جمعہ، 2 فروری، 2018

سوال) کیا افطار و نماز مغرب کے لئے غروب کا وقت کافی ہے؟ یا دس منٹ صبر کرنا ضروری ہے؟ کیا ضرورت کے وقت اہلسنت کے ساتھ روزہ افطار ہو سکتا ہے؟

سوال) کیا افطار و نماز مغرب کے لئے غروب کا وقت کافی ہے؟ یا دس منٹ صبر کرنا ضروری ہے؟ کیا ضرورت کے وقت اہلسنت کے ساتھ روزہ افطار ہو سکتا ہے؟
جواب) نماز مغرب اور افطار کے وقت کی بابت ہماری احادیث اور علماء کے اقوال میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ احادیث ہیں جن میں سورج کی ٹکیہ کے اوجھل ہو جانے کو ہی نماز مغرب اور افطار کا وقت کہا گيا ہے، اور دوسری طرف وہ روایات ہیں جن میں مشرق کی سرخی زائل ہونے تک صبر کرنے کا ذکر ہے۔ اسی وجہ سے ہی غروب کے بعد دس پندرہ منٹ کا فرق آ جاتا ہے۔ احادیث میں اسی اختلاف کی وجہ سے علماء کے اقوال میں بھی اختلاف ہے۔
قرآن میں حکم واضح ہے " ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ " یعنی روزہ تمام کرو رات تک (سورہ بقرہ 287)۔ تو یہ واضح ہے کہ روزہ رات تک رکھنا ہے لیکن رات کب شروع ہوتی ہے؟ آیا سورج کا غروب ہو جانا ہی رات کا صدق ہونا ہے یا مشرقی سرخی کا زائل ہونا؟ یہ بات تو طے ہے کہ غروب آفتاب سے ہی رات کا آغاز ہو جاتا ہے، رات کا اندھیرے سے تعلق نہیں بلکہ غروب کا یقین ہو جانا ہی رات کا آغاز ہے۔ اب اختلاف غروب کے وقت کے تعین میں ہے۔ احادیث میں ہمیں دونوں باتیں ملتی ہیں۔

مثلا قرب الاسناد میں صفوان جمّال کی ایک حدیث ہے کہ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب سورج کی ٹکیہ غائب ہو جائے تو مغرب کی نماز پڑھ لیا کرو۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں حریز اور زرارہ سے صحیح السند حدیث ہے کہ جب سورج کی ٹکیہ غائب ہو جائے تو روزہ افطار کر لیا کرو (من لا یحضرہ الفقیہ، جلد 2 حدیث 1902)
مذکورہ حدیث شیخ کلینی (کافی ج3 ص279) اور شیخ طوسی (تہذیب الاحکام ج 2 ص261 ح1038) نے بھی نقل کیا ہے۔ پس یہ روایت کتب اربعہ کی تمام کتب میں باسناد صحیح مروی ہوئی ہے، اور درایت کے لحاظ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر فائز ہے۔

دوسری طرف دیگر احادیث ہیں جن میں مشرقی سرخی کے انتظار تک صبر کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس لئے ہمیں علماء کے مندرجہ ذیل اقوال ملتے ہیں؛
1)
سورج کی ٹکیہ غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز اور افطار کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ یہ قول شیخ صدوق کا ہے۔
2)
مغرب کے دو اوقات ہیں، سورج کی ٹکیہ کے غائب ہو جانے سے مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے لیکن فضیلت کا وقت مشرقی سرخی کا زائل ہو جانا ہے۔ ان علماء نے دوسری روایات کو فضیلت پر محمول کیا۔ علامہ مجلسی کے والد ملاّ تقی مجلسی نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔
3)
مغرب کی نماز اور افطار کا وقت غروب کے بعد شروع ہو جاتا ہے، لیکن احتیاط کے طور پر مشرقی سرخی تک انتظار کریں تو بہتر ہے۔ یعنی ان کے نزدیک سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کیا جا سکتا ہے لیکن احتیاط کیا جائے تو بہتر ہے۔ معاصرین میں آیت اللہ خوئی، ناصر مکارم شیرازی، تقی بہجت، سعید الحکیم، یوسف صانعی و سید فضل اللہ نے اس قول کو اختیار کیا۔ یعنی اس گروہ کے مطابق بوقت ضرورت غروب کا یقین ہو جانے کے بعد نماز مغرب پڑھ سکتے ہیں اور افطار کر سکتے ہیں۔
4)
احتیاط واجب ہے کہ مشرق کی سرخی کے زائل ہونے تک انتظار کیا جائے۔ آیت اللہ سیستانی، نوری ھمدانی، و وحید خراسانی کی یہی آراء ہیں۔ البتہ ان کے مقلّدین احتیاط واجب کی صورت میں دیگر مراجع کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ مثلا ضرورت کے وقت اعلم فی الاعلم کا خیال کرتے ہوئے آیت اللہ سیستانی کے مقلدین آیات عظم مکارم شیرازی یا سعید الحکیم کے فتوی سے رجوع کر سکتے ہیں جو غروب کے بعد افطار یا نماز مغرب جائز سمجھتے ہیں۔
5)
مشرق کی سرخی زائل ہونے سے پہلے افطار اور مغرب کی نماز جائز نہیں ہے بلکہ مشرق کی سرخی زائل ہونے تک صبر کرنا واجب ہے۔ ان علماء کے مطابق مشرق کا زائل ہونا غروب ہونے کی ہی علامتوں میں سے ہے۔ معاصرین میں آیت اللہ خامنہ ای و موسی شبیری زنجانی نے اسی پر فتوی دیا ہے۔ ان مراجع کے مطابق غروب کے بعد اتنا صبر کرنا ضروری ہے کہ مشرقی سرخی زائل ہو جائے، جس میں کم سے کم دس پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں۔ اپنے اپنے جغرافیائی علاقوں کے اوقات کی طرف رجوع کریں۔
پس اس سلسلے میں اپنے مرجع تقلید کے فتوی پر عمل کریں۔
العبد: سید جواد حسین رضوی
نوٹ: مصنّف کے نام یا اس کی اجازت کے بغیر اس آرٹیکل کو کہیں شیئر کرنا شرعی طور پر اشکال رکھتا ہے، کیونکہ سوال و جواب کی صورت میں ہم ذمہ دار ہیں۔ جو افراد اس آرٹیکل کو کسی اور شکل میں شائع کرنا چاہتے ہیں وہ مجھ سے رابطہ کریں۔


روزہ گرمی اور مشقت

روزہ گرمی اور مشقت


امام حسین(ع) پر معرفت کے ساتھ گریہ کا مفہوم

امام حسین(ع) پر معرفت کے ساتھ گریہ کا مفہوم
تحریر: سید جواد حسین رضوی
الإمامُ زينَ العابدينُ عليه السلام: أيُّما مُؤمِنٍ دَمِعَت عَيناهُ لِقَتلِ الحُسَينِ عليه السلام حَتّى تَسيلَ عَلى خَدِّهِ، بَوَّأهُ اللّهُ بِها في الجَنَّةِ غُرَفا يَسكُنُها أحقابا
امام زین العابدین(ع): ہر مومن جس کی آنکھیں امام حسین(ع) کی شہادت پر گریان ہو جائے یہاں تک کہ اس کے آنسو اس کے چہرے پر روان ہو جائیں۔ اللہ تعالی اس کی وجہ سے جنّت میں اس کے لئے ایک حجرہ قرار دیتا ہے جہاں وہ ایک عرصۂ دراز تک رہے گا۔
ثواب الاعمال: جلد 1، ص 108
تفسیر حدیث
اس طرح کی احادیث عزاداری کے علاوہ دیگر باتوں میں بھی ہیں جیسے شیعہ سنّی متفقہ اور صحیح حدیث ہے کہ جو بھی لا الہ الا اللہ پڑھے گا اس کیلئے جنت ہے۔۔۔ تو کیا محض کلمہ پڑھنے سے جنت مل جائے گی؟ سب کو پتہ ہے کہ محض کلمہ پڑھنے سے جنت نہیں ملتی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اس کلمے کو قلب سے درک کرے گا اس کیلئے جنت ہے۔
وہ اس طرح کے جو اللہ کےواحد اور معبود ہونے پر کامل یقین رکھتا ہے تو وہ یقینا اللہ کی معصیت بھی نہیں کرے گا، اللہ کے حکم پر سر تسلیم خم کرے گا، اور جب وہ ایسا کرے گا تو اس پر جنت واجب ہوگی۔
اسی طرح جو امام حسین ع پر معرفت کے ساتھ روئے گا اس پر جنت واجب ہے، جب امام حسین ع کی معرفت کسی شخص کو حاصل ہوکی تو وہ ان کی سیرت پر چلے گا اور جب سیرت پر چلے گا تو اس پر جنت واجب ہوگی۔ محض رونا کمال نہیں، یہ مصائب ہی ایسے ہیں کہ ان کو سن کر ہر انسان روئے گا۔۔۔ چنانچہ روایتوں میں ہے کہ فوج اشقیاء جب مظالم ڈھا رہے تو رو بھی رہے تھے۔ لہذا رونا کمال نہیں بلکہ حسینی سیرت پر عمل کرنا کمال ہے۔
امام حسین ع پر معرفت کے ساتھ رونے کا بھی یہی مفہوم ہے کہ حسینی سیرت پر عمل کیا جائے۔

انتہائے سحر کے اوقات کے حوالے سے ایک اہم انتباہ

 انتہائے سحر کے اوقات کے حوالے سے ایک اہم انتباہ
 

عقائد کی اہمیت اور معرفت کیا ہے؟


عقائد کی اہمیت اور معرفت کیا ہے؟
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ يَرْفَعُهُ إِلَى أَحَدِهِمْ ع أَنَّهُ قَالَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صَلَاةً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ حَجّاً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صَدَقَةً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صِيَاماً مِنْ بَعْضٍ وَ أَفْضَلُكُمْ أَفْضَلُ مَعْرِفَة
ابن ابی عمیر امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) میں سے کسی ایک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: تم میں سے کچھ شیعہ زیادہ نماز گزار ہوتے ہیں، اور کچھ دوسروں کی نسبت زیادہ حج بجا لاتے ہیں اور کچھ باقیوں سے زیادہ صدقہ دیتے ہیں اور بعض باقیوں سے زیادہ روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن تم میں سے افضل وہی ہیں جو معرفت میں افضل ہوں۔
(صفات الشیعہ از شیخ صدوق: حدیث 28)
یہ روایت مرفوع ہے لیکن ابن ابی عمیر نے رفع کیا ہے، لہذا یہ حدیث امام خمینی سمیت کئی علماء کے نزدیک معتبر ہے۔
معرفت کیا ہے؟ ہر چیز کو صحیح انداز میں پہچاننا معرفت کہلاتا ہے۔ لہذا توحید کی صحیح پہچان بھی معرفت ہے، تمام انبیاء(ع) کو صحیح انداز میں پہچاننا خصوصا رسول اللہ(ص) کے مقام و منزلت کی صحیح معرفت اختیار کرنا اور اہل بیت(ع) سے ایسی محبّت کرنا جو نہ افراط پر مبنی ہو اور نہ تفریط پر، یہ سب معرفت کے درجات ہیں۔ چنانچہ نہ تو غلو معرفت ہے اور نہ تقصیر معرفت ہے۔
رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے: أوّل العلم معرفة الجبّار و آخر العلم تفويض الأمر اليه۔۔۔۔۔ یعنی "علم کا پہلا مرحلہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرنا ہے، اور علم کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ تمام امور فقط اللہ کو تفویض کئے جائیں"۔۔
تمام تکوینی امور اور ربوبیت و خلق و رزق کو صرف اللہ کے لئے مخصوص کرنا اور اپنی دعاؤں کا ملجا و ماوی اللہ کو سمجھنا اور صرف اسی سے دعا مانگنا اللہ کی صحیح معرفت ہے (فلا تدعو مع اللہ احدا)۔ توحید کی اصل روح کو درک کئے بغیر باقی کوئی بھی عقیدہ استوار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ توحید ہر عقیدے کی بنیاد ہے، اگر مضبوط بنیاد کے بغیر عمارت کھڑی کی جائے تو وہ جلد منہدم ہو جاتی ہے۔
اب اس گفتگو کی روشنی میں اس حدیث کو سمجھیں، معصوم(ع) سب سے بنیادی چیز "عقائد" کو قرار دے رہے ہیں، جس کے عقائد صحیح انداز میں استوار ہوں وہ سب سے افضل ہے۔ معرفت حاصل کرنے کے بعد عبادت کی جائے تو اس عبادت میں بھی جان پیدا ہوتی ہے۔ لہذا وہی عبادتیں افضل ہیں جو تمام عقائد کی صحیح معرفت اور روح کے ساتھ کی جائیں، ایسی قلیل عبادت بھی ان کثیر عبادتوں سے افضل ہے جو بغیر معرفت کے کی جائے۔
وما علینا الا البلاغ
 العبد سید جواد حسین رضوی