پیر، 27 اپریل، 2015

اہل بیت اطہار(ع) کے نام قرآن میں کیوں نہیں؟

٭اہل بیت اطہار(ع) کے نام قرآن میں کیوں نہیں؟٭
عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِى بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَطِيعُوا اللّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ فـَقـَالَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيِّ بـْنِ أَبـِي طَالِبٍ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ ع فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ فَمَا لَهُ لَمْ يُسَمِّ عَلِيّاً وَ أَهْلَ بَيْتِهِ ع فِى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ فَقَالَ قُولُوا لَهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص نَزَلَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ اللَّهُ لَهُمْ ثَلَاثاً وَ لَا أَرْبَعاً حَتَّى كـَانَ رَسـُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ لَهُمْ مِنْ كُلِّ أَرْبـَعـِيـنَ دِرْهَماً دِرْهَمٌ حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَ الْحَجُّ فَلَمْ يـَقـُلْ لَهـُمْ طـُوفـُوا أُسـْبُوعاً حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ أَطـِيـعـُوا اللّهَ وَ أَطـِيـعـُوا الرَّسـُولَ وَ أُولِى الْأَمـْرِ مـِنـْكـُمْ وَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحـُسـَيـْنِ فـَقـَالَ رَسـُولُ اللَّهِ ص فـِى عـَلِيٍّ مـَنْ كـُنـْتُ مـَوْلَاهُ فـَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَ قَالَ ص ‍ أُوصـِيـكـُمْ بـِكِتَابِ اللَّهِ وَ أَهْلِ بَيْتِى فَإِنِّى سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ لَا يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا حَتَّى يُورِدَهُمَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَعْطَانِي ذَلِكَ وَ قَالَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ وَ قَالَ إِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَنْ يُدْخِلُوكُمْ فِى بَابِ ضَلَالَةٍ فَلَوْ سَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ص فـَلَمْ يـُبـَيِّنْ مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ لَادَّعَاهَا آلُ فُلَانٍ وَ آلُ فُلَانٍ وَ لَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْزَلَهُ فِى كِتَابِهِ تَصْدِيقاً لِنَبِيِّهِ ص إِنَّما يُرِيدُ اللّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تـَطـْهـِيـراً فـَكـَانَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ فَاطِمَةُ ع فَأَدْخَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ص تَحْتَ الْكِسَاءِ فِى بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَهْلًا وَ ثَقَلًا وَ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِى وَ ثـَقـَلِى فـَقـَالَتْ أُمُّ سـَلَمـَةَ أَ لَسـْتُ مـِنْ أَهْلِكَ فَقَالَ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ وَ لَكِنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِى
ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق(ع) سے اللہ کے کلام "اطیعو اللہ و اطیعو الرسول واولی الامر منکم" (نساء 59) کا پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ آیت علی ابن ابیطالب، حسن اور حسین(علیھم السلام) کے لئے نازل ہوئی ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ علی(ع) اور اہل بیت(ع) کا نام کتاب اللہ عزّوجل میں (صریح) درج کیوں نہیں ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: ان سے کہو کہ اللہ نے نماز کی آیت رسول اللہ(ص) پر نازل کی لیکن تین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں کے نام اس میں نہیں بتائے گئے یہاں تک کہ خود رسول (ص) نے لوگوں کو بیان کیا۔ اور (اسی طرح) آیت زکات ان پر نازل ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر 40 درھم پر ایک درھم زکات دینی ہے، یہاں تک کہ خود رسول(ص) نے بیان فرمایا۔ اور (اسی طرح) حج کا حکم آیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ 7 طواف کرنے ہیں، یہاں تک کی رسول(ص) نے وضاحت کی۔
اور جب "اطیعو اللہ و اطیعو الرّسول و اولی الامر منکم" نازل ہوئی تو یہ علی(ع) و حسن و حسین(ع) کے لئے نازل ہوئی۔ پس رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کے بارے میں فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" (جس جس کا میں مولا، اس اس کا یہ علی مولا)۔ اور نیز فرمایا: میں تم سے کتاب اللہ (قرآن) اور اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں وصیّت کرتا ہوں کیونکہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ ان دونوں کو ہرگز باھم جدا نہ ہونے دینا جب تک یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں، پس اللہ نے میری خواہش ہوری کی۔ اور نیز فرمایا: تم لوگ ان کو کچھ نہ سکھانا کیونکہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا: یہ تمہیں ہدایت سے باہر ہرگز نہ جانے دیں گے اور تمہیں ضلالت و گمراہی کے دروازے میں کبھی داخل نہیں کریں گے۔
اور اگر رسول اللہ(ص) خاموشی فرماتے اور اپنی اہل بیت(ع) کے بارے میں بیان نہ فرماتے تو فلاں اور فلاں کی آل اس امر کا دعوی کرتی۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی(ص) کی تصدیق کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا: "انّما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت ویطھّرکم تطہیرا"۔ آپ(ص) نے امّ سلمہ(س) کے گھر میں اپنی عباء کے نیچے علی، فاطمہ، حسن و حسین(علیھم السّلام) کو جمع کیا اور فرمایا: اے اللہ ہر نبی کے اھل و ثقل ہوتے ہیں، میرے اھل اور ثقل یہ ہیں۔ امّ سلمہ(ر) نے عرض کیا کہ کیا میں آپ کے اھل سے نہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ بے شک تم خیر پر ہو لیکن میرے اھل و ثقل یہ ہیں۔
اصول كافى جلد 2 صفحه 40 رواية 1
یہ حدیث اس سلسلۂ سند کے ساتھ "صحیح" کے درجے پر ہے؛
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ وَ عِمْرَانَ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ
فوائد؛
اس حدیث سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں؛
1) اطیعو اللہ واطیعو الرّسول واولی الامر والی آیت میں اولی الامر کے مصداق صرف آئمہ اھل بیت(ع) ہیں۔ کچھ گمراہ کرنے والے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر امامت منصوص ہوتی تو امام علی(ع) کا نام قرآن میں کیوں نہیں۔ امام جعفر صادق(ع) کے اس استدلال نے ان لوگوں کی بولتی بند کر دی ہے، جس طرح قرآن میں نماز کا حکم ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نماز کی کتنی رکعتیں ہیں اور کیسے پڑھنی ہیں، یہ رسول(ص) نے بتایا۔ اسی طرح زکات کا حکم ہے، لیکن زکات کا نصاب کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں یہ رسول(ص) نے بتائے۔ اسی طرح قرآن میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے، لیکن یہ اولی الامر کون ہیں یہ رسول(ص) ہی بتائیں گے اور رسول(ص) نے غدیر خم سمیت کئی مقامات پر اس بات کا برملا اظہار فرمایا کہ یہ ولایت صرف علی(ع) کی ہے۔ قرآن اور اہل بیت(ع) اطہار قدم بقدم ساتھ ہیں۔
2) اس سے یہ ثابت ہوا کہ امّہات مؤمنین ہرگز اھل بیت(ع) میں شامل نہیں۔
3) علاوہ ازیں حدیث کساء میں امّ سلمہ(ع) کا عبا یا ردا میں شامل ہونے کی کوشش اور رسول(ص) کا اس بات سے منع کرنا کہ تم اھل میں شامل نہیں ہو، یہ بات پوائنٹ نمبر 2 کا واضح ثبوت ہے۔
4) آیت تطہیر کے مصداق صرف علی و حسن و حسین و فاطمہ(علیھم السلام) ہیں اور امّہات ان میں شامل نہیں۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کتاب روضۃ الکافی کے بارے مین

٭کتاب روضۃ الکافی٭
سوال) کیا اصول و فروع کافی کی طرح روضۃ الکافی بھی شیخ کلینی کی تصنیف تھی؟ کہتے ہیں کہ کچھ علماء نے اس کی شیخ کلینی سے نسبت کے بارے میں شک کا اظہار کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ابن ادریس حلّی یا شہید ثانی کی تصنیف ہے۔
جواب) جی ہاں عالم جلیل ملّا خلیل قزوینی نے احتمال دیا تھا کہ روضۃ الکافی دراصل ابن ادریس حلّی کی تالیف ہے لیکن انہوں نے اس پر کوئی دلیل نہیں لکھی۔ البتہ تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روضۃ الکافی شیخ کلینی کی ہی تصنیف ہے، اس کی کچھ وجوہات ہیں؛
1) شیخ نجاشی و شیخ طوسی جیسے قدیم علماء نے ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی کے احوال لکھتے ہوئے کافی کی کتب میں سے ایک کتاب الروضہ کو قرار دیا۔ ملاحظہ ہو رجال نجاشی ص377 اور فہرست شیخ طوسی ص393
2) اس کتاب کا اسلوب وہی ہے جو اصول و فروع کافی کا ہے۔ یعنی اسناد کو اسی طرح سے لایا گیا ہے جس طرح سے اصول و فروع میں ہے، یہاں تک کہ "عدّۃ من اصحابنا" کی اصطلاح بھی اس کتاب میں نظر آتی ہے جو شیخ کلینی سے مخصوص ہے۔
3) تمام احادیث کی سند کی ابتدا شیخ کلینی کے ہی شیوخ سے ہوتی ہے
ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اس کتاب کی نسبت شیخ کلینی سے درست ہے، اس میں ضعیف و مردود روایات کثرت سے ہیں تو ایسا خود اصول و فروع کافی پر بھی صدق آتا ہے، کیونکہ ان میں بھی کثرت سے ضعیف روایات ہیں جس کی وجہ سے ہم کافی کی نسبت کو شیخ کلینی سے مشکوک قرار نہیں دے سکتے۔
ابن ادریس حلّی اور شیخ کلینی میں بہت لمبے عرصے کا فرق تھا، جبکہ اس میں موجود احادیث کی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کلینی کی ہی اسناد ہیں۔
یہ جو رائے ہے کہ روضۃ الکافی شہید ثانی کی تصنیف ہے، یہ ابن ادریس کی طرف نسبت دینے والی رائے سے بھی زیادہ سست اور بے بنیاد ہے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کیا تمام سمندری جاندار حلال ہیں: حصّہ دوئم

٭کیا تمام سمندری جاندار حلال ہیں: حصّہ دوئم٭
سوال) آپ نے کل سمندری جانداروں کے بارے میں تحریر لکھی تھی جس میں اس استدلال کا رد کیا تھا کہ قرآن کے مطابق تمام بحری جاندار حلال ہیں۔ ایک اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ اہل تشیّع کے ہاں بغیر چھلکے والی مچھلیوں کے حرام ہونے پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے۔ وضاحت فرمائیے!
جواب) یہ اعتراض درست نہیں ہے اور اس سلسلے میں صحیح السند روایات موجود ہیں، ویسے تو میری تحریر کا مقصد فقط اس آیت سے غلط استدلال کا بطلان تھا، لیکن آپ کی خواہش پر میں صحیح السند روایت پیش کر دیتا ہوں؛
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ وَ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ جَمِيعاً عَنِ الْعَلَاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: أَقْرَأَنِي أَبُو جَعْفَرٍ ع شَيْئاً مِنْ كِتَابِ عَلِيٍّ ع فَإِذَا فِيهِ أَنْهَاكُمْ عَنِ الْجِرِّيِّ وَ الزِّمِّيرِ وَ الْمَارْمَاهِي وَ الطَّافِي وَ الطِّحَالِ قَالَ قُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ إِنَّا نُؤْتَى بِالسَّمَكِ لَيْسَ لَهُ قِشْرٌ فَقَالَ كُلْ مَا لَهُ قِشْرٌ مِنَ السَّمَكِ وَ مَا لَيْسَ لَهُ قِشْرٌ فَلَا تَأْكُلْه
(کافی: ج6 ص219)
اس حدیث میں واضح طور پر امام باقر(ع) امام علی(ع) کی کتاب سے کچھ بحری جانداروں کے حرام ہونے کے بارے میں قرات کرتے ہیں بشمول بام مچھلی (مار ماھی) اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ہر وہ مچھلی جس کے جسم پر چھلکے ہوں وہی حلال ہیں اور جس کے چھلکے نہ ہوں ان کو کھانے کی ممانعت ہے۔
اس حدیث کو شیخ کلینی نے کافی میں دو اسناد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ایک میں سہل بن زیاد ہے جن کی تضعیف بعض علمائے رجال نے کی ہے، جبکہ دوسری سند میں تمام ثقات ہیں۔ پس یہ روایت صحیح ہے۔
جبکہ شیخ طوسی نے اسی روایت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا؛
رَوَى الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنِ الْعَلَاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِم (تہذیب الاحکام: ج9 ص2)
اس سند میں بھی سب ثقات ہیں، پس یہ سند بھی صحیح ہے۔ چنانچہ بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ ہم تک یہ روایت تین اسناد سے پہنچی ہے، جن میں سے دو صحیح ہیں۔
نیز شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا؛
وَ قَالَ الصَّادِقُ ع كُلْ مِنَ السَّمَكِ مَا كَانَ لَهُ فُلُوسٌ وَ لَا تَأْكُلْ مِنْهُ مَا لَيْسَ لَهُ فَلْس (من لا یحضرہ الفقیہ: ج33 ص323)
یہاں شیخ صدوق نے بالجزم امام صادق(ع) سے یہ حدیث نقل کی کہ جس مچھلی کے جسم پر چھلکے نہ ہوں ان کا کھانا حرام ہے۔ امام خمینی سمیت اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک من لا یحضرہ الفقیہ کی وہ روایات معتبر ہیں جن میں بالجزم معصوم سے حدیث نقل کی جائے۔
اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث ہیں لیکن ہم نے چند معتبر روایات کو چنا ہے۔ ہمارے علماء میں یہ احادیث اتنی مشہور تھیں کہ علماء نے اس پر فتوے بھی دیئے، شیخ مفید اپنی مشہور کتاب المقنعہ میں فرماتے ہیں؛
و يؤكل من صيد البحر كل ما كان له فلوس من السموك و لا يؤكل منه ما لا فلس له و يجتنب الجري و الزمار و المارماهي من جملة السموك و لا يؤكل الطافي منه و هو الذي يموت في الماء فيطفوا عليه
بحری شکار میں ہر وہ مچھلی جائز ہے جس پر چھلکے ہوں۔ اور وہ مچھلیاں جائز نہیں جن پر چھلکے نہ ہوں۔ (المقنعہ: ص576)
مشہور فقیہ ابن ادریس حلّی فرماتے ہیں؛
و اما حيوان البحر، فلا يستباح أكل شيء منه الّا السّمك خاصة، و السمك يؤكل منه ما كان له فلس، و هو القشر، فاما ما لم يكن له قشر، و ان انطلق عليه اسم المسك فلا يحل اكله
سمندری جانداروں میں کچھ بھی کھانا جائز نہیں ہے سوائے خاص مچھلیوں کے، اور جو مچھلیاں کھائی جا سکتی ہیں ان کے جسم پر چھلکے ہوں، اور جس کے چھلکے نہ ہوں تو چاہے ان پر مچھلی نام کا اطلاق ہی کیوں نہ ہو، ان کا کھانا حلال نہیں۔ (السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی: ج3 ص98)
پس قرآن و سنّت و علمائے اعلام کے مشہور فتاوی کی روشنی میں وہی مچھلیاں حلال ہیں جن کے جلد پر چھلکے ہوں۔ اگر کسی وجہ سے ان کے جسم سے چھلکے اتر گئے ہوں یا چھلکے اتنے چھوٹے ہوں کہ معلوم نہ ہو سکیں تو کوئی حرج نہیں، چھلکے دار ہونے کا عنوان ہی کافی ہے۔
والسّلام علیکم من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کیا تمام سمندری جانور حلال ہیں؟

٭کیا تمام سمندری جانور حلال ہیں؟٭
سوال: میرے ایک دوست کا دعوی ہے کہ قرآن میں تمام سمندری جانوروں کو حلال کہا گیا ہے جبکہ اہل تشیّع فقط چھلکے والی مچھلیوں اور جھینگوں کو حلال کہتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: آپ کے دوست کا قرآن کی جس آیت کی طرف اشارہ ہے وہ یوں ہے؛
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
تمہارے لیے سمندری شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے، یہ تمہارے اور مسافروں کے فائدے میں ہے اور جب تک تم احرام میں ہو خشکی کا شکار تم پر حرام کر دیا گیا ہے اور جس اللہ کے سامنے جمع کیے جاؤ گے اس سے ڈرتے رہو (سورہ مائدہ: آیت 96)
اس آیت سے پہلے والی آیت یوں ہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْتُلُواْ الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاء مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَو عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللّهُ عَمَّا سَلَف وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللّهُ مِنْهُ وَاللّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ
اے ایمان والو! احرام کی حالت میں شکار نہ کرو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر (کوئی جانور) مار دے تو جو جانور اس نے مارا ہے اس کے برابر ایک جانور مویشیوں میں سے قربان کرے جس کا فیصلہ تم میںسے دو عادل افراد کریں، یہ قربانی کعبہ پہنچائی جائے یا مسکینوںکو کھانا کھلانے کا کفارہ دے یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کیے کا ذائقہ چکھے، جو ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور اگر کسی نے اس غلطی کا اعادہ کیا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ بڑا غالب آنے والا ، انتقام لینے والا ہے (سورہ مائدہ: آیت 95)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت فقط حج کے دوران احرام سے متعلق ہے، یعنی اگر حاجی نے حج کیلئے احرام باندھا ہو تو اس کیلئے چوپایوں اور پرندوں کا شکار حرام ہے لیکن سمندر کا شکار حلال ہے۔ اس سے قطعی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو کچھ سمندر کے اندر ہے وہ حلال ہے۔
اگر ہم اسی طرز استدلال کو لے لیں اور حکم کو مطلق احرام کے علاوہ لے آئیں تو پھر تمام زمینی جانوروں کا شکار اور ان کا کھانا ہمیشہ حرام ٹھہرتا۔ پس یہ آیتیں فقط حاجیوں کے لئے ہیں کہ ان کیلئے زمینی جانوروں کا شکار حرام ہے اور سمندری جانوروں کا شکار حلال ہے۔ اب زمینی و بحری جانوروں میں سے کونسے حلال ہیں اور کون سے حرام ہیں، اس کی تصریح اور تفصیل قرآن میں نہیں ہے بلکہ خاتم المرسلین(ع) اور ان کے برحق اوصیاء نے بیان فرمایا ہے۔
ہم تک جو احادیث پہنچی ہیں ان کی رو سے مچھلیوں میں صرف وہی جائز ہیں جن کے جسم پر چھلکے ہوں، اور وہ مچھلیاں جائز نہیں جن کے جسم پر چھلکے نہ ہوں۔ نیز جھینگے وغیرہ بھی حلال ہیں جن کو انگریزی میں پراؤن کہتے ہیں، بڑے جھینگے جن کو لوبسٹر کہتے ہیں جائز نہیں۔
غرض آپ کے دوست کا یہ کہنا درست نہیں کہ قرآن کے مطابق تمام بحری جانور حلال ہیں۔ اور ان لوگوں کا فتوی بھی خطا پر مبنی ہے جنہوں نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے تمام بحری جانوروں کو حلال کہا۔ یہ بات عقل سے بھی متصادم ہے کیونکہ کئی بحری جانور ایسے ہیں جن کو دیکھ کر انسانی طبیعت متنفّر ہو جاتی ہے۔
سوال نمبر 2) بغیر چھلکے والی مچھلیوں کے حرام ہونے کی علّت کیا ہے؟
جواب) شرع میں وہ جانور ممنوع ہیں جو مسخ شدہ ہیں، یعنی پچھلی قوموں میں سے بعض کو اللہ تعالی نے مسخ کر دیا تھا، جن جانوروں کی صورتوں میں یہ مسخ ہوئے ان کو کھانا حرام ہے۔ جیسے ہاتھی اور گینڈا، جن میں شاید حرام ہونے کی کوئی اور وجہ بھی نہیں بلکہ ان میں حلال گوشت ہونے کی نشانیاں بھی ہوں لیکن چونکہ مسخ شدہ ہیں اس لئے حرام ہیں۔
امام علی(ع) کی ایک حدیث کی رو سے جس طرح زمین پر مسخ شدہ جانور ہیں، اسی طرح سمندر میں بھی ہیں۔ تبھی ان کی نشانی یہ بتائی گئی کہ ان کے جسم پر چھلکے ہوں تو وہ حلال ہوں گی اور اگر چھلکے نہیں تو حرام ہوں گی۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ




اتوار، 5 اپریل، 2015

عقل اور معرفت خداوندی

٭عقل اور معرفت خداوندی٭
امام محمد باقر(ع): كلما ميزتموه بأوهامكم في أدق معانيه مخلوق مصنوع مثلكم مردود إليكم و لعل النمل الصغار تتوهم أن لله تعالى زبانيتين فإن ذلك كمالها و يتوهم أن عدمها نقصان لمن لا يتصف بهما و هذا حال العقلاء فيما يصفون الله تعالى به
امام محمد باقر(ع): ہر وہ چیز جو اپنے گمان اور ادراک کے مطابق اور دقیق ترین معانی کے مطابق (اللہ کی ذات کی توصیف) کرتے ہو وہ تمہارے (ذہن کی) پیداوار ہے اور تمہاری طرف اس کی بازگشت ہے۔ کیونکہ بہت دفعہ کوئی چیونٹی یہ گمان کرتی ہے کہ اللہ تعالی کے بھی دو سینگ ہوں گے اور وہ چیونٹی اس کو کمال سمجھتی ہے اور سوچتی ہے کہ جس کے باس یہ دونوں نہ ہوں اس کے لئے یہ نقص ہوگا۔ اسی طرح عقلاء اللہ تعالی کی صفات (اس چیونٹی کی طرح) بیان کرتے ہیں۔
(الوافی ج1 ص408، بحارالانوار: ج66 ص293)
درایۃ الحدیث:
مذکورہ روایت علامہ مجلسی نے بغیر کسی سند کے بحارالانوار اور مرآت العقول کی جلد9 ص456 پر نقل کی ہے۔ آپ کے شاگرد رشید ملاّ صالح مازندرانی اور ملاّ صدرا نے اصول کافی کی شروحات میں اس روایت کو نقل کیا۔ ان سے قبل ملا محسن فیض کاشانی نے وافی میں اس کو نقل کیا۔ اور ان سے بھی قبل میر داماد نے "روشح السماویہ فی شرح الاحادیث الامامیہ" اور شیخ بہائی نے اربعین میں نقل کیا۔
روایت مرسل ہے لیکن اس کا متن عظیم ہے اور بہترین انداز میں معرفت خداوندی کے بارے میں انسانی تاثرات کو سمجھایا گیا ہے۔
فوائد الحدیث:
یہ روایت بہترین نکات پر مشتمل ہے۔ شیخ بہائی اس کی شرح میں مولانا جلال الدین محمد دوانی کے الفاظ نقل کرتے ہیں: چونکہ بشر کی ذمہ داری اس کی توانائی کے مطابق ہوتی ہے، لہذا انسان اس سے زیادہ مکلّف نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کو جو تمام کامل و اکمل صفات کا حامل ہے، ان صفات سے متّصف کرے اور جو صفات نقص کا باعث ہیں ان سے اللہ کی ذات کو مبرّا سمجھے۔ اور جن چیزوں کو اس کا ذہن درک نہیں کر سکتا وہ ان کیلئے مکلّف نہیں ہے۔
مثلا انسان اپنے کمال کو قادر ہونے مختار ہونے، ہمیشہ حیّ (زندہ) ہونے، مرید و مدرک و صادق و بصیر و سمیع ہونے میں سمجھتا ہے، چنانچہ وہ ان صفات کے اثبات کیلئے مکلّف ہے اور اپنے نقص کو محتاج ہونے، جسم رکھنے، عرض و حادث ہونے میں دیکھتا ہے۔ پس وہ مکلّف ہے کہ ان صفات کو اللہ سے سلب کرے۔ اس سے زیادہ تکلیف مالا یطاق ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


قرآن مکمّل اور تحریف سے پاک

٭قرآن مکمّل اور تحریف سے پاک٭
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ
اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقینا ہمارے ذمے ہے۔ (القیامۃ: 17)
جس قرآن کو جمع کرنے اور پڑھوانے کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے اس میں کمی بیشی کیسے ممکن ہے؟ اور قرآن کو جمع بھی خداوند عالم نے کیا، کسی بشر نے نہیں۔
ہر وہ روایت ناقابل قبول ہے جو قرآن کی اس واضح و محکم آیت سے ٹکرائے۔
والسّلام
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تفحظ عقائد شیعہ


عبادت کی کثرت نہیں بلکہ اخلاص و اخلاق کی اہمیت

٭عبادت کی کثرت نہیں بلکہ اخلاص و اخلاق کی اہمیت٭
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع لَا تَنْظُرُوا إِلَى طُولِ رُكُوعِ الرَّجُلِ وَ سُجُودِهِ فَإِنَّ ذَلِكَ شَيْءٌ اعْتَادَهُ فَلَوْ تَرَكَهُ اسْتَوْحَشَ لِذَلِكَ وَ لَكِنِ انْظُرُوا إِلَى صِدْقِ حَدِيثِهِ وَ أَدَاءِ أَمَانَتِه
امام جعفر صادق(ع): "کسی شخص کے رکوع اور سجود کے طولانی ہونے کو مت دیکھو، کیونکہ وہ اس کی عادت پیدا کر چکا ہے اگر وہ اس کو ترک کرے گا تو وحشت زدہ ہو جائے۔ لیکن اس شخص کے گفتار کی صداقت اور امانتداری کو دیکھو (جو اصل میں ایمان کی علامت ہے۔"
(اصول کافی: ج2 ص105)
امام صادق(ع) نے یہاں پر ایمان کا معیار بتا دیا ہے۔ بیشک کفر اور اسلام میں ایک واضح فرق نماز کا ہے، نماز کے بغیر کوئی شخص ایمان کا اظہار نہیں کر سکتا۔ نیز اللہ تعالی کی صحیح معرفت کے بعد اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا دوسرا درجہ نماز کی پابندی ہے، جیسا کہ امام کاظم(ع) اپنی ایک وصیت میں ھشام سے فرماتے ہیں؛
يَا هِشَامُ أَفْضَلُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ الْعَبْدُ إِلَى اللَّهِ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ بِهِ الصَّلَاةُ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَ تَرْكُ الْحَسَدِ وَ الْعُجْبِ وَ الْفَخْر
"اے ھشام! بہترین چیز جس کی وجہ سے کوئی شخص اللہ کی معرفت کے بعد اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے، نماز ہے۔ نیز والدین کے ساتھ نیک سلوک اور حسد و تکبّر و تفاخر کا ترک کرنا ہے۔"
(تحف العقول: ص391)
نماز کی اتنی اہمیت کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض لوگ نماز کی عادت پیدا کر لیتے ہیں۔ یہ عادت بعض دفعہ والدین کی ترغیب، ماحول کے اثرات یا دینی علوم پڑھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ عادت خدا کی معرفت کا نتیجہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے نمازی تو ہوتے ہیں لیکن اپنے گفتار و کردار و اخلاق میں خالص اسلام کے پیروکار نہیں ہوتے۔
اسی لئے ہمیں بہت سے نمازی اور بظاہر شرع کے پابند لوگوں میں ایسے بھی ملیں گے جو حقوق الناس کی رعایت نہیں کرتے۔ غیبت و بہتان، حسد و نفاق، تکبّر و عیب جوئی کے رسیا نظر آتے ہیں۔ اپنے رویّوں میں اعتدال پیدا نہیں کر سکتے، نہ شرع کو سمجھنے کی توفیق، نہ روح اسلام کو درک کرنے کی صلاحیت۔ امام خمینی نے ایک جگہ دینی طلاّب کو بھی تنبیہ کی ہے جو فقط ظاہر کو لئے بیٹھے ہیں اور باطن پر توجّہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے اخلاقی برائیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ دینی و علمی اختلاف پر طوفان بدتمیزی، گالیوں اور توہین کا تبادلہ، ایک دوسرے کے خاندان اور والدین تک پہنچنا، اسی طرح دیگر عادات رذیلہ بظاہر دینی لوگوں میں نظر آتا ہے۔ ان چیزوں کے مظاہر آئے دن فیس بک پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اسی لئے امام صادق(ع) نے یہاں یہ واضح فرمایا کہ کسی کے رکوع و سجود کے طولانی ہونے سے متاثر نہیں ہونا چاھئے، کیونکہ اس کی عادت انسان پیدا کر لیتا ہے۔ جو چیز اہم ہے وہ گفتار کی صداقت اور دیگر حقوق الناس کی رعایت کرنے میں ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو روح اسلام کو سمجھنے کی توفیق عنایت کرے۔
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ