

اہل سنت کے چار آئمہ میں سے ایک، أحمد بن حنب الشيباني اپنی کتاب فضائل الصحابة میں لکھتے ہیں:

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْرَائِيلَ قَالَ: رَأَيْتُ فِي كِتَابِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ بِخَطِّ يَدِهِ: نا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قثنا الرَّبِيعُ بْنُ مُنْذِرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ يَقُولُ: مَنْ دَمَعَتَا عَيْنَاهُ فِينَا دَمْعَةً، أَوْ قَطَرَتْ عَيْنَاهُ فِينَا قَطْرَةً، أَثْوَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ.

الربیع بن منذر نے اپنے والد سے روایت کی کہ حسین بن علی کہا کرتے تھے: جسکی بھی آنکھ سے آیک آنسو ہمارے لیئے بہے یا ایک فطرہ آنسو بھی ہمارے لیئے بہا، الله ﷻ اسکو اس کیلئے جنت کا اجر دے گا۔

[فضائل الصحابة، رقم الحديث: 1154]

یہ تھا ماتم کے متعلق ذکر، اسکے علاوہ ہم نے ایک تحریر میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کے متعلق بھی اہل سنت کی معتبر کتب سے نتیجہ اخذ کیا ہے، کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا رسول الله ﷺ اور صحابہ کی سنت ہے اور کوئی بدعت نہیں۔ ایسے ہی ماتم بھی صحابہ کی سنت ہے، اور بھی روایات ہیں جن میں حضرت عمر، حضرت حفصہ، نبی یوسف علیه السلام، نبی آدم علیه السلام وغیرہ کا ماتم کرنے کا ذکر ہے۔ مگر حجت تمام کرنے کیلئے یہی کافی ہیں۔