بدھ، 15 جولائی، 2015

٭رمضان کا چاند٭

٭رمضان کا چاند٭
آج سولہ جون کو کہیں پر بھی رمضان کا چاند دکھائی دینے کے کوئی آثار نہیں۔ سترہ جون کی شب رمضان کا چاند جنوبی امریکہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ، افریقہ، جنوبی ہندوستان (بمبئی، دکّن و کیرالہ)، سری لنکا، مالدیپ، سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں، یمن، ملائشیا و انڈونیشیا اور آسٹریلیا میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔
جبکہ ایران و عراق، شام و لبنان، پاکستان میں سندھ و بلوچستان، ہندوستان میں دہلی و اتر پردیش و بہار، بنگلہ دیش اور برما وغیرہ میں چاند نظر آنے کے بہت کم چانسز ہیں
 ...لیکن رؤیت ممکن ہے لہذا عادل گواہ ہوں تو قبول کر سکتے ہیں۔
یورپ میں کہیں پر بھی چاند نظر آنے کا کوئی چانس نہیں ہے سوائے اسپین، پرتگال اور اٹلی کے جزیرہ سسلی۔ لہذا یورپ میں پہلی رمضان 19 جون کو ہوگی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر، پاکستان کے شمالی علاقوں جیسے گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، خیبر پختوانخواہ کے اکثر جگہوں پر چاند نظر آنے کے کوئی چانسز نہیں لہذا یہاں کسی قسم کی رؤیت کا دعوی درست نہیں۔
اسی طرح وسطی ایشائی ریاستوں، قفقاز کی ریاستوں، چین و جاپان، کوریا، روس و منگولیا میں بھی چاند نظر نہیں آ سکتا۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
 
 

٭مومن کو شاد کرنے کی فضیلت٭

٭مومن کو شاد کرنے کی فضیلت٭
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فِي حَدِيثٍ طَوِيلٍ إِذَا بَعَثَ اللَّهُ الْمُؤْمِنَ مِنْ قَبْرِهِ خَرَجَ مَعَهُ مِثَالٌ يَقْدُمُ أَمَامَهُ كُلَّمَا رَأَى الْمُؤْمِنُ هَوْلًا مِنْ أَهْوَالِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ لَهُ الْمِثَالُ لَا تَفْزَعْ وَ لَا تَحْزَنْ وَ أَبْشِرْ بِالسُّرُورِ وَ الْكَرَامَةِ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ حَتَّى يَقِفَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَيُحَاسِبُهُ حِساباً يَسِيراً وَ يَأْمُرُ بِهِ إِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمِثَالُ أَمَامَهُ فَيَقُولُ لَهُ الْمُؤْمِنُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ نِعْمَ الْخَارِجُ خَرَجْتَ مَعِي مِنْ قَبْرِي وَ مَا زِلْتَ تُبَشِّرُنِي بِالسُّرُورِ وَ الْكَرَامَةِ مِنَ اللَّهِ حَتَّى رَأَيْتُ ذَلِكَ فَيَقُولُ مَنْ أَنْتَ فَيَقُولُ أَنَا السُّرُورُ الَّذِي كُنْتَ أَدْخَلْتَ عَلَى أَخِيكَ الْمُؤْمِنِ فِي الدُّنْيَا خَلَقَنِي اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْهُ لِأُبَشِّرَك
امام جعفر صادق(ع) ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں؛ "جب اللہ تعالی کسی مومن کو اس کی قبر سے محشور کرے گا تو اس کے ساتھ ایک صورت بھی ہوگی جو اس کے ساتھ ساتھ ہوگی۔ قیامت کی جن ہولناکیوں سے مومن گزرے گا وہ صورت اس کو کہے گی کہ مت ڈرو اور غم و اندوہ کو اپنے پاس نہ پھٹکنے دو، میں تمہیں اللہ عزّوجل کی طرف سے خوشی و سرور اور کرامت کی بشارت دیتا ہوں۔ یہاں تک کہ مومن اللہ کے پاس حساب کیلئے پہنچے گا، پس اللہ اس کا حساب آسان کرے گا اور اس کو جنّت میں جانے کا حکم دے گا۔ وہ صورت اسی طرح اس کے آگے آگے ہوگی، مومن اس سے کہے گا کہ تم پر اللہ کی رحمت ہو، تم وہ بہترین ساتھی تھے جو میرے ساتھ قبر سے خارج ہوئے اور مجھے خوشی و سرور اور کرامت کی بشارت دیتے رہے تاآنکہ میں نے ان کو پا لیا، پس تو کون ہے؟
وہ صورت کہے گی: میں وہ راحت ہوں جو تو نے دنیا میں اپنے مومن بھائی کو پہنچائی (یعنی اس کو خوش کیا)۔ اللہ نے محھے اس (سرور) سے خلق کیا تاکہ تمہیں بشارت دوں۔"
(اصول کافی: ج2 ص190)
رجال و درایۃ الحدیث:
اس حدیث کو شیخ کلینی نے اس سند کے ساتھ نقل کیا؛
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ سَدِيرٍ الصَّيْرَفِي
اس میں تمام راوی ثقہ ہیں، لیکن سدیر صیرفی کی توثیق نہیں وارد ہوئی البتہ وہ ممدوح ہیں۔ لہذا یہ حدیث "حسن" کے درجے پر ہے۔
اس حدیث کو کم و بیش انہی الفاظ کے ساتھ شیخ مفید کی امالی میں بھی اس سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے؛
قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الْقَاسِمِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُولَوَيْهِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ أَبِيه (امالی مفید: ص177)
شیخ مفید نے یہ حدیث ابن قولویہ سے نقل کی جو بزرگ محدّثین میں سے ہیں۔ ابن قولویہ نے اپنے والد اور انہوں نے سعد بن عبداللہ اشعری سے نقل کیا۔ البتہ یہاں حسن بن محبوب براہ راست سدیر سے نقل نہیں کر رہے بلکہ ان کے بیٹے حنان بن سدیر کے واسطے سے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کافی کی روایت میں حنان بن سدیر محذوف ہے۔ شیخ طوسی نے بھی ابن قولویہ سے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث نقل کی ہے (امالی طوسی: ص195)
فوائد الحدیث:
سند کی خوبصورتی کے ساتھ یہ حدیث ہم سب کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ آجکل کے دور میں جب اناپرستی و تعصّب انسان کو مجبور کرتی ہے کہ دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے اور اپنی ذات کے خول سے نہ نکلے، وہاں معصوم کا یہ فرمان کہ ایک مومن کو شاد کرنے یا سرور پہنچانے کا یہ اجر و ثواب ہے، اس معاشرے میں اکسیر ثابت ہوگا جہاں مذہب کے نام پر مومنین کی توہین بہت عام ہے۔ مذہب فقط لوگوں کے زبان کا چٹخارہ بن کر رہ گیا ہے جہاں حقوق العباد بالکل مفقود ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں حقیقی مومن بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
 
 

روزوں سے متعلق ایک اہم مسئلہ

اگر روزے کسی شرعی عذر کی وجہ سے قضا ہوئے ہیں جیسے سفر کی وجہ سے یا کسی مرض کی وجہ سے یا مخصوص ایّام کی وجہ سے، تو اگر آنے والے رمضان تک قضا نہیں کی تو قضا کا کفّارہ دینا ہوگا یعنی ہر روزے کے بدلے ایک مد طعام دینا ہوگا۔
لہذا اگر آپ کے پچھلے رمضان کے روزے قضا ہیں تو اس رمضان سے پہلے پہلے رکھ لیں۔ اگر نہ رکھ پائیں تو ہر روزے کے بدلے ایک "مد" کھانا کسی غریب یا مسکین کو دینا ہوگا۔
...
البتہ یاد رہے کہ اس کفّارے کے باوجود بھی روزوں کی قضا بدستور موجود رہے گی، یعنی زندگی میں ان کی قضا آپ کو ہر حال میں بجا لانی ہوگی۔ لیکن کفارہ ادا کرنے کے بعد اگلے رمضان تک بھی قضا نہ رکھ پائیں تو پھر کوئی کفارہ نہیں ہے، یہ کفارہ قضا روزوں کے بعد پہلی رمضان پر ہی لاگو ہوگا۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
 
 

کونڈوں کی شرعی حیثیت

کونڈوں کی شرعی حیثیت
س) کیا کونڈے جائز ہیں؟ اور اس میں جو لکڑہارے کی کہانی بیان ہوتی ہے، کیا وہ درست ہے؟
ج) اس سوال کی کئی جہات ہیں، مؤمنین بلکہ مسلمین بلکہ کسی بھی انسان کو کھانا کھلانا یا اطعام کرنا یا دعوت کرنا باعث ثواب ہے۔ اگر اس رسم کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ باعث ثواب ہے۔
اس سوال کی دوسری جہت یہ ہے کہ کیا رجب کے مہینے میں ہی اس کو منانے کی کوئی شرعی دلیل ملتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں کوئی شرعی دلیل نہیں ملتی کہ 22 رجب کو فلاں کیفیت کے ساتھ دعوتیں کی جائیں۔ ہاں اگر مومنین کو اطعام کی نیّت سے کیا جائے تو کسی بھی دن خوب رہے گا، لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ 22 رجب کو ہی اس خاص کیفیت سے کونڈے کرنے کا کوئی حکم معصوم کی طرف سے صادر ہوا ہے۔
 
شاید آپ میں بہت سوں کے لئے یہ بات نئی ہو، یہ کونڈے برّصغیر کی رسم ہے، اس کی شروعات بیسویں صدی کے اوائل یا انیسویں صدی کے اواخر میں اتر پردیش سے ہوئی۔ وہاں سے پھر یہ پنجاب و سندھ وغیرہ بھی پہنچا۔ اسی لئے برّصغیر کے دیگر علاقوں جیسے مقبوضہ جمّوں و کشمیر، لداخ و بلتستان، گلگت و پاراچنار وغیرہ میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے۔ برّصغیر سے باہر ایران و عراق، افغانستان، ترکی، لبنان، بحرین، شام و آذربائجان میں اس کا تصوّر بھی محال ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ مشہور کہانی جو کونڈوں کے موقعے پر پڑھی جاتی ہے خالص ہندوستانی اختراع ہے۔
 
یہاں اس سوال کے تیسرے جہت پر کلام کریں گے، اور وہ ہے لکڑہارے کی مشہور کہانی جو کونڈوں کے مواقع پر پڑھی جاتی ہے۔ یہ کہانی کافی لمبی چوڑی ہے جس کا ذکر طوالت کا باعث بنے گا، مختصر یہ کہ کسی لکڑہارے کے گھر پر فاقے ہو رہے تھے تو امام صادق(ع) نے ان کو خاص کیفیت میں پوڑیاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر کھلانے کا کہا۔ اس لکڑہارے نے ایسا کیا تو اس کی قسمت جاگی خزانہ ملا۔ اس کی بیوی پہلے کسی وزیر کے گھر پر خادمہ تھی، جب اس کی قسمت جاگی تو وزیر کی بیوی کو ان کونڈوں کے اسرار کا پتہ چلا لیکن اس نے ماننے سے انکار کیا۔ اس انکار کی اس کو سخت سزا ملی، وزیر کو اپنی وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ بادشاہ کا بیٹا غائب ہوا تو دشمنوں نے افواہ اڑائی کہ کہیں اس وزیر نے تو بیٹے کو ہلاک نہیں کیا۔ وزیر کی بیوی خربوزہ یا تربوز خرید رہی تھی ان کو پکڑ لیا گیا، بادشاہ نے اس کے ہاتھ میں رومال دیکھ کر کہا کہ اس میں کیا ہے تو وزیر نے کہا خربوزہ ہے لیکن کھول کر دیکھا گیا تو بادشاہ کے بیٹے کا سر نکلا۔ ان کو قتل کرنے کی سزا ہوئی، جب میاں بیوی بیٹھے تو انہوں نے سوچا کہ آخر ان سے کیا غلطی ہوئی ہے، تو بیوی نے بتایا کہ اس نے کونڈوں کا انکار کیا تھا، اس پر دونوں توبۂ نصوح کرتے ہیں اور کونڈوں کی منّت مانتے ہیں۔ جب بادشاہ نے دوبارہ بلایا اور رومال کھولا تو بیٹے کا سر نہیں تھا بلکہ وہ خربوزہ ہی تھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر سٹپٹا گیا تو وزیر نے کونڈوں کی کرامتیں سنائیں تو بادشاہ ششدر رہ گیا (ہم نے کہانی مختصر طور پر نقل کفر کفر نباشد کے مصداق لکھی ہے)۔
 
ہم نے یہ کہانی بہت مختصر کر کے سنائی ہے، اس پوری کہانی کو پڑھنے کے بعد اس بناوٹی کہانی پر لب کشائی کے لئے بھی الفاظ نہیں۔ واضح ہے کہ یہ کہانی یوپی کے کسی بانکے نے بنائی ہے، کیونکہ امام جعفر صادق(ع) کے دور میں بادشاہت میں وزارت کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ امویوں کے دورخلافت میں وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں ملتا، امام(ع) کا آخری دور عباسیوں کے عروج حاصل کرنے کا زمانہ تھا۔ اس میں بھی اس منصب کا کوئی وجود نہیں ملتا، بعد میں جب عباسی حکومت مستحکم ہوئی تو اس منصب کو بنایا گيا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ میں کسی قسم کی بادشاہت تھی ہی نہیں، بادشاہ کا دارالحکومت اموی دور میں دمشق تھا اور عباسیوں نے بغداد کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ لہذا اس کہانی پر کچھ کہنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے۔
اب یہ تو واضح ہے کہ یہ کہانی معصوم(ع) سے کسی طور منسوب نہیں، تو اس کہانی کا پڑھنا کیسا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ جب کسی واقعے کا جعلی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کو نقل کرنا معصومین(ع) پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ اگر بالفرض جعلی ہونا واضح نہ ہوتا تب بھی اس کا کسی مستند کتاب میں موجود نہ ہونا ہی اس کہانی کو پڑھنے کے عدم جواز کے لئے کافی تھا۔
نتیجہ گیری:
اوپر پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بذات خود کونڈے کھلانے اور اطعام مسلمین میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ باعث ثواب ہے، لیکن اس دن جعلی کہانی پڑھ کر معصومین ع پر جھوٹ نہ باندھا جائے۔ اگر کونڈے دلانا مقصود ہو تو فقط اس نیّت سے کھلائیں کہ اللہ کی رضا کے لئے مومنین کو دعوت دے رہے ہیں، اور جعلی کہانی کے بجائے کوئی معتبر دعا پڑھ لیں یا سورہ یس وغیرہ کی تلاوت کر لیں۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

 
 

پیر، 27 اپریل، 2015

اہل بیت اطہار(ع) کے نام قرآن میں کیوں نہیں؟

٭اہل بیت اطہار(ع) کے نام قرآن میں کیوں نہیں؟٭
عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِى بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَطِيعُوا اللّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ فـَقـَالَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيِّ بـْنِ أَبـِي طَالِبٍ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ ع فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ فَمَا لَهُ لَمْ يُسَمِّ عَلِيّاً وَ أَهْلَ بَيْتِهِ ع فِى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ فَقَالَ قُولُوا لَهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص نَزَلَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ اللَّهُ لَهُمْ ثَلَاثاً وَ لَا أَرْبَعاً حَتَّى كـَانَ رَسـُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ لَهُمْ مِنْ كُلِّ أَرْبـَعـِيـنَ دِرْهَماً دِرْهَمٌ حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَ الْحَجُّ فَلَمْ يـَقـُلْ لَهـُمْ طـُوفـُوا أُسـْبُوعاً حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ أَطـِيـعـُوا اللّهَ وَ أَطـِيـعـُوا الرَّسـُولَ وَ أُولِى الْأَمـْرِ مـِنـْكـُمْ وَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحـُسـَيـْنِ فـَقـَالَ رَسـُولُ اللَّهِ ص فـِى عـَلِيٍّ مـَنْ كـُنـْتُ مـَوْلَاهُ فـَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَ قَالَ ص ‍ أُوصـِيـكـُمْ بـِكِتَابِ اللَّهِ وَ أَهْلِ بَيْتِى فَإِنِّى سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ لَا يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا حَتَّى يُورِدَهُمَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَعْطَانِي ذَلِكَ وَ قَالَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ وَ قَالَ إِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَنْ يُدْخِلُوكُمْ فِى بَابِ ضَلَالَةٍ فَلَوْ سَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ص فـَلَمْ يـُبـَيِّنْ مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ لَادَّعَاهَا آلُ فُلَانٍ وَ آلُ فُلَانٍ وَ لَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْزَلَهُ فِى كِتَابِهِ تَصْدِيقاً لِنَبِيِّهِ ص إِنَّما يُرِيدُ اللّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تـَطـْهـِيـراً فـَكـَانَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ فَاطِمَةُ ع فَأَدْخَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ص تَحْتَ الْكِسَاءِ فِى بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَهْلًا وَ ثَقَلًا وَ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِى وَ ثـَقـَلِى فـَقـَالَتْ أُمُّ سـَلَمـَةَ أَ لَسـْتُ مـِنْ أَهْلِكَ فَقَالَ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ وَ لَكِنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِى
ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق(ع) سے اللہ کے کلام "اطیعو اللہ و اطیعو الرسول واولی الامر منکم" (نساء 59) کا پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ آیت علی ابن ابیطالب، حسن اور حسین(علیھم السلام) کے لئے نازل ہوئی ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ علی(ع) اور اہل بیت(ع) کا نام کتاب اللہ عزّوجل میں (صریح) درج کیوں نہیں ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: ان سے کہو کہ اللہ نے نماز کی آیت رسول اللہ(ص) پر نازل کی لیکن تین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں کے نام اس میں نہیں بتائے گئے یہاں تک کہ خود رسول (ص) نے لوگوں کو بیان کیا۔ اور (اسی طرح) آیت زکات ان پر نازل ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر 40 درھم پر ایک درھم زکات دینی ہے، یہاں تک کہ خود رسول(ص) نے بیان فرمایا۔ اور (اسی طرح) حج کا حکم آیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ 7 طواف کرنے ہیں، یہاں تک کی رسول(ص) نے وضاحت کی۔
اور جب "اطیعو اللہ و اطیعو الرّسول و اولی الامر منکم" نازل ہوئی تو یہ علی(ع) و حسن و حسین(ع) کے لئے نازل ہوئی۔ پس رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کے بارے میں فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" (جس جس کا میں مولا، اس اس کا یہ علی مولا)۔ اور نیز فرمایا: میں تم سے کتاب اللہ (قرآن) اور اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں وصیّت کرتا ہوں کیونکہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ ان دونوں کو ہرگز باھم جدا نہ ہونے دینا جب تک یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں، پس اللہ نے میری خواہش ہوری کی۔ اور نیز فرمایا: تم لوگ ان کو کچھ نہ سکھانا کیونکہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا: یہ تمہیں ہدایت سے باہر ہرگز نہ جانے دیں گے اور تمہیں ضلالت و گمراہی کے دروازے میں کبھی داخل نہیں کریں گے۔
اور اگر رسول اللہ(ص) خاموشی فرماتے اور اپنی اہل بیت(ع) کے بارے میں بیان نہ فرماتے تو فلاں اور فلاں کی آل اس امر کا دعوی کرتی۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی(ص) کی تصدیق کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا: "انّما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت ویطھّرکم تطہیرا"۔ آپ(ص) نے امّ سلمہ(س) کے گھر میں اپنی عباء کے نیچے علی، فاطمہ، حسن و حسین(علیھم السّلام) کو جمع کیا اور فرمایا: اے اللہ ہر نبی کے اھل و ثقل ہوتے ہیں، میرے اھل اور ثقل یہ ہیں۔ امّ سلمہ(ر) نے عرض کیا کہ کیا میں آپ کے اھل سے نہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ بے شک تم خیر پر ہو لیکن میرے اھل و ثقل یہ ہیں۔
اصول كافى جلد 2 صفحه 40 رواية 1
یہ حدیث اس سلسلۂ سند کے ساتھ "صحیح" کے درجے پر ہے؛
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ وَ عِمْرَانَ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ
فوائد؛
اس حدیث سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں؛
1) اطیعو اللہ واطیعو الرّسول واولی الامر والی آیت میں اولی الامر کے مصداق صرف آئمہ اھل بیت(ع) ہیں۔ کچھ گمراہ کرنے والے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر امامت منصوص ہوتی تو امام علی(ع) کا نام قرآن میں کیوں نہیں۔ امام جعفر صادق(ع) کے اس استدلال نے ان لوگوں کی بولتی بند کر دی ہے، جس طرح قرآن میں نماز کا حکم ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نماز کی کتنی رکعتیں ہیں اور کیسے پڑھنی ہیں، یہ رسول(ص) نے بتایا۔ اسی طرح زکات کا حکم ہے، لیکن زکات کا نصاب کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں یہ رسول(ص) نے بتائے۔ اسی طرح قرآن میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے، لیکن یہ اولی الامر کون ہیں یہ رسول(ص) ہی بتائیں گے اور رسول(ص) نے غدیر خم سمیت کئی مقامات پر اس بات کا برملا اظہار فرمایا کہ یہ ولایت صرف علی(ع) کی ہے۔ قرآن اور اہل بیت(ع) اطہار قدم بقدم ساتھ ہیں۔
2) اس سے یہ ثابت ہوا کہ امّہات مؤمنین ہرگز اھل بیت(ع) میں شامل نہیں۔
3) علاوہ ازیں حدیث کساء میں امّ سلمہ(ع) کا عبا یا ردا میں شامل ہونے کی کوشش اور رسول(ص) کا اس بات سے منع کرنا کہ تم اھل میں شامل نہیں ہو، یہ بات پوائنٹ نمبر 2 کا واضح ثبوت ہے۔
4) آیت تطہیر کے مصداق صرف علی و حسن و حسین و فاطمہ(علیھم السلام) ہیں اور امّہات ان میں شامل نہیں۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کتاب روضۃ الکافی کے بارے مین

٭کتاب روضۃ الکافی٭
سوال) کیا اصول و فروع کافی کی طرح روضۃ الکافی بھی شیخ کلینی کی تصنیف تھی؟ کہتے ہیں کہ کچھ علماء نے اس کی شیخ کلینی سے نسبت کے بارے میں شک کا اظہار کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ابن ادریس حلّی یا شہید ثانی کی تصنیف ہے۔
جواب) جی ہاں عالم جلیل ملّا خلیل قزوینی نے احتمال دیا تھا کہ روضۃ الکافی دراصل ابن ادریس حلّی کی تالیف ہے لیکن انہوں نے اس پر کوئی دلیل نہیں لکھی۔ البتہ تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روضۃ الکافی شیخ کلینی کی ہی تصنیف ہے، اس کی کچھ وجوہات ہیں؛
1) شیخ نجاشی و شیخ طوسی جیسے قدیم علماء نے ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی کے احوال لکھتے ہوئے کافی کی کتب میں سے ایک کتاب الروضہ کو قرار دیا۔ ملاحظہ ہو رجال نجاشی ص377 اور فہرست شیخ طوسی ص393
2) اس کتاب کا اسلوب وہی ہے جو اصول و فروع کافی کا ہے۔ یعنی اسناد کو اسی طرح سے لایا گیا ہے جس طرح سے اصول و فروع میں ہے، یہاں تک کہ "عدّۃ من اصحابنا" کی اصطلاح بھی اس کتاب میں نظر آتی ہے جو شیخ کلینی سے مخصوص ہے۔
3) تمام احادیث کی سند کی ابتدا شیخ کلینی کے ہی شیوخ سے ہوتی ہے
ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اس کتاب کی نسبت شیخ کلینی سے درست ہے، اس میں ضعیف و مردود روایات کثرت سے ہیں تو ایسا خود اصول و فروع کافی پر بھی صدق آتا ہے، کیونکہ ان میں بھی کثرت سے ضعیف روایات ہیں جس کی وجہ سے ہم کافی کی نسبت کو شیخ کلینی سے مشکوک قرار نہیں دے سکتے۔
ابن ادریس حلّی اور شیخ کلینی میں بہت لمبے عرصے کا فرق تھا، جبکہ اس میں موجود احادیث کی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کلینی کی ہی اسناد ہیں۔
یہ جو رائے ہے کہ روضۃ الکافی شہید ثانی کی تصنیف ہے، یہ ابن ادریس کی طرف نسبت دینے والی رائے سے بھی زیادہ سست اور بے بنیاد ہے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کیا تمام سمندری جاندار حلال ہیں: حصّہ دوئم

٭کیا تمام سمندری جاندار حلال ہیں: حصّہ دوئم٭
سوال) آپ نے کل سمندری جانداروں کے بارے میں تحریر لکھی تھی جس میں اس استدلال کا رد کیا تھا کہ قرآن کے مطابق تمام بحری جاندار حلال ہیں۔ ایک اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ اہل تشیّع کے ہاں بغیر چھلکے والی مچھلیوں کے حرام ہونے پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے۔ وضاحت فرمائیے!
جواب) یہ اعتراض درست نہیں ہے اور اس سلسلے میں صحیح السند روایات موجود ہیں، ویسے تو میری تحریر کا مقصد فقط اس آیت سے غلط استدلال کا بطلان تھا، لیکن آپ کی خواہش پر میں صحیح السند روایت پیش کر دیتا ہوں؛
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ وَ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ جَمِيعاً عَنِ الْعَلَاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: أَقْرَأَنِي أَبُو جَعْفَرٍ ع شَيْئاً مِنْ كِتَابِ عَلِيٍّ ع فَإِذَا فِيهِ أَنْهَاكُمْ عَنِ الْجِرِّيِّ وَ الزِّمِّيرِ وَ الْمَارْمَاهِي وَ الطَّافِي وَ الطِّحَالِ قَالَ قُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ إِنَّا نُؤْتَى بِالسَّمَكِ لَيْسَ لَهُ قِشْرٌ فَقَالَ كُلْ مَا لَهُ قِشْرٌ مِنَ السَّمَكِ وَ مَا لَيْسَ لَهُ قِشْرٌ فَلَا تَأْكُلْه
(کافی: ج6 ص219)
اس حدیث میں واضح طور پر امام باقر(ع) امام علی(ع) کی کتاب سے کچھ بحری جانداروں کے حرام ہونے کے بارے میں قرات کرتے ہیں بشمول بام مچھلی (مار ماھی) اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ہر وہ مچھلی جس کے جسم پر چھلکے ہوں وہی حلال ہیں اور جس کے چھلکے نہ ہوں ان کو کھانے کی ممانعت ہے۔
اس حدیث کو شیخ کلینی نے کافی میں دو اسناد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ایک میں سہل بن زیاد ہے جن کی تضعیف بعض علمائے رجال نے کی ہے، جبکہ دوسری سند میں تمام ثقات ہیں۔ پس یہ روایت صحیح ہے۔
جبکہ شیخ طوسی نے اسی روایت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا؛
رَوَى الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنِ الْعَلَاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِم (تہذیب الاحکام: ج9 ص2)
اس سند میں بھی سب ثقات ہیں، پس یہ سند بھی صحیح ہے۔ چنانچہ بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ ہم تک یہ روایت تین اسناد سے پہنچی ہے، جن میں سے دو صحیح ہیں۔
نیز شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا؛
وَ قَالَ الصَّادِقُ ع كُلْ مِنَ السَّمَكِ مَا كَانَ لَهُ فُلُوسٌ وَ لَا تَأْكُلْ مِنْهُ مَا لَيْسَ لَهُ فَلْس (من لا یحضرہ الفقیہ: ج33 ص323)
یہاں شیخ صدوق نے بالجزم امام صادق(ع) سے یہ حدیث نقل کی کہ جس مچھلی کے جسم پر چھلکے نہ ہوں ان کا کھانا حرام ہے۔ امام خمینی سمیت اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک من لا یحضرہ الفقیہ کی وہ روایات معتبر ہیں جن میں بالجزم معصوم سے حدیث نقل کی جائے۔
اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث ہیں لیکن ہم نے چند معتبر روایات کو چنا ہے۔ ہمارے علماء میں یہ احادیث اتنی مشہور تھیں کہ علماء نے اس پر فتوے بھی دیئے، شیخ مفید اپنی مشہور کتاب المقنعہ میں فرماتے ہیں؛
و يؤكل من صيد البحر كل ما كان له فلوس من السموك و لا يؤكل منه ما لا فلس له و يجتنب الجري و الزمار و المارماهي من جملة السموك و لا يؤكل الطافي منه و هو الذي يموت في الماء فيطفوا عليه
بحری شکار میں ہر وہ مچھلی جائز ہے جس پر چھلکے ہوں۔ اور وہ مچھلیاں جائز نہیں جن پر چھلکے نہ ہوں۔ (المقنعہ: ص576)
مشہور فقیہ ابن ادریس حلّی فرماتے ہیں؛
و اما حيوان البحر، فلا يستباح أكل شيء منه الّا السّمك خاصة، و السمك يؤكل منه ما كان له فلس، و هو القشر، فاما ما لم يكن له قشر، و ان انطلق عليه اسم المسك فلا يحل اكله
سمندری جانداروں میں کچھ بھی کھانا جائز نہیں ہے سوائے خاص مچھلیوں کے، اور جو مچھلیاں کھائی جا سکتی ہیں ان کے جسم پر چھلکے ہوں، اور جس کے چھلکے نہ ہوں تو چاہے ان پر مچھلی نام کا اطلاق ہی کیوں نہ ہو، ان کا کھانا حلال نہیں۔ (السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی: ج3 ص98)
پس قرآن و سنّت و علمائے اعلام کے مشہور فتاوی کی روشنی میں وہی مچھلیاں حلال ہیں جن کے جلد پر چھلکے ہوں۔ اگر کسی وجہ سے ان کے جسم سے چھلکے اتر گئے ہوں یا چھلکے اتنے چھوٹے ہوں کہ معلوم نہ ہو سکیں تو کوئی حرج نہیں، چھلکے دار ہونے کا عنوان ہی کافی ہے۔
والسّلام علیکم من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کیا تمام سمندری جانور حلال ہیں؟

٭کیا تمام سمندری جانور حلال ہیں؟٭
سوال: میرے ایک دوست کا دعوی ہے کہ قرآن میں تمام سمندری جانوروں کو حلال کہا گیا ہے جبکہ اہل تشیّع فقط چھلکے والی مچھلیوں اور جھینگوں کو حلال کہتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: آپ کے دوست کا قرآن کی جس آیت کی طرف اشارہ ہے وہ یوں ہے؛
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
تمہارے لیے سمندری شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے، یہ تمہارے اور مسافروں کے فائدے میں ہے اور جب تک تم احرام میں ہو خشکی کا شکار تم پر حرام کر دیا گیا ہے اور جس اللہ کے سامنے جمع کیے جاؤ گے اس سے ڈرتے رہو (سورہ مائدہ: آیت 96)
اس آیت سے پہلے والی آیت یوں ہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْتُلُواْ الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاء مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَو عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللّهُ عَمَّا سَلَف وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللّهُ مِنْهُ وَاللّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ
اے ایمان والو! احرام کی حالت میں شکار نہ کرو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر (کوئی جانور) مار دے تو جو جانور اس نے مارا ہے اس کے برابر ایک جانور مویشیوں میں سے قربان کرے جس کا فیصلہ تم میںسے دو عادل افراد کریں، یہ قربانی کعبہ پہنچائی جائے یا مسکینوںکو کھانا کھلانے کا کفارہ دے یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کیے کا ذائقہ چکھے، جو ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور اگر کسی نے اس غلطی کا اعادہ کیا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ بڑا غالب آنے والا ، انتقام لینے والا ہے (سورہ مائدہ: آیت 95)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت فقط حج کے دوران احرام سے متعلق ہے، یعنی اگر حاجی نے حج کیلئے احرام باندھا ہو تو اس کیلئے چوپایوں اور پرندوں کا شکار حرام ہے لیکن سمندر کا شکار حلال ہے۔ اس سے قطعی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو کچھ سمندر کے اندر ہے وہ حلال ہے۔
اگر ہم اسی طرز استدلال کو لے لیں اور حکم کو مطلق احرام کے علاوہ لے آئیں تو پھر تمام زمینی جانوروں کا شکار اور ان کا کھانا ہمیشہ حرام ٹھہرتا۔ پس یہ آیتیں فقط حاجیوں کے لئے ہیں کہ ان کیلئے زمینی جانوروں کا شکار حرام ہے اور سمندری جانوروں کا شکار حلال ہے۔ اب زمینی و بحری جانوروں میں سے کونسے حلال ہیں اور کون سے حرام ہیں، اس کی تصریح اور تفصیل قرآن میں نہیں ہے بلکہ خاتم المرسلین(ع) اور ان کے برحق اوصیاء نے بیان فرمایا ہے۔
ہم تک جو احادیث پہنچی ہیں ان کی رو سے مچھلیوں میں صرف وہی جائز ہیں جن کے جسم پر چھلکے ہوں، اور وہ مچھلیاں جائز نہیں جن کے جسم پر چھلکے نہ ہوں۔ نیز جھینگے وغیرہ بھی حلال ہیں جن کو انگریزی میں پراؤن کہتے ہیں، بڑے جھینگے جن کو لوبسٹر کہتے ہیں جائز نہیں۔
غرض آپ کے دوست کا یہ کہنا درست نہیں کہ قرآن کے مطابق تمام بحری جانور حلال ہیں۔ اور ان لوگوں کا فتوی بھی خطا پر مبنی ہے جنہوں نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے تمام بحری جانوروں کو حلال کہا۔ یہ بات عقل سے بھی متصادم ہے کیونکہ کئی بحری جانور ایسے ہیں جن کو دیکھ کر انسانی طبیعت متنفّر ہو جاتی ہے۔
سوال نمبر 2) بغیر چھلکے والی مچھلیوں کے حرام ہونے کی علّت کیا ہے؟
جواب) شرع میں وہ جانور ممنوع ہیں جو مسخ شدہ ہیں، یعنی پچھلی قوموں میں سے بعض کو اللہ تعالی نے مسخ کر دیا تھا، جن جانوروں کی صورتوں میں یہ مسخ ہوئے ان کو کھانا حرام ہے۔ جیسے ہاتھی اور گینڈا، جن میں شاید حرام ہونے کی کوئی اور وجہ بھی نہیں بلکہ ان میں حلال گوشت ہونے کی نشانیاں بھی ہوں لیکن چونکہ مسخ شدہ ہیں اس لئے حرام ہیں۔
امام علی(ع) کی ایک حدیث کی رو سے جس طرح زمین پر مسخ شدہ جانور ہیں، اسی طرح سمندر میں بھی ہیں۔ تبھی ان کی نشانی یہ بتائی گئی کہ ان کے جسم پر چھلکے ہوں تو وہ حلال ہوں گی اور اگر چھلکے نہیں تو حرام ہوں گی۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ




اتوار، 5 اپریل، 2015

عقل اور معرفت خداوندی

٭عقل اور معرفت خداوندی٭
امام محمد باقر(ع): كلما ميزتموه بأوهامكم في أدق معانيه مخلوق مصنوع مثلكم مردود إليكم و لعل النمل الصغار تتوهم أن لله تعالى زبانيتين فإن ذلك كمالها و يتوهم أن عدمها نقصان لمن لا يتصف بهما و هذا حال العقلاء فيما يصفون الله تعالى به
امام محمد باقر(ع): ہر وہ چیز جو اپنے گمان اور ادراک کے مطابق اور دقیق ترین معانی کے مطابق (اللہ کی ذات کی توصیف) کرتے ہو وہ تمہارے (ذہن کی) پیداوار ہے اور تمہاری طرف اس کی بازگشت ہے۔ کیونکہ بہت دفعہ کوئی چیونٹی یہ گمان کرتی ہے کہ اللہ تعالی کے بھی دو سینگ ہوں گے اور وہ چیونٹی اس کو کمال سمجھتی ہے اور سوچتی ہے کہ جس کے باس یہ دونوں نہ ہوں اس کے لئے یہ نقص ہوگا۔ اسی طرح عقلاء اللہ تعالی کی صفات (اس چیونٹی کی طرح) بیان کرتے ہیں۔
(الوافی ج1 ص408، بحارالانوار: ج66 ص293)
درایۃ الحدیث:
مذکورہ روایت علامہ مجلسی نے بغیر کسی سند کے بحارالانوار اور مرآت العقول کی جلد9 ص456 پر نقل کی ہے۔ آپ کے شاگرد رشید ملاّ صالح مازندرانی اور ملاّ صدرا نے اصول کافی کی شروحات میں اس روایت کو نقل کیا۔ ان سے قبل ملا محسن فیض کاشانی نے وافی میں اس کو نقل کیا۔ اور ان سے بھی قبل میر داماد نے "روشح السماویہ فی شرح الاحادیث الامامیہ" اور شیخ بہائی نے اربعین میں نقل کیا۔
روایت مرسل ہے لیکن اس کا متن عظیم ہے اور بہترین انداز میں معرفت خداوندی کے بارے میں انسانی تاثرات کو سمجھایا گیا ہے۔
فوائد الحدیث:
یہ روایت بہترین نکات پر مشتمل ہے۔ شیخ بہائی اس کی شرح میں مولانا جلال الدین محمد دوانی کے الفاظ نقل کرتے ہیں: چونکہ بشر کی ذمہ داری اس کی توانائی کے مطابق ہوتی ہے، لہذا انسان اس سے زیادہ مکلّف نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کو جو تمام کامل و اکمل صفات کا حامل ہے، ان صفات سے متّصف کرے اور جو صفات نقص کا باعث ہیں ان سے اللہ کی ذات کو مبرّا سمجھے۔ اور جن چیزوں کو اس کا ذہن درک نہیں کر سکتا وہ ان کیلئے مکلّف نہیں ہے۔
مثلا انسان اپنے کمال کو قادر ہونے مختار ہونے، ہمیشہ حیّ (زندہ) ہونے، مرید و مدرک و صادق و بصیر و سمیع ہونے میں سمجھتا ہے، چنانچہ وہ ان صفات کے اثبات کیلئے مکلّف ہے اور اپنے نقص کو محتاج ہونے، جسم رکھنے، عرض و حادث ہونے میں دیکھتا ہے۔ پس وہ مکلّف ہے کہ ان صفات کو اللہ سے سلب کرے۔ اس سے زیادہ تکلیف مالا یطاق ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


قرآن مکمّل اور تحریف سے پاک

٭قرآن مکمّل اور تحریف سے پاک٭
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ
اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقینا ہمارے ذمے ہے۔ (القیامۃ: 17)
جس قرآن کو جمع کرنے اور پڑھوانے کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے اس میں کمی بیشی کیسے ممکن ہے؟ اور قرآن کو جمع بھی خداوند عالم نے کیا، کسی بشر نے نہیں۔
ہر وہ روایت ناقابل قبول ہے جو قرآن کی اس واضح و محکم آیت سے ٹکرائے۔
والسّلام
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تفحظ عقائد شیعہ


عبادت کی کثرت نہیں بلکہ اخلاص و اخلاق کی اہمیت

٭عبادت کی کثرت نہیں بلکہ اخلاص و اخلاق کی اہمیت٭
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع لَا تَنْظُرُوا إِلَى طُولِ رُكُوعِ الرَّجُلِ وَ سُجُودِهِ فَإِنَّ ذَلِكَ شَيْءٌ اعْتَادَهُ فَلَوْ تَرَكَهُ اسْتَوْحَشَ لِذَلِكَ وَ لَكِنِ انْظُرُوا إِلَى صِدْقِ حَدِيثِهِ وَ أَدَاءِ أَمَانَتِه
امام جعفر صادق(ع): "کسی شخص کے رکوع اور سجود کے طولانی ہونے کو مت دیکھو، کیونکہ وہ اس کی عادت پیدا کر چکا ہے اگر وہ اس کو ترک کرے گا تو وحشت زدہ ہو جائے۔ لیکن اس شخص کے گفتار کی صداقت اور امانتداری کو دیکھو (جو اصل میں ایمان کی علامت ہے۔"
(اصول کافی: ج2 ص105)
امام صادق(ع) نے یہاں پر ایمان کا معیار بتا دیا ہے۔ بیشک کفر اور اسلام میں ایک واضح فرق نماز کا ہے، نماز کے بغیر کوئی شخص ایمان کا اظہار نہیں کر سکتا۔ نیز اللہ تعالی کی صحیح معرفت کے بعد اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا دوسرا درجہ نماز کی پابندی ہے، جیسا کہ امام کاظم(ع) اپنی ایک وصیت میں ھشام سے فرماتے ہیں؛
يَا هِشَامُ أَفْضَلُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ الْعَبْدُ إِلَى اللَّهِ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ بِهِ الصَّلَاةُ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَ تَرْكُ الْحَسَدِ وَ الْعُجْبِ وَ الْفَخْر
"اے ھشام! بہترین چیز جس کی وجہ سے کوئی شخص اللہ کی معرفت کے بعد اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے، نماز ہے۔ نیز والدین کے ساتھ نیک سلوک اور حسد و تکبّر و تفاخر کا ترک کرنا ہے۔"
(تحف العقول: ص391)
نماز کی اتنی اہمیت کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض لوگ نماز کی عادت پیدا کر لیتے ہیں۔ یہ عادت بعض دفعہ والدین کی ترغیب، ماحول کے اثرات یا دینی علوم پڑھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ عادت خدا کی معرفت کا نتیجہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے نمازی تو ہوتے ہیں لیکن اپنے گفتار و کردار و اخلاق میں خالص اسلام کے پیروکار نہیں ہوتے۔
اسی لئے ہمیں بہت سے نمازی اور بظاہر شرع کے پابند لوگوں میں ایسے بھی ملیں گے جو حقوق الناس کی رعایت نہیں کرتے۔ غیبت و بہتان، حسد و نفاق، تکبّر و عیب جوئی کے رسیا نظر آتے ہیں۔ اپنے رویّوں میں اعتدال پیدا نہیں کر سکتے، نہ شرع کو سمجھنے کی توفیق، نہ روح اسلام کو درک کرنے کی صلاحیت۔ امام خمینی نے ایک جگہ دینی طلاّب کو بھی تنبیہ کی ہے جو فقط ظاہر کو لئے بیٹھے ہیں اور باطن پر توجّہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے اخلاقی برائیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ دینی و علمی اختلاف پر طوفان بدتمیزی، گالیوں اور توہین کا تبادلہ، ایک دوسرے کے خاندان اور والدین تک پہنچنا، اسی طرح دیگر عادات رذیلہ بظاہر دینی لوگوں میں نظر آتا ہے۔ ان چیزوں کے مظاہر آئے دن فیس بک پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اسی لئے امام صادق(ع) نے یہاں یہ واضح فرمایا کہ کسی کے رکوع و سجود کے طولانی ہونے سے متاثر نہیں ہونا چاھئے، کیونکہ اس کی عادت انسان پیدا کر لیتا ہے۔ جو چیز اہم ہے وہ گفتار کی صداقت اور دیگر حقوق الناس کی رعایت کرنے میں ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو روح اسلام کو سمجھنے کی توفیق عنایت کرے۔
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


جمعرات، 12 مارچ، 2015

مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟

٭مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟٭

أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ أَكْرَمَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ بِكَلِمَةٍ يُلْطِفُهُ بِهَا أَوْ قَضَى لَهُ حَاجَةً أَوْ فَرَّجَ عَنْهُ كُرْبَةً لَمْ تَزَلِ الرَّحْمَةُ ظِلًّا عَلَيْهِ مَمْدُوداً مَا كَانَ فِي ذَلِكَ مِنَ النَّظَرِ فِي حَاجَتِهِ ثُمَّ قَالَ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ لِمَ سُمِّيَ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً لِإِيمَانِهِ النَّاسَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَ أَمْوَالِهِمْ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ مَنِ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ [مِنْ] يَدِهِ وَ لِسَانِهِ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ بِالْمُهَاجِرِ مَنْ هَجَرَ السَّيِّئَاتِ وَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ مَنْ دَفَعَ مُؤْمِناً دَفْعَةً لِيُذِلَّهُ بِهَا أَوْ لَطَمَهُ لَطْمَةً أَوْ أَتَى إِلَيْهِ أَمْراً يَكْرَهُهُ لَعَنَتْهُ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُرْضِيَهُ مِنْ حَقِّهِ وَ يَتُوبَ وَ يَسْتَغْفِرَ فَإِيَّاكُمْ وَ الْعَجَلَةَ إِلَى أَحَدٍ فَلَعَلَّهُ مُؤْمِنٌ وَ أَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ وَ عَلَيْكُمْ بِالْأَنَاةِ وَ اللِّينِ وَ التَّسَرُّعِ مِنْ سِلَاحِ الشَّيَاطِينِ وَ مَا مِنْ شَيْءٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَنَاةٍ وَ اللِّين

امام جعفر صادق(ع) سے منقول ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "جو شخص اپنے مومن بھائی کی ایک کلمے سے بھی تکریم کرے، یا اس کی کوئی حاجت پوری کرے، یا اس سے کسی کرب کو دور کرے تو وہ شخص ہمیشہ رحمت خداوندی کے سایے میں ہوتا ہے اور جب تک وہ اس کی تکریم یا اس کے حاجات کی طرف متوجہ ہوتا ہے

پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟

کیونکہ لوگ اپنے نفس اور اموال کے حوالے سے اس پر یقین و اطمینان رکھتے ہیں۔

کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مسلمان کو مسلمان کیوں کہا جاتا ہے؟

کیونکہ لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے سالم رہتے ہیں (یعنی و لوگوں کی دلآزاری نہیں کرتا)۔

کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مہاجر کو مہاجر کیوں کہتے ہیں؟

کیونکہ وہ برائیوں اور گناہوں سے ہجرت کرتا ہے اور جو چیز اللہ نے اس پر حرام کی ہے دوری اختیار کرتا ہے۔

اور جو شخص کسی مومن کو رد کرے تاکہ اس کے ذریعے اس کو ذلیل و خوار کرے یا اس کو تھپڑ مارے یا اس پر کوئی مکروہ (و نقصاندہ) امر وارد کرے تو فرشتے اس شخص پر لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس مومن کو خوشنود اور خود توبہ و استغفار نہ کرے۔

اس کے بعد فرمایا: کسی بھی شخص کے متعلق ہوشیار رہو، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مومن ہو اور تمہیں پتہ نہ ہو۔

اور تم پر لازم ہے کہ نرمی اور آسانی کو اختیار کرو اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے فرار کرو، کیونکہ اللہ کے نزدیک نرمی اور آسانی سے زیادہ محبوب کوئی شئے نہیں ہے۔"

(علل الشرائع: ج2 ص523، باب نمبر 300)

رجال و درایۃ الحدیث:

اس حدیث کو شیخ صدوق نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔ ان کے والد ابن بابویہ قمّی، عبداللہ بن جعفر اور ہارون بن مسلم (رضی اللہ عنھم) ثقہ ہیں۔ جبکہ مسعدہ بن صدقہ کو شیخ طوسی نے سنّی کہا ہے اور شیخ کشی نے بتری۔ شیخ نجاشی نے ان کی کتب کا ذکر کیا ہے جن کو ہارون بن مسلم روایت کرتے ہیں۔ البتہ ان کی مذمّت بھی کہیں وارد نہیں ہوئی ہے۔ آقا وحید بہبہانی فرماتے ہیں کہ احادیث میں تتبّع سے معلوم ہوتا ہے کہ مسعدہ بن صدقہ کی روایات جمیل بن دراج و حریز بن عبداللہ جیسے ثقات کی طرح بہترین متن کی حامل ہیں۔

فوائد الحدیث:

آجکل ایک دوسرے کو مومن کہنے کا عام رواج چل پڑا ہے، یہ حدیث احتساب کی دعوت دیتی ہے کہ کیا ہم خود کو مومن کہلوا سکتے ہیں؟ معصوم کا یہ فرمانا کہ مومن کو مومن اس لئے کہا گیا کہ دوسرے لوگ اس سے امان میں رہیں یعنی وہ کسی کو گزند نہ پہنچائے، اور لوگوں کو اس سے اطمینان ہو۔ پس کیا محض نعرے لگانا ایمان کی دلیل ہے؟ یا اخلاق و کردار کا احسن ہونا؟

جس کا اخلاق احسن ہو وہ اکثر لوگوں کی طرف سے مورد آزار ٹھہرا رہتا ہے کیونکہ لوگ اس کے عمدہ اخلاق کو منفی سوچ کی وجہ سے منفی لے جاتے ہیں، تبھی مومن اکثر بلا اور آزمائشوں میں مبتلا رہتا ہے۔

اور اگر کوئی واقعی مومن ہے تو اس کا لوگوں پر حق بھی عظیم ہوگا، اس کو آزار پہنچانا اور تکلیف دینا ناقابل معافی جرم ٹھہرتا ہے جس کو وہی مومن ہی معاف کر سکتا ہے۔ نیز معصوم ہمیں متنبّہ کر گئے ہیں کہ لوگوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کسی پر بھی ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ کسی بھی برائی کے جواب میں حد سے آگے بڑھو کہ ظلم کرنے لگ جاؤ، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مومن ہو اور اللہ کے بندے کو نقصان پہنچا بیٹھیں یا دلآزاری کریں۔

بیشک اللہ آسانی اور نرمی کو پسند کرتا ہے۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


ہفتہ، 7 مارچ، 2015

نماز جماعت کی اہمیت

٭٭نماز جماعت کی اہمیت٭٭
آئیے ہم یہاں پر کچھ احادیث نماز جماعت کی اہمیت کے پیش نظر پیش کرتے ہیں؛
1) مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يُجِبْهُ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ فَلَا صَلَاةَ لَه
امام باقر(ع): "امیر المؤمنین ع نے فرمایا کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور پھر کسی عذر کے بغیر لبیک نہ کہے (یعنی جماعت میں حاضر نہ ہو) تو اس کی نماز نہیں ہے۔"
(الکافی: ج3 ص372، تہذیب الاحکام: ج3 ص24، وسائل الشیعہ: ج8 ص291)
مذکورہ حدیث کی دو اسناد ہیں، اور دونوں میں جلیل القدر ثقات موجود ہیں۔ پس درایت کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح اعلائی کے مرتبے پر ہے۔
2) مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الصَّلَاةُ فِي جَمَاعَةٍ تَفْضُلُ عَلَى كُلِّ صَلَاةِ الْفَرْدِ بِأَرْبَعٍ وَ عِشْرِينَ دَرَجَةً تَكُونُ خَمْساً وَ عِشْرِينَ صَلَاة
امام صادق(ع): "جماعت میں نماز تمام فرادی نمازوں سے چوبیس گنا افضل ہے، یعنی 25 نمازوں کے برابر درجہ ہے۔"
(تہذیب الاحکام: ج ص25، وسائل الشیعہ: ج8 ص285)
اس حدیث کے بھی تمام راوی ثقہ ہیں، پس یہ روایت بھی صحیح کے درجے پر ہے۔ نماز جماعت تب فرادی نماز سے چوبیس گنا افضل ہے جب ایک امام اور ایک ماموم ہوں، جتنے مقتدی/ ماموم بڑھیں گے اتنا ہی ثواب میں اضافہ ہوگا۔ بلکہ شہید ثانی(رض) شرح لمعہ میں فرماتے ہیں کہ مذکورہ ثواب اس صورت میں ہے جب امام غیر عالم ہوگا، اگر وہ (صحیح معنوں میں) عالم ہوگا تو نماز جماعت کا ثواب بڑھ جائے گا اور اس کا درجہ ہزار فرادی نمازوں کے برابر ہوگا۔ اور جیسے جیسے ماموم بڑھیں گے ثواب میں اضافہ ہوگا، اسی طرح دیگر عوامل کے سبب اس ثواب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مثلا اگر یہ جماعت بازار کی مسجد میں منعقد ہو تو ثواب میں اضافہ ہوگا، اگر محلّے کی مسجد میں ہو مزید اضافہ ہوگا، شہر کی جامع مسجد میں ہو تو اس میں اور اضافہ ہوگا۔ اسی طرح مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد کوفہ اور آئمہ(ع) کے روضوں کی مساجد میں یہ ثواب بیشتر ہوتا چلا جائے گا۔
3) قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيَهُمُّ بِعَذَابِ أَهْلِ الْأَرْضِ جَمِيعاً حَتَّى لَا يُرِيدَ أَنْ يُحَاشِيَ مِنْهُمْ أَحَداً إِذَا عَمِلُوا بِالْمَعَاصِي وَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ فَإِذَا نَظَرَ إِلَى الشِّيبِ نَاقِلِي أَقْدَامِهِمْ إِلَى الصَّلَوَاتِ وَ الْوِلْدَانِ يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ رَحِمَهُمْ وَ أَخَّرَ عَنْهُمْ ذَلِك
امام علی(ع): "اللہ تعالی جب ارادہ کرتا ہے کہ اہل زمین کو عذاب کرے اور کسی ایک آدمی کو بھی ان کی برائی اور گناہوں کی وجہ سے نہ چھوڑے، لیکن جب دیکھتا ہے کہ بوڑھے اپنے قدم نماز (جماعت) کی طرف اٹھا رہے ہیں اور چھوٹے بچے قرآن سیکھ رہے ہیں، تو اللہ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب کو مؤخر کر دیتا ہے۔"
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ص239، علل الشرائع: ج2 ص521)
4) عَنِ النَّبِيِّ ص مَنْ صَلَّى أَرْبَعِينَ يَوْماً فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى كُتِبَ لَهُ بَرَاءَتَانِ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَ بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاق
نبی کریم(ص): "جو شخص چالیس دن جماعت کو تکبیرۃ الاولی کے ساتھ پڑھے تو اس کے لئے دو چیزوں کی برائت (امان) لکھ دی جاتی ہے، ایک جہنّم سے برائت اور دوسرا منافقت سے برائت۔"
(بحارالانوار: ج85 ص4، مستدرک الوسائل: ج46ص448)
تکبیرۃ الاولی سے مراد نماز کی پہلی تکبیر ہے۔ احادیث میں جماعت کو پڑھنے کا ثواب موجود ہے لیکن اس جماعت کو بہترین کہا گیا ہے جس میں ماموم تکبیرۃ الاولی کو درک کرے یعنی امام جماعت کی پہلی تکبیر میں موجود ہو۔
تمام مؤمنین سے گزارش ہے کہ خاکسار کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


شیطان نیک لوگوں کو کیسے ورغلاتا ہے؟

٭شیطان نیک لوگوں کو کیسے ورغلاتا ہے؟٭
"اگر آپ متقی اور دل میں خوف خدا رکھنے والے ہیں تو کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کا نفس آپ کو زنا یا کسی کے قتل پر فورا آمادہ کرے یا جس کے اندر بھی شرافت اور طہارت نفس ہے اس کو چوری یا ڈکیتی پر آمادہ کر دے۔
اسی طرح ابتدائے امر میں یہ بھی ممکن نہیں کہ شیطان تم سے کہے اپنے عقیدہ و عمل میں خدا پر احسان چڑھاؤ یا اپنے آپ کو محبین و مقرّبین میں شمار کو، بلکہ وہ تو شروع میں پست طریقے سے تمہارے دل میں وسوسہ پیدا کرنا شروع کرے گا اور پہلے تم کو مستحبات و وظائف و اذکار کی پابندی پر سختی سے آمادہ کرے گا اور اسی ضمن میں کسی گنہگار کی حالت کو جو تمہارے مناسب حال ہو تمہارے سامنے پیش کرے گا اور تمہارے کان میں کہے گا کہ تم عقل و شرع دونوں اعتبار سے اس گنہگار سے بہتر ہو، اور تمہارے اعمال بحمدللہ تمہاری نجات کا سبب ہیں اور تم پاک و پاکیزہ ہو اور گناہوں سے پاک ہو۔
اس طرح تمہارے ذہن میں یہ بات بٹھا کر اس کو دو فائدے ہوں گے؛
1) خدا کے بندوں سے تمہیں بدبین کر دے گا
2) تمہارے اندر خودپسندی پیدا ہو جائے گی
یہ دونوں صفتیں نہ صرف ہلاک کرنے والی ہیں بلکہ فساد کی جڑ ہیں۔ لہذا تم اپنے نفس اور شیطان سے کہو کہ ہو سکتا ہے اس گنہگار میں کوئی ایسا ملکہ یا کوئی ایسے اعمال ہوں کہ خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو جائے اور اس ملکہ اور عمل کا نور اس کی ہدایت کا سبب بن جائے اور اس کا انجام بخیر ہو جائے۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ خدا نے اس کو گناہ میں اس لئے مبتلا کر دیا ہو کہ وہ خودپسندی سے، جو گناہ سے بھی بدتر ہے، بچ جائے۔ جیسا کہ کافی کی ایک حدیث میں امام صادق(ع) سے منقول ہے؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَلِمَ أَنَّ الذَّنْبَ خَيْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْعُجْبِ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ مَا ابْتُلِيَ مُؤْمِنٌ بِذَنْبٍ أَبَدا
امام صادق(ع): اللہ کو معلوم ہے کہ مومن کیلئے گناہ خود پسندی سے بہتر ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو مومن ہرگز گناہ میں مبتلا نہ ہوتا۔
اصول کافی: ج2 ص313 کتاب الایمان والکفر
ہمارے شیخ بزرگ و عارف کامل (آیت اللہ) شاہ آبادی (روحی فداہ) فرمایا کرتے تھے: اپنے دل میں کافر کو بھی سرزنش و ملامت نہ کرو، ہو سکتا ہے کہ نور فطرت اس کو ہدایت کر دے اور تمہاری یہ سرزنش و ملامت تمہارے کام کو بدانجام نہ بنا دے۔"
تحریر: حکیم الامّت سید روح اللہ الموسوی الخمینی (نور اللہ مرقدہ)
پیشکش: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


اوّل وقت نماز کی اہمیت

٭٭اوّل وقت نماز کی اہمیت٭٭
قَالَ النَّبِيُّ ص مَا مِنْ صَلَاةٍ يَحْضُرُ وَقْتُهَا إِلَّا نَادَى مَلَكٌ بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ أَيُّهَا النَّاسُ قُومُوا إِلَى نِيرَانِكُمُ الَّتِي أَوْقَدْتُمُوهَا عَلَى ظُهُورِكُمْ فَأَطْفِئُوهَا بِصَلَاتِكُم
رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں: "جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو ایک فرشتہ لوگوں کے درمیان آواز بلند کرتا ہے کہ اٹھ جاؤ اور اس آگ کو نماز کے ذریعے بجھاؤ جس کو تم نے اپنے پیچھے بھڑکایا ہے۔"
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ص 208، ح 624 ۔۔۔۔۔ علل الشرائع: ج1 ص247۔۔۔۔۔ امالی شیخ صدوق: ص496 ____ تہذیب الاحکام: ج2 ص238)
مذکورہ حدیث شیخ صدوق نے "من لا یحضرہ الفقیہ" میں بالجزم رسول اللہ(ص) سے نقل کی ہے لہذا امام خمینی (نوراللہ مرقدہ) و مرحوم فاضل لنکرانی (قدس سرّہ) سمیت متعدد اہل علم حضرات کے نزدیک معتبر قرار پائے گی۔
اس حدیث سے اوّل وقت نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مومن وہی ہے جو اس فرشتے کی آواز پر لبیک کہتا ہوا نماز کیلئے کھڑا ہو۔
نیز اس چیز سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے کیونکہ آگ گناہ کی طرف کنایہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے؛
وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ
نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں اور رات کے کچھ حصوں میں، نیکیاں بیشک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، نصیحت ماننے والوں کے لیے یہ ایک نصیحت ہے۔ (سورہ ھود: 114)
یہاں اس آیت میں " إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ" یعنی "نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں" واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز گناہوں کو دور کر دیتی ہے۔ بہت سی شیعہ سنّی روایات میں نقل ہوا ہے کہ یہاں حسنات سے مراد نماز ہے، اور سیاق و سباق سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
پس نماز برائیوں کو محو کر دیتی ہے۔ بعض روایات میں معصومین ع سے یہ بھی وارد ہوا ہے کہ جو شخص صدق نیّت سے اللہ کی رضا کیلئے وضو کرے تو اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پس نماز تو کجا فقط وضو بھی صدق نیت سے انجام دینے سے گناہ جھڑتے ہیں۔
البتہ مخفی نہ رہے کہ یہاں گناہ سے مراد صغیرہ ہیں، کبیرہ نہیں۔ بلکہ نماز انہی کے صغیرہ گناہوں کو معاف کرتی ہے جو گناہان کبیرہ سے اجتناب کریں، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے؛
إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلاً كَرِيمًا
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔ (سورہ نساء: 31)
لہذا نماز کی پابندی کریں اور خاکسار کو دعاؤں میں ضرور یاد کریں۔
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


جمعرات، 12 فروری، 2015

رسول اللہ(ص) پر ایک اعتراض کا جواب


٭رسول اللہ(ص) پر ایک اعتراض کا جواب٭

سوال) جب حضرت محمد(ص) انسانیت و آدمیت کے عظیم درجہ پر فائز تھے اور وہ بشریت کے ایک عظیم معلّم کی حیثیت رکھتے تھے، نیز سارے انسانوں کے لئے عملی نمونہ تھے تو پھر آپ نے کیوں بڑھاپے میں ایک 9 سالہ لڑکی سے شادی کی؟

جواب) ایک جوان عورت کے لئے بوڑھے آدمی سے شادی کرنے میں اگر کوئی عیب ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ بوڑھے کے ساتھ جنسی آمیزش لذّت بخش نہیں ہوگی، یا یہ کہ چونکہ دونوں کا سن برابر نہیں ہے لہذا عام طور پر بیوی کے بڑھاپے سے پہلے ہی شوہر مر جائے گا اور عورت جوانی میں ہی بیوہ ہو جائے گی۔ لیکن یہ بات بالکل ظاہر اور بہت زیادہ واضح ہے کہ شادی کے صرف یہی دو مقاصد نہیں ہیں، لہذا اس طرح کی شادی کے ممنوع ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ مذکورہ مقاصد سے کہیں اہم کچھ دوسرے مقاصد ہوں کہ جس کی وجہ سے شادی کی جائے۔

کئی سال پہلے جب "آئزن ھاور" امریکہ کا صدر تھا، امریکہ میں کثیر تعداد میں شائع ہونے والے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ وہاں کی باکرہ لڑکیوں سے سروے کیا گیا کہ تم کس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟ امریکہ کی اکثر غیر شادی شدہ لڑکیوں نے جواب دیا تھا کہ ہم "آئزن ھاور" سے شادی کے خواہاں ہیں، جبکہ وہ نہ تو جوان تھا اور نہ شکل و صورت کے لحاظ سے اچھا تھا۔

جس کو بھی رسول اللہ(ص) کی زندگی اور شادی کے بارے میں کچھ معلومات ہے وہ یہ جانتا ہے کہ آپ نہ تو شہوت پرست تھے اور نہ ہی آپ کو خوشگزرانی کی عادت تھی، آپ کے سارے امور تعقّل کی بنیاد پر تھے، احساسات کی بنیاد پر نہیں۔ آپ نے یہ شادی اس لئے کی تھی کہ لوگوں کو یہ تعلیم دیں کہ اس طرح کی شادی جائز ہے، نیز آپ کے مشن کو ترقی دینے میں اسے بڑی اہمیت حاصل تھی۔


آیت اللہ العظمی علامہ محمد حسین طباطبائی (رح)

پیشکش: ابو زین الہاشمی



جنات اور بدروح پر ایک تبصرہ

*جنات اور بدروح پر ایک تبصرہ*
جن کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی پر چڑھ جائے نہ ہمیں قرآن و حدیث میں ایسا ملتا ہے، نہ ہمیں کوئی واقعہ ملتا ہے کہ معصومین(ع) کے دور میں کسی پر جن چڑھا ہو۔۔۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔۔۔ نفسیاتی بیماریوں کو ہمارا معاشرہ جن چڑھنا کہتا ہے اور یہ اکثر خواتین پر طاری ہوتی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کی خواتین کو شدید پابندیوں اور ظلم و ستم برداشت کرنا پڑتا ہے جس سے وہ گوناگوں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں، اور ہمارا معاشرہ سمجھتا ہے کہ جنات کا اثر ہو گیا ہے۔ جنات کی اپنی دنیا ہے ان کے وجود سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہے وہ جہالت کے سوا کچھ نہیں
بیشک۔۔۔ عوام کا اپنا ہی ایک دین ہے، جنات کا وجود حق ہے اور ان جنات کی آمد و رفت ہمارے آئمہ(ع) کے پاس رہتی تھی، بلکہ بعض ثقہ حضرات کے مطابق مراجع تقلید کے ہاں بھی جناّت سوالات لے کر حاضر ہوتے ہیں لیکن ان خرافات میں کوئی صداقت نہیں کہ جناّت اس طرح سے انسانوں پر چڑھ جاتے ہیں، یہ جہالت ہے
کوئی بدروح یا جن کسی سے نہیں چمٹتا، یہ سب جہالت ہے کیونکہ یہ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں اور یہ ایک خاص بیماری ہے جن میں انسان عجیب و غریب آوازیں نکالتا ہے اور عجیب باتیں کرتا ہے، جس کو ہم جن چڑھنا کہتے ہیں۔ یہ باتیں سب لاشعور سے نکل رہی ہوتی ہیں، اور آپ خود بھی دیکھیں کہ یہ بیماریاں ہمارے برّصغیر میں عام ہیں اور اکثر خواتین پر ہی چڑھتی ہیں، جس کی وجہ معاشرے کی سختی ہے جو خواتین پر روا رکھی جاتی ہے۔ ہم نے کسی حدیث میں نہیں پڑھا کہ معصومین(ع) کے دور میں کسی پر جن چڑھا ہو یا انہوں نے جن نکالا ہو یا جن نکالنے کا کوئی ٹوٹکا بتایا ہو۔ جن نکالنے کے طریقے عملیات کی کتب میں وارد ہوئے ہیں تو بعض معززین ان کتب کو پڑھ کر ان نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بعض دفعہ تو اس شخص/ عورت کو مار مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عملیات ہے۔۔۔ یا اس کی ناک میں دھواں دیتے ہیں تاکہ جن نکل جائے، اس سے وقتی طور پر وہ صحیح ہو بھی سکتا ہے لیکن اصل میں مسئلہ بدستور موجود ہوتا ہے۔ یہ سب معاشرتی رسوم ہیں جن کا شریعت سے تعلق نہیں، گو کہ اعمال اور دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں۔۔۔ لیکن یہ سب جہالت ہے۔
ہندو مت اور دیگر ادیان میں تو بدروحوں کا تذکرہ ہو سکتا ہے، اسلام میں بدروح نام کی کوئی شئے نہیں ہے۔ تمام ارواح موت کے بعد عالم برزخ میں جاتی ہیں چاہے ان کی موت طبیعی طور ہوئی ہو یا کسی نے ان کو قتل کیا ہو یا وہ حادثے کا شکار ہوئی ہوں۔۔۔ ارواح کبھی بھٹک نہیں سکتیں بلکہ اللہ نے ان ارواح کے لئے برزخ خلق کی ہے جہاں وہ موت کے بعد سے قیامت تک رہیں گی۔ ان کے اعمال کے حساب سے ان کو برزخی جنّت یا جہنّم میں رکھا جائے گا۔۔۔۔ بدروح کا بھٹکنا اور یہ سب توہّمات ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے-
باقی جنات کا وجود حق ہے، اور اس کی رؤیت بھی خاص حالات میں ممکن ہے، لیکن ان کا رہن سہن کیا ہے اور کہاں رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ اس بارے میں مستند احوال تفصیلات کے ساتھ نہیں ہیں۔ ممکن ہے جنّات کو قابو کیا جا سکتا ہو گو کہ ہمیں ایسی کوئی حدیث یا روایت معتبر اسناد و طرق کے ساتھ نہیں ملتی ہیں۔ البتہ جس کو ہم جن چمٹنا کہتے ہیں یہ بالکل بھی ممکن نہیں اور عوام کے خرافات ہیں-
روایات میں ہے کہ بعض جنات اور بعض فرشتے امام حسین(ع) کی خدمت میں آئے اور نصرت کی خواہش کی لیکن امام(ع) نے ان کو اذن نہیں دیا، لیکن معتبر روایات میں ان کے ناموں کی تصریح نہیں کی گئی اور ایسی کوئی بات کہیں نہیں ملتی کہ ان میں سے کوئی جناّت کا بادشاہ تھا۔
زعفر جن کا وجود معتبر کتب میں نہیں ملتا۔

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر باقاعدہ آرٹیکل کی شکل میں نہیں لکھی گئی بلکہ کسی جگہ سوال و جواب و ڈسکشن میں خاکسار کے کمنٹس کو جمع کر کے پوسٹ کی شکل دے دی گئی ہے، اس لئے ممکن ہے کہ جملوں میں ربط نہ ملے۔
احقر العباد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ




رسول اللہ(ص) سے افضل کوئی نہیں

٭رسول اللہ(ص) سے افضل کوئی نہیں: شیعہ ہونے کا دعوی تبھی قبول ہے جب تک رسول(ص) کی سیرت و سنّت پر عمل نہ کیا جائے٭
امام باقر(ع): يَا جَابِرُ لَا تَذْهَبَنَّ بِكَ الْمَذَاهِبُ حَسْبُ الرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ أُحِبُّ عَلِيّاً صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ أَتَوَلَّاهُ فَلَوْ قَالَ إِنِّي أُحِبُّ رَسُولَ اللَّهِ ص وَ رَسُولُ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ عَلِيٍّ ثُمَّ لَا يَتَّبِعُ سِيرَتَهُ وَ لَا يَعْمَلُ بِسُنَّتِهِ مَا نَفَعَهُ حُبُّهُ إِيَّاهُ شَيْئاً فَاتَّقُوا اللَّهَ وَ اعْمَلُوا لِمَا عِنْدَ اللَّهِ لَيْسَ بَيْنَ اللَّهِ وَ بَيْنَ أَحَدٍ قَرَابَةٌ أَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللَّهِ وَ أَكْرَمُهُمْ عَلَيْهِ أَتْقَاهُمْ لَهُ وَ أَعْمَلُهُمْ بِطَاعَتِه
امام باقر(ع): اے جابر! مختلف آراء و افکار کی وجہ سے راہ حق سے دور نہ ہونا، کسی شخص کا یہ کہنا کیا کافی ہو سکتا ہے کہ میں علی(ع) سے محبت و تولاّ رکھتا ہوں؟
بلکہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں رسول اللہ(ص) سے محبت رکھتا ہوں، جبکہ رسول اللہ(ص) مولا علی(ع) سے بلاشبہ افضل ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی سیرت کی اتباع نہ کرے اور ان کی سنّت پر عمل نہ کرے تو اس محبّت کا اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لہذا تم اللہ سے ڈرو اور اللہ کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال انجام دو کیونکہ اللہ سے کسی کی بھی رشتہ داری نہیں ہے۔
بندوں میں اللہ کے نزدیک وہی سب سے زیادہ محبوب ہے جو پرہیزگار ہو اور ان (بندوں) میں اطاعت خداوندی میں زیادہ عمل کرنے والا ہو۔
(صفات الشیعہ از شیخ صدوق: ص 12، امالی شیخ طوسی: ص736)
اسناد و اعتبار حدیث: یہ ایک حدیث کا حصّہ ہے جس کو شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے نقل کیا ہے جبکہ شیخ کلینی نے اس حدیث کا کچھ حصّہ نقل کیا ہے۔
شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے اس کو دو دو طرق سے نقل کیا ہے اور شیخ کلینی نے ایک طریق سے۔ شیخ طوسی کا ایک طریق صحیح ہے اور تمام روات ثقہ ہیں۔ لہذا کثرت طرق کی وجہ سے اور مشایخ ثلاثہ کے اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ سے ہم پر اس روایت کے صدور کی نسبت معصوم(ع) سے دے سکتے ہیں۔
فوائد الحدیث: یہ حدیث متن اور وثوق اسنادی و صدوری کے حساب سے بہترین حدیث ہے۔ ایک یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ(ص) تمام امّتوں اور مخلوقات سے افضل ہیں۔ اس سے غالیوں کے "عقیدہ مساوات" کی نفی ہوتی ہے جس کے تحت وہ رسول اللہ(ص) اور مولا علی(ع) کو فضیلت میں برابر کہتے ہیں۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ صرف شیعہ ہونے کا زبانی دعوی کافی نہیں ہے، جب تک رسول اللہ(ص) کی سیرت و سنّت پر عمل نہ کیا جائے تب تک شیعہ ہونا نجات کا ضامن نہیں ہے۔ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہی ہے جو متقی ہو اور اللہ کی اطاعت کرتا ہو۔
ان ایام میں جبکہ رسول اللہ(ص) کی ذات کو توہین کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور مسلمان دنیا بھر میں سراپا احتجاج ہیں، لیکن ان کا احتجاج کا طریقہ بالکل بھی درست نہیں۔ اپنے ہی املاک کو نقصان پہنچانا، اپنی ہی جانوں کا ضیاع، اپنا ہی نقصان پہنچانا، بیگناہوں پر حملے کرنا جن کا اس معاملے میں قصور نہیں۔ ان افعال سے ہم اسلام کا ہی چہرہ داغ دار کر رہے ہیں، لہذا آئیں اس موقع پر عہد کرتے ہیں کہ توحید پر راسخ عقیدہ رکھیں گے، رسول اللہ(ص) اور ان کی اہل بیت(ع) سے حقیقی محبّت کریں گے اور رسول اکرم(ص) کی سنّت طیّبہ پر عمل کریں گے، اور یہی حقیقی احتجاج ہے۔
وما علینا الا البلاغ
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ