ہفتہ، 27 ستمبر، 2014

فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی حیات طیبہ پر ایک نظر

فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی حیات طیبہ پر ایک نظر
علماء و مورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ ۱۱/ ذی قعدہ ۱۵۳ ھ یوم پنجشنبہ مدینہ منورہ متولد ہوئے آپ کی ولادت کے متعلق علامہ مجلسی اور علامہ محمدپارسا تحریرفرماتے ہیں کہ جناب نجمہ خاتون کا کہناہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے مجھے حمل کی گرانباری مطلقا محسوس نہیں ہوئی، میں اکثرخواب میں تسبیح وتہلیل اورتمہید کی آوازیں سنا کرتی تھی جب امام رضا علیہ السلام پیداہوئے توآپ نے زمین پرتشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پرٹیکے اور اپنا فرق مبارک آسمان کی طرف بلندکردیا آپ کے لبہائے مبارک جنبش کرنے لگے ،ایسامعلوم ہوتاتھا کہ جیسے آپ خداسے کچھ باتیں کررہے ہیں ، اسی اثناء میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت و کرامت مبارک ہو، پھر میں نے مولود کوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعد ارشاد فرمایاکہ ” اسے لے لو یہ زمین پرخداکی نشانی ہے اورمیرے بعد حجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے ابن بابویہ فرماتے ہیں کہ آپ دیگرائمہ علیہم السلام کی طرح مختون اورناف بریدہ متولدہوئے تھے۔
آپ کے والدماجد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اور تعیین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موافق آپ کو”اسم علی“ سے موسوم فرمایا،آپ آل محمد، کے تیسرے ”علی“ ہیں۔آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اور آپ کے القاب صابر، زکی، ولی،رضی اور وصی تھے اور مشہورترین لقب رضا تھا۔
علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کو رضا اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوعالم ، رسول اکرم اورائمہ طاہرین، نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے۔ علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آپ کے والد ماجد کو لقب رضا سے مامون رشیدنے ملقب کیاتھا تو آپ نے فرمایا ہرگزنہیں یہ لقب خدا و رسول کی خوشنودی کاجلوہ بردارہے اور خاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق و مخالف دونوں راضی اورخوشنودتھے۔
آپ کی نشوونما اورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اور اسی مقدس ماحول میں بچپن اور جوانی کی منزلیں طے ہوئیں اور تیس برس کی عمر پوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم علیہ السلام عراق میں قید ظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵/ برس آپ کو برابر اپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔
آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈور اس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اور ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمر کے آخری حصہ میں اور دنیاکو چھوڑنے کے موقع پر دوستان اہلبیت کی آپ سے ملاقات یا بعد کے لیے راہنما کا دریافت کرناغیرممکن ہوجائے گااس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کو اپنے بعد ہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولاد علی و فاطمہ میں سے سترہ آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے انہیں جمع فرماکر اپنے فرزند حضرت علی رضاعلیہ السلام کی وصایت اور جانشینی کااعلان فرمادیا اورایک وصیت نامہ بھی تحریر فرمایا جس پرمدینہ کے معززین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواہی لکھی گئی یہ اہتمام دوسرے ائمہ کے یہاں نظرنہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پر جن سے دوسرے ائمہ اپنی شہادت کے موقع پر دو چار نہیں ہونے والے تھے۔
۱۸۳ ھ میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ہارون رشید میں اپنی عمرکا ایک بہت بڑاحصہ گذار کردرجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر متمکن تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ہی ناسازگارتھے۔
حضرت امام علی رضاعلیہ السلام کے اخلاق وعادات اور شمائل وخصائل کا لکھنا اس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں ”مشتی نمونہ ازخرداری“یہ ہیں بحوالہ علامہ شبلنجی ابراہیم بن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگوکرنے میں سختی نہیں کی،اورکبھی کسی بات کوقطع نہیں فرمایا آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والااپنی بات ختم کرلیتاتھا تب اپنی طرف سے آغازکلام فرماتے تھے کسی کی حاجت روائی اورکام نکالنے میں حتی المقدور دریغ نہ فرماتے ،کبھی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے اورنہ اہل محفل کے روبروتکیہ لگاکربیٹھتے تھے کبھی اپنے غلاموں کوگالی نہ دی اور چیزوں کا کیا ذکر،میں نے کبھی آپ کے تھوکتے اورناک صاف کرتے نہیں دیکھا،آپ قہقہہ لگاکرہرگز نہیں ہنستے تھے خندہ زنی کے موقع پرآپ تبسم فرمایاکرتے تھے محاسن اخلاق اورتواضع وانکساری کی یہ حالت تھی کہ دسترخوان پرسائیس اوردربان تک کواپنے ساتھ بٹھالیتے ،راتوں کوبہت کم سوتے اوراکثرراتوں کوشام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے اکثراوقات روزے سے ہوتے تھے مگرہرمہینے کے تین روزےتوآپ سے کبھی قضانہیں ہوئے ارشادفرماتے تھے کہ ہرماہ میں کم ازکم تین روزے رکھ لیناایساہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے ۔
آپ کثرت سے خیرات کیاکرتے تھے اوراکثررات کے تاریک پردہ میں اس استحباب کوادافرمایاکرتے تھے موسم گرمامیں آپ کافرش جس پرآپ بیٹھ کرفتوی دیتے یامسائل بیان کیاکرتے بوریاہوتاتھااورسرمامیں کمبل آپ کایہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہدحکومت تھے آپ کالباس گھرمیں موٹااورخشن ہوتاتھا اوررفع طعن کے لیے باہرآپ اچھالباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندرکاپیراہن دکھلاکرفرمایااچھالباس دنیاوالوں کے لیے اورکمبل کاپیراہن خداکے لیے ہے۔
مورخین کابیان ہے کہ آل محمد کے اس سلسلہ میں ہرفرد حضرت احدیت کی طرف سے بلندترین علم کے درجے پرقراردیا گیاتھاجسے دوست اوردشمن کومانناپڑتاتھا یہ اوربات ہے کہ کسیکوعلمی فیوض پھیلانے کازمانے نے کم موقع دیا اورکسی کوزیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعداگرکسی کوسب سے زیادہ موقع حاصل ہواہے تو وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام ہیں ،جب آپ امامت کے منصب پرنہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمدہیں، اپنے دین مسائل کوان سے دریافت کرلیاکرو، اورجوکچھ اسے کہیں یادرکھو،اورپھرحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آب کی طرف رجوع کرتے تھے۔
منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ



آل محمد(ص) کا مرتبہ مولا علی(ع) کی زبانی

<آل محمد(ص) کا مرتبہ مولا علی(ع) کی زبانی>
امام علی(ع): هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَاءُ اءَمّرِهِ وَ عَيْبَهُ عِلْمِهِ وَ مَوئِلُ حُكْمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ، وَ جِبالُ دِينِه ، بِهِمْ اءَقامَ انْحِناءَ ظَهْرِهِ وَ اءَذْهَبَ ارْتِعادَ فَرائِصِهِ
زَرَعُوا الْفُجُورَ، وَ سَقَوْهُ الْغُرُورَ، وَ حَصَدُوا الثُّبُورَ، لا يُقاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مَنْ هذِهِ الامَّهِ اءَحَدٌ وَ لا يُسوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْهِ اءَبَدا، هُمْ اءَساسُالدِّينِ، وَ عِمادُ الْيَقينِ، إ لَيْهِمْ يَفِى ءُ الْغالِى ، وَ بِهِمْ يِلْحَقُ التّالِى وَ لَهُمْ خَصائِصُ حَقِّ الْوِلايَهِ، وَ فِيهِمْ الْوَصِيَّهُ وَ الْوِراثَهُ، الآنَ اذْ رَجَعَ الْحَقُّ الى اءهلِهِ وَ نُقِلَ الى مُنتَقَلِهِ
مولا علی(ع): یہ لوگ ( یعنی آل محمد) سرّ خداوندی ہیں اور دینی امور کا ملجا ہیں۔ یہی اللہ کے علم کا مرکز ہیں اور اللہ کے حکم کی پناہ گاہ ہیں۔ کتابوں نے انہی کے پاس پناہ لی ہے اور دین کے کوہ گراں یہی ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ نے دین کی پشت کی کجی سیدھی کی ہے اور انہیں کے ذریعے اس (دین) کے جوڑ بند کے رعشہ کا علاج کیا ہے۔
یاد رکھو کہ اس امّت میں کسی کو بھی آل محمد(ص) پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی لوگوں کو ان (اہل بیت) کے برابر قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ان پر ہمیشہ اللہ کی نعمتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
آل محمد(ص) دین کی اساس اور یقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر انہیں کی طرف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے۔ ان کے پاس ولایت کے حق کی خصوصیات ہیں اور انہی کے درمیان نبی پاک(ص) کی وصیّت اور ان کی وراثت ہے"۔
نہج البلاغہ: خطبہ 2
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


جمعہ، 26 ستمبر، 2014

بچّوں کا احترام اور ان کی تکریم

٭بچّوں کا احترام اور ان کی تکریم٭

اسلام کی خوبصورت تعلیمات میں سے ایک بچّوں کی تکریم اور احترام کا حکم ہے، تاکہ ایسے لوگ مستقبل کے لئے پروان چڑھیں جن کی عزّت نفس موجود ہو، اور سالم و صالح بدن اور روح کے ساتھ معاشرے کی تشکیل نو کریں۔ اسی لئے رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے؛

اکرمو اولادکم واحسنو آدابکم

یعنی اپنی اولاد کی تکریم کرو اور بہترین آداب کے ساتھ ان کے ساتھ معاشرت کرو

اگر بچوں کی تکریم اور احترام کیا جائے تو وہ صاحب فضل اور شرافت ہوں گے، اور وہ دوسروں کی تکریم کرنا جانیں گے، لیکن اگر ان کی تحقیر یا اہانت کی جائے تو ان کے فضل کی نشوونما متوقّف ہو جائے گی۔ حضرت ختمی مرتب(ص) فرماتے ہیں؛

اذا سمّیتم الولد فاکرموہ واوسعوا لہ فی المجالس ولا تقبّحو لہ وجھا

"جب اپنی اولاد کا نام لو تو اس کی تکریم کرو، اور ان کے لئے بیٹھنے کی جگہ قرار دو (اس کا احترام کرو) اور اس کے ساتھ بدخلقی سے پیش نہ آؤ۔"

رسول اللہ(ص) کی زندگی میں بھی ہمیں ملتا ہے کہ آپ بچوں کی تکریم کا خاص خیال رکھتے تھے، جب آپ کی خدمت میں کوئی بچہ ولادت کے بعد نام رکھوانے کے لئے پیش کیا جاتا تو آپ فورا اس کو گود میں لے لیتے، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بچّہ نے آپ کی گود میں ہی کپڑے خراب کر دیئے، آس پاس کے لوگ غصّے سے بچے پر چیختے لیکن رسول اللہ(ص) ان کو منع کرتے۔

ایک حدیث ہمیں یوں ملتی ہے؛

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ص بِالنَّاسِ الظُّهْرَ فَخَفَّفَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ لَهُ النَّاسُ هَلْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ حَدَثٌ قَالَ وَ مَا ذَاكَ قَالُوا خَفَّفْتَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ فَقَالَ لَهُمْ أَمَا سَمِعْتُمْ صُرَاخَ الصَّبِي

عبداللہ ابن سنان امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں، آپ(ع) نے فرمایا: "رسول اللہ(ص) ایک دفعہ نماز ظہر لوگوں کے ساتھ (جماعت میں) پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ناگہان آخری دو رکعتوں کو مختصر پڑھا (مستحبات کو چھوڑ کر)۔ جب آپ فارغ ہوئے تو لوگوں نے نے پوچھا کہ آیا نماز میں کچھ ہو گیا؟ تو آپ(ص) نے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے آخری رکعتوں کو بہت مختصر پڑھا۔ تو آپ(ص) فرماتے ہیں: مگر تم لوگوں نے بچّے کی رونے کی آواز نہیں سنی؟

(کافی: ج6 ص48)

مذکورہ حدیث کی سند صحیح ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول(ص) بچوں کی تکالیف اور ان کی ضروریات کا کتنا خیال رکھتے تھے۔

نقل کیا گیا ہے کہ رسول(ص) عملی طور پر بھی بچوں کی تکریم کرتے تھے۔ جب کہیں روانہ ہوتے تو راستے میں لوگوں کے بچّے آپ کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ آپ ان بچوں کو اٹھاتے، کسی کو گود میں لیتے اور کسی کو اپنی پشت پر چڑھاتے اور اپنے اصحاب سے فرماتے کہ بچّوں کو گود میں لیا کرو اور اپنی دوش پر چڑھایا کرو۔۔۔ بچّے اس بات سے بہت خوش ہوتے اور ان یادوں کو کبھی فراموش نہ کرتے، جب بڑے ہونے کے بعد کبھی جمع ہوتے تو ایک دوسرے کو یہ بات سنا کر فخر کرتے۔ (المحجۃ البیضاء: ج3 ص367)

آپ(ص) کی عادت تھی کہ جب بھی کسی بچّے سے ملتے اس کو سب سے پہلے خود سلام کرتے تاکہ اس کی تکریم ہو اور تاکید کرتے کہ ان کی اس سنّت پر عمل کیا جائے۔ چنانچہ مروی ہے؛

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ

رسول اللہ(ص) کچھ بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ (مکارم الاخلاق: ص16)

شیخ صدوق کی امالی میں ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کو میں مرتے دم تک ترک نہیں کروں گا تاکہ میرے بعد یہ میری سنّت بن جائیں (جن پر لوگ عمل کریں)۔ آپ(ص) کے فرمان کے مطابق ان میں سے ایک چھوٹوں پر سلام ہے۔ (امالی صدوق ص44، بحارالانوار: ج16ص215)

جبکہ ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ بڑے اپنے بچّوں کو سلام نہ کرنے پر ٹوکتے ہیں۔ اگر ان کی عادت سلام میں پہل کرنا نہیں ہے تو کسی بڑے کے سلام کرنے سے خود شرمندہ ہو جائیں گے اور اپنی سلام نہ کرنے کی عادت کو ترک کر دیں گے۔ بعض منچلے تو ایسے ہیں کہ کسی چھوٹے کے سلام نہ کرنے پر اس کو "وعلیکم السلام" کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا ہم اپنے رسول(ص) کی ان سنّتوں پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچّوں اور دوسرے بچوں کی اس طرح تکریم کرتے ہیں؟ کیا ہم ان کو گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہیں؟

جب بچوں کے ساتھ تکریم کرنے پر اتنی اہمیت ہے تو ہم میں جو عمر، علم اور کردار کے لحاظ سے بڑے ہیں ان کی تکریم کی اہمیت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔

ان سنّتوں پر عمل کیجئے تاکہ ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بہترین معاشرہ ہو۔

وما علینا الا البلاغ

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ



معصومین(ع) کی ولادت ہوتی ہے یا ان کا ظہور ہوتا ہے۔؟

آجکل بعض شرپسند ایک ایسی بات کو متنازعہ بنا رہے ہیں جو ہمارے ہاں آج تک اختلافی نہیں رہی۔ ہمارے علمائے کرام اور خود عوام بھی معصومین(ع) کی ولادت کا جشن منایا کرتے تھے اور سبھی فخر سے مولا علی(ع) کو مولود کعبہ کہتے تھے لیکن کچھ عرصے سے شیخیت کی کویتی تبلیغ کی وجہ سے عوام کو اس مسئلے میں الجھایا گیا ہے کہ معصومین(ع) کی ولادت ہوتی ہے یا ان کا ظہور ہوتا ہے۔

سب سے پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان شرپسندوں کا ظہور یا نزول سے کیا مطلب ہے۔ یہ شرپسند حضرات کہتے ہیں کہ معصومین(ع) کی ولادت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی وہ اپنے اجداد کے اصلاب میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی امّہات (ماؤں) کے شکموں میں ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی ولادت ہوتی ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ معصومین(ع) آسمان سے ڈائریکٹ نازل ہوتے ہیں اور شکموں اور ارحام میں نہیں ہوتے۔ ان کے باطل عقیدے کی دلیل میں کوئی صریح حدیث نہیں ہے، البتہ قرآن کی ایک آیت میں جہاں نور کے نزول کی بات کی گئی ہے وہاں وہ نور سے مراد آئمہ(ع) لیتے ہیں جبکہ قرآن کے حکم کے مطابق یہاں نور سے مراد قرآن پاک ہے جو رسول اللہ(ص) کے ساتھ ہدایت کے لئے نازل کیا گیا۔ اور اگر آئمہ(ع) مراد بھی ہیں تو اس حساب سے کہ وہ قرآن کی جیتی جاگتی تفسیر ہیں۔

چلیں ہم یہ مسئلہ معصومین(ع) کی عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ کیا نزول/ ظہور کا عقیدہ صحیح ہے یا نہیں؟ ان کے لئے ولادت کا لفظ بہتر ہے یا نزول/ ظہور کا لفظ بہتر ہے؟ ہم اپنے ہر مسئلے میں معصومین(ع) کی طرف رجوع کرتے ہیں خاص طور پر جب مسئلے میں اختلاف ہو، بالکل ویسے ہی جیسا کہ معصومین(ع) کے دور میں ہم کرتے تھے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جب لوگوں میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ معصومین(ع) خالق یا رازق ہیں یا نہیں تو امام حسن عسکری(ع) سے پوچھا گیا اور ایک واقعے میں امام زمانہ(عج) سے پوچھا گیا تو معصومین(ع) نے ان لوگوں کی حمایت کی جو کہتے تھے کہ خالق و رازق صرف اللہ کی ذات ہے، اور کی پرزور مذمت کی جو آئمہ(ع) کو خالق و رازق سمجھتے تھے۔

اسی طرح ہم بھی یہ مسئلہ معصومین(ع) کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ شیخ کلینی نے "اصول کافی" کی دوسری جلد میں باقاعدہ ایک باب بنایا ہے جس کا نام ہے: "بَابُ مَوَالِيدِ الْأَئِمَّةِ" یعنی "کیفیت ولادت آئمہ(ع)"۔ گویا ہمیشہ سے شیعوں میں جو لفظ مستعمل رہا ہے وہ ولادت کا ہی رہا ہے، یہ بعد میں آنے والے اتنے عقلمند ہو گئے جو معرفت کی ایسی باتیں درک کر لیتے ہیں جن کو ان سے قبل کسی نے درک نہیں کیا ہوتا۔

اس باب کی پہلی حدیث ہے جو کافی لمبی چوڑی ہے جس میں ابوبصیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال امام صادق(ع) کے ساتھ حج کیا تو راستے میں ابواء کے مقام پر امام موسی کاظم(ع) کی ولادت ہوئی۔ اس میں خود ابو بصیر بھی بار بار ولادت کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور امام(ع) بھی۔ جب امام صادق(ع) واپس آئے تو اصحاب نے مبارکبادی دی تو امام(ع) نے بتایا کہ جب یہ مولود پیدا ہوا تو اس نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور آسمان کی طرف رخ کیا، پھر امام(ع) نے بتایا کہ یہ رسول اللہ(ص) اور ان کے تمام جانشینوں کی علامت ہوتی ہے۔ امام(ع) پھر بتاتے ہیں کہ کیسے آئمہ(ع) کا نطفہ قرار پاتا ہے لیکن ہم اس پوری حدیث کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ یہ کافی طولانی حدیث ہے، امام(ع) پھر فرماتے ہیں:

وَ إِذَا سَكَنَتِ النُّطْفَةُ فِى الرَّحِمِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَ أُنْشِئَ فِيهَا الرُّوحُ بَعَثَ اللَّهُ تـَبـَارَكَ وَ تـَعـَالَى مَلَكاً يُقَالُ لَهُ حَيَوَانُ فَكَتَبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَ إِذَا وَقَعَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ وَقَعَ وَاضِعاً يَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ رَافِعاً رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ

اور جب امام کا نطفہ رحم مادر میں قرار پائے چار مہینے گزر جاتے ہیں تو اس میں روح پیدا کی جاتی ہے اور اللہ تبارک و تعالی ایک فرشتے کو مقرر کرتا ہوں جس کا نام حیوان ہے، جو (امام) کے دائیں بازو پر لکھتا ہے "وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" اور جب وہ اپنے ماں کے بطن سے باہر آتا ہے تو اپنا ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور اپنا سر آسمان کی طرف کرتا ہے۔

اصول كافى جلد 2 صفحه 225 روايت 1

قارئین کرام ملاحظہ کیجئے کہ اس سے بڑھ کر ولادت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ معصوم معصوم کی گردان کرنے والے، اور معصومین(ع) کی تقلید کا نعرہ بلند کرنے والے کہاں جائیں گے؟ کس ڈھٹائی سے یہ بدبخت معصومین(ع) کے اقول جھٹلاتے ہیں۔

اب ہم اگلی حدیث پڑھتے ہیں:

مـُحـَمَّدُ بـْنُ يـَحـْيـَى عـَنْ مـُحـَمَّدِ بـْنِ الْحـُسـَيْنِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقـَاسـِمِ عـَنِ الْحـَسـَنِ بـْنِ رَاشـِدٍ قـَالَ سـَمـِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تـَعـَالَى إِذَا أَحـَبَّ أَنْ يـَخـْلُقَ الْإِمـَامَ أَمَرَ مَلَكاً فَأَخَذَ شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيَسْقِيهَا أَبـَاهُ فـَمـِنْ ذَلِكَ يـَخـْلُقُ الْإِمـَامَ فـَيـَمـْكـُثُ أَرْبـَعـِيـنَ يَوْماً وَ لَيْلَةً فِى بَطْنِ أُمِّهِ لَا يَسْمَعُ الصَّوْتَ ثُمَّ يَسْمَعُ بَعْدَ ذَلِكَ الْكَلَامَ فَإِذَا وُلِدَ بَعَثَ ذَلِكَ الْمَلَكَ فَيَكْتُبُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَإِذَا مَضَى الْإِمَامُ الَّذِى كـَانَ قـَبـْلَهُ رُفـِعَ لِهـَذَا مـَنـَارٌ مِنْ نُورٍ يَنْظُرُ بِهِ إِلَى أَعْمَالِ الْخَلَائِقِ فَبِهَذَا يَحْتَجُّ اللَّهُ عَلَى خَلْقِه

حسن بن راشد کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) کو کہتے سنا "اللہ تبارک و تعالی جب امام کو خلق کرنا چاہتا ہے تو ایک فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ ایک شربت عرش کے نیچے سے لے کر امام کے والد کو پلائے۔ پس امام کی (جسمانی) خلقت اس شربت سے ہے۔ پھر چالیس شب و روز (امام) اپنی ماں کے شکم میں ہے اور اس دوران وہ کچھ سن نہیں سکتا، اور پھر ان کے کان سننے کے لئے کھل جاتے ہیں۔ اور جب ولادت ہوتی ہے تو اسی فرشتے کو مقرّر کرتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے بیچ میں لکھے وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔ اور پھر امام کو نور کا ایک مینار عطا کیا جاتا ہے جس سے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے اور جس کے ذریعے اللہ اپنے بندوں پر حجت تمام کرتا ہے۔

اصول كافى جلد 2 صفحه 228 روايت 2

پھر ہم تیسری اور چوتھی حدیث چھوڑ دیتے ہیں جن کے وہی مطالب ہیں، پھر ہم پانچویں حدیث کی طرف آتے ہیں جس میں درج ہے کہ جب آئمہ(ع) کی والدہ حاملہ ہوتی ہیں تو بیہوشی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں ان کو خوشخبری دی جاتی ہے اور پھر نو ماہ گزرنے کے بعد امام کے گھر پر ایک عجیب سا نور ہوتا ہے جس کو ان کے والد اور والدہ کے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا اور پھر ان کی ولادت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں ہم نے بہت سے الفاظ نقل نہیں کئے کیونکہ کافی کھل کر ان کی ولادت کی تفصیلات بتائی گئی ہیں، جس کا ذکر بعض الناس کو ناگوار گزرے گا درحالیکہ یہ الفاظ خود امام(ع) کے ہیں۔

لیکن قارئین خود مشاہدہ کریں کہ ان تمام روایتوں میں ولادت کا ہی لفظ جگہ جگہ استعمال ہوا ہے، اور کہیں پر بھی نزول یا ظہور کا لفظ موجود نہیں ہے۔ بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) کی ظاہری جسمانی خلقت ماں کے بطن میں ہی ہوتی ہے اور امام(ع) بھی اسی طرح تخلیق کے تمام مراحل سے گزرتا ہے جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گيا ہے۔ البتہ ان کی ارواح پہلے سے خلق شدہ ہوتی ہیں اور ظاہر روایات سے یہی حاصل ہوتا ہے کہ ماں کے بطن میں چار ماہ گزرنے کے بعد ان کی روح ان کے جسم میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ ان تمام احادیث سے ظہور یا نزول کا عقیدہ رکھنے والوں کی بے پناہ تردید ہوتی ہے۔

اس باب کے آخر میں ایک حدیث نقل کی جاتی ہے جس میں امام باقر(ع) امام کی دس علامتیں بیان فرماتے ہیں، جس کی پہلی اور دوسری علامت یوں بیان کی گئی ہے:

عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِى جـَعـْفَرٍ ع قَالَ لِلْإِمَامِ عَشْرُ عَلَامَاتٍ يُولَدُ مُطَهَّراً مَخْتُوناً وَ إِذَا وَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ وَقَعَ عَلَى رَاحـَتـِهِ رَافـِعـاً صـَوْتـَهُ بـِالشَّهـَادَتَيْنِ

زرارہ امام باقر سے نقل کرتے ہیں: "امام کی دس علامتیں ہوتی ہیں 1) وہ پاک و مطہّر اور ختنہ شدہ پیدا ہوتا ہے، 2) اور جب دنیا میں آتا ہے تو اپنے ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور شہادتین کے اقرار کی آواز بلند کرتا ہے"

اصول كافى جلد 2 صفحه 231 روايت 8

قارئین کرام ملاحظہ کیجئے کہ یہاں اس روایت میں صاف معصوم(ع) خود فرما رہے ہیں کہ آئمہ(ع) پیدا ہوتے ہیں اور ان کی ولادت ہوتی ہے لیکن ان کی ولادت اور ہمارے ولادت میں فرق ہے، وہ پاک و مطہّر اور ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں۔

ہم نے دیگر منابع اور کتب میں وارد ہونے والی سینکڑوں احادیث کا ذکر نہیں کیا تاکہ پڑھنے والوں کے ذہن پر مطالب بوجھل نہ ہو جائیں، لیکن عقل والوں اور ہدایت کے متلاشی حضرات کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

اب آپ خود ہی انصاف سے فیصلہ کیجئے، کہ معصومین کی سیرت پر چلتے ہوئے ان کے لئے ولادت کا لفظ استعمال کرنا بہتر ہے یا پھر ان شرپسندوں کے قیاس پر چلتے ہوئے ظہور یا نزول کا لفظ استعمال کرنا؟

فیصلہ آپ پر ہے

خاکپائے اہل بیت(ع): ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


مولا علی(ع) مولود کعبہ، علمائے اہل سنّت کی نگاہ میں

٭مولا علی(ع) مولود کعبہ، علمائے اہل سنّت کی نگاہ میں٭

حاکم نیشابوری:

"امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے یہ روایت تواتر کی حد تک ہے۔" ( مستدرک حاکم نیشاپوری، ج3 ص483 و کفایۃ الطالب،ص260)

حافظ گنجی شافعی:

"امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکّہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ 13رجب ، 30 عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہ ہوا ۔ یہ مقام و منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے۔" (کفایۃ الطالب ، ص407)

علامہ ابن صبّاغ مالکی:

"علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ 13 رجب ،30 عام الفیل، 23 سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے۔" (الفصول المہمۃ ،ص30)

شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی:

”بغیر کسی شک و شبہ کے یہ روایت متواتر ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ 13 رجب ،30 عام الفیل، 23 سال قبل از ہجرت ،مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ۔ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی شخص خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ۔ حضرت علی (ع) کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے “۔ ( ازالۃ الخلفاء، ج2 ص251)

علامہ ابن جوزی:

"جناب فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھیں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اسی وقت خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا اورجناب فاطمہ بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوگئيں ۔اسی جگہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام پیدا ہوئے ۔“ (تذکرۃ الخواص، ص20)

علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی):

"حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا ۔ خدا وند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی (ع) ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے۔" (وسیلۃ النجاۃ، محمد مبین حنفی، ص60)

حافظ شمس الدین ذہبی:

حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد ذہبی ” تلخیص مستدرک “ میں تحریر فرماتے ہیں: یہ خبر تواتر کی حد تک ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ (تلخیص مستدرک، ج2 ص483)

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

نسل اور نسب کی فضیلت نہیں: فضیلت صرف تقوی کی ہے

٭نسل اور نسب کی فضیلت نہیں: فضیلت صرف تقوی کی ہے٭

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَكَّةَ قَامَ عَلَى الصَّفَا فَقَالَ يَا بَنِي هَاشِمٍ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ وَ إِنِّي شَفِيقٌ عَلَيْكُمْ لَا تَقُولُوا إِنَّ مُحَمَّداً مِنَّا فَوَ اللَّهِ مَا أَوْلِيَائِي مِنْكُمْ وَ لَا مِنْ غَيْرِكُم إِلَّا الْمُتَّقُونَ أَلَا فَلَا أَعْرِفُكُمْ تَأْتُونِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْمِلُونَ الدُّنْيَا عَلَى رِقَابِكُمْ وَ يَأْتِي النَّاسُ يَحْمِلُونَ الْآخِرَةَ أَلَا وَ إِنِّي قَدْ أَعْذَرْتُ فِيمَا بَيْنِي وَ بَيْنَكُمْ وَ فِيمَا بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ بَيْنَكُمْ وَ إِنَّ لِي عَمَلِي وَ لَكُمْ عَمَلُكُم

امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ(ص) نے مکّہ فتح کیا تو آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور فرمایا:

"اے بنی ھاشم! اے بنی عبدالمطلب!

میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اور میں تمہارا شفیق اور دلسوز ہوں، مجھے تم سے محبّت ہے۔۔۔ لہذا یہ مت کہو کہ محمد(ص) ہم میں سے ہیں۔۔۔ اللہ کی قسم تم (بنی ہاشم) میں سے اور دیگر (قبائل و اقوام) میں سے متّقین کے سوا میرا کوئی دوست نہیں ہے۔

جان لو میں تمہیں روز محشر نہیں پہچانوں گا کیونکہ تم نے دنیا کی محبّت کو دوش پر سوار کیا ہوگا جبکہ دیگر لوگوں نے آخرت کو دوش پر اٹھایا ہوگا۔

یاد رکھو! میں نے اپنے اور تمہارے درمیان، اور اللہ اور تمہارے درمیان کسی قسم کا عذر اور بہانہ نہیں چھوڑا۔ میرے ذمّے میرا عمل ہے اور تمہارے ذمّے تمہارا عمل ہے۔"

(کافی: ج8 ص182، صفات الشیعہ: حدیث8)

رجال الحدیث:

اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں

درایت الحدیث:

اس روایت کو شیخ کلینی اور صدوق دونوں نے نقل کیا۔ شیخ صدوق کی سند صحیح ہے۔ یہ حدیث حکم قرآنی کے بھی عین مطابق ہے "انّ اکرمکم عنداللہ اتقاکم"، لہذا متن اور سند دونوں اعتبار سے یہ درجۂ اعتبار پر فائز ہے۔

فوائد الحدیث:

کسی بھی نسل کو برتری حاصل نہیں ہے، معیار خون اور نسل نہیں بلکہ تقوی اور پرھیزگاری ہے۔ مومن مومن کا کفو ہے، لہذا کوئی بھی مومن کسی بھی مومنہ سے شادی کر سکتا ہے، نسلی برتری اور تفاخر کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔

سادات کا احترام امّتی اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کو خاندان عصمت سے نسبت ہے۔ لیکن سادات کو تفاخر کا اظہار نہیں کرنا چاھئے اور نہ ہی دیگر نسلوں کو پست سمجھنا چاھئے، بلکہ اس نسبت کی وجہ سے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سادات کو تو تقوی اور پرھیزگاری میں باقی سب سے افضل ہونا چاھئے تب جا کر وہ اپنے آپ کو فخریہ سادات قرار دے سکتے ہیں۔

یہ نسبت روز محشر کسی قسم کا فائدہ نہیں دے سکتی۔ اور یاد رہے کہ نبی(ص) سے نسب جوڑنے والے وہاں ہوں اور ان کے نامۂ اعمال سبک ہوں اور حقوق الناس کی رعایت نہ کرتے ہوں تو یقینا یہ لوگ کن کو شرمندہ کریں گے؟

اللہ تعالی ہم سب کی ہدایت کرے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کونڈوں کی شرعی حیثیت

کونڈوں کی شرعی حیثیت

س) کیا کونڈے جائز ہیں؟ کیا یہ بات درست ہے کہ شیعہ اس لئے اس دن کو مناتے ہیں کیونکہ اس دن امیر معاویہ کی وفات ہوئی؟

ج) اس سوال کی کئی جہات ہیں، مؤمنین بلکہ مسلمین بلکہ کسی بھی انسان کو کھانا کھلانا یا اطعام کرنا یا دعوت کرنا باعث ثواب ہے۔ اگر اس رسم کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ باعث ثواب ہے۔

اس سوال کی دوسری جہت یہ ہے کہ کیا رجب کے مہینے میں ہی اس کو منانے کی کوئی شرعی دلیل ملتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں کوئی شرعی دلیل نہیں ملتی کہ 22 رجب کو فلاں کیفیت کے ساتھ دعوتیں کی جائیں۔ ہاں اگر مومنین کو اطعام کی نیّت سے ہے تو کسی بھی دن خوب رہے گا، لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ 22 رجب کو ہی اس خاص کیفیت سے کونڈے کرنے کا کوئی حکم معصوم کی طرف سے صادر ہوا ہے۔

شاید آپ میں بہت سوں کے لئے یہ بات نئی ہو، یہ کونڈے برّصغیر کی رسم ہے، اس کی شروعات بیسویں صدی کے اوائل یا انیسویں صدی کے اواخر میں اتر پردیش سے ہوئی۔ وہاں سے پھر یہ پنجاب و سندھ وغیرہ بھی پہنچا۔ اسی لئے برّصغیر کے دیگر علاقوں جیسے مقبوضہ جمّوں و کشمیر، لداخ و بلتستان، گلگت و پاراچنار وغیرہ میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے۔ برّصغیر سے باہر ایران و عراق، افغانستان، ترکی، لبنان، بحرین، شام و آذربائجان میں اس کا تصوّر بھی محال ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ مشہور کہانی جو کونڈوں کے موقعے پر پڑھی جاتی ہے خالص ہندوستانی اختراع ہے۔

یہاں اس سوال کے تیسرے جہت پر کلام کریں گے، اور وہ ہے لکڑہارے کی مشہور کہانی جو کونڈوں کے مواقع پر پڑھی جاتی ہے۔ یہ کہانی کافی لمبی چوڑی ہے جس کا ذکر طوالت کا باعث بنے گا، مختصر یہ کہ کسی لکڑہارے کے گھر پر فاقے ہو رہے تھے تو امام صادق(ع) نے ان کو خاص کیفیت میں پوڑیاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر کھلاؤ۔ اس لکڑہارے نے ایسا کیا تو اس کی قسمت جاگی خزانہ ملا۔ اس کی بیوی پہلے کسی وزیر کے گھر پر خادمہ تھی، جب اس کی قسمت جاگی تو وزیر کی بیوی کو ان کونڈوں کے اسرار کا پتہ چلا لیکن اس نے ماننے سے انکار کیا۔ اس انکار کی اس کو سخت سزا ملی، وزیر کو اپنی وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ بادشاہ کا بیٹا غائب ہوا تو دشمنوں نے افواہ اڑائی کہ کہیں اس وزیر نے تو بیٹے کو ہلاک نہیں کیا۔ وزیر کی بیوی خربوزہ یا تربوز خرید رہی تھی ان کو پکڑ لیا گیا، بادشاہ نے اس کے ہاتھ میں رومال دیکھ کر کہا کہ اس میں کیا ہے تو وزیر نے کہا خربوزہ ہے لیکن کھول کر دیکھا گیا تو بادشاہ کے بیٹے کا سر نکلا۔ ان کو قتل کرنے کی سزا ہوئی، جب میاں بیوی بیٹھے تو انہوں نے سوچا کہ آخر ان سے کیا غلطی ہوئی ہے، تو بیوی نے بتایا کہ اس نے کونڈوں کا انکار کیا تھا، اس پر دونوں توبۂ نصوح کرتے ہیں اور کونڈوں کی منّت مانتے ہیں۔ جب بادشاہ نے دوبارہ بلایا اور رومال کھولا تو بیٹے کا سر نہیں تھا بلکہ وہ خربوزہ ہی تھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر سٹپٹا گیا تو وزیر نے کونڈوں کی کرامتیں سنائیں تو بادشاہ ششدر رہ گیا (ہم نے کہانی مختصر طور پر نقل کفر کفر نباشد کے مصداق لکھی ہے)۔

ہم نے یہ کہانی بہت مختصر کر کے سنائی ہے، اس پوری کہانی کو پڑھنے کے بعد اس بناوٹی کہانی پر لب کشائی کے لئے بھی الفاظ نہیں۔ واضح ہے کہ یہ کہانی یوپی کے کسی بانکے نے بنائی ہے، کیونکہ امام جعفر صادق(ع) کے دور میں بادشاہت میں وزارت کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ امویوں کے دورخلافت میں وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں ملتا، امام(ع) کا آخری دور عباسیوں کے عروج حاصل کرنے کا زمانہ تھا۔ اس میں بھی اس منصب کا کوئی وجود نہیں ملتا، بعد میں جب عباسی حکومت مستحکم ہوئی تو اس منصب کو بنایا گيا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ میں کسی قسم کی بادشاہت تھی ہی نہیں، بادشاہ کا دارالحکومت اموی دور میں دمشق تھا اور عباسیوں نے بغداد کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ لہذا اس کہانی پر کچھ کہنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے۔

اب یہ تو واضح ہے کہ یہ کہانی معصوم(ع) سے کسی طور منسوب نہیں، تو اس کہانی کا پڑھنا کیسا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ جب کسی واقعے کا جعلی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کو نقل کرنا معصومین(ع) پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ اگر بالفرض جعلی ہونا واضح نہ ہوتا تب بھی اس کا کسی مستند کتاب میں موجود نہ ہونا ہی اس کہانی کو پڑھنے کے عدم جواز کے لئے کافی تھا۔

سوال کی آخری جہت یہ ہے کہ کیا اس دن کو امیر معاویہ کی وفات کی وجہ سے منانا مقصود ہوتا ہے۔ اس کا جواب بہت واضح سا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اولاً اس الزام کا شرعی ثبوت کیا ہے؟ محض الزام لگانا کافی نہیں۔ امیر معاویہ کی وفات رجب کے مہینے میں ضرور ہوئی لیکن کوئی معتبر تاریخی حوالہ نہیں کہ 22 رجب کو ہوئی۔ دوّم یہ کہ اس دن کوئی خوشی نہیں منائی جاتی اور محض نیاز دلائی جاتی ہے جو اس لکڑہارے کی کہانی کی وجہ سے ہے۔

نتیجہ گیری:

اوپر پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بذات خود کونڈے کھلانے اور اطعام مسلمین میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ باعث ثواب ہے، لیکن اس دن جعلی کہانی پڑھ کر معصومین ع پر جھوٹ نہ باندھا جائے۔ اگر کونڈے دلانا مقصود ہو تو فقط اس نیّت سے کھلائیں کہ اللہ کی رضا کے لئے مومنین کو دعوت دے رہے ہیں، اور جعلی کہانی کے بجائے کوئی معتبر دعا پڑھ لیں یا سورہ یس وغیرہ کی تلاوت کر لیں۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کیا 27 رجب کی رات رسول اللہ(ص) کی معراج کی رات تھی یا ان کی بعثت کی رات تھی؟

س) کیا 27 رجب کی رات رسول اللہ(ص) کی معراج کی رات تھی یا ان کی بعثت کی رات تھی؟

جواب) اس بابت مسلمانوں میں شیعہ اور سنّی مسالک کے درمیان اختلاف ہے۔ شیعہ علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ اس دن رسول اللہ(ص) کو رسالت کے لئے مبعوث کیا گیا، جبکہ اہلسنّت کے ہاں مشہور ہے کہ اس دن آپ کا سفر معراج ہوا۔

برّصغیر کے شیعوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ان کے ہاں بھی اس شب معراج ہوا، چنانچہ وہ بھی اس دن ایک دوسرے کو شب معراج کی مبارکبادی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ یقینا سنّی اکثریت کے اثرات کی وجہ سے ہے۔

دوسری طرف ایران میں اہل سنّت اس دن کو عید مبعث کے حوالے سے مناتے ہیں، یہ بھی یقینا شیعہ اکثریت کے اثرات کی وجہ سے ہے۔ البتہ ایران میں خود سنّیوں کے درمیان اس بات پر تنازعہ رہتا ہے کہ اس شب معراج ہوئی یا عید مبعث ہوا۔

اس اختلاف سے قطع نظر سوال یہ اٹھتا ہے کہ شیعہ مسلک کے مطابق رسول پاک(ص) کی معراج کس دن ہوئی؟ علماء میں مشہور یہ ہے کہ 17 رمضان کو آپ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعض اقوال اور روایات کے مطابق 21 رمضان بھی ملتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں ربیع الاول و محرّم کے بھی اقوال ملتے ہیں۔ یہ بات زیادہ مناسب لگتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو ایک سے زائد دفعہ سفر معراج نصیب ہوا، ممکن ہے کہ یہ تاریخ میں اختلاف اسی وجہ سے ہو۔ علامہ طباطبائی(قدس سرّہ) نے قرآن مجید میں سورہ نجم کی آیت 13 سے استفادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنجناب(ص) دو دفعہ سفر معراج پر گئے۔

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى

اور بتحقیق انہوں نے پھر ایک مرتبہ اسے دیکھ لیا،

یاد رہے کہ یہ سورہ نجم کی وہ آیات ہیں جو سفر معراج کے بارے میں ہی ہیں۔ البتہ علامہ طباطبائی نے دو دفعہ سے زیادہ سفر معراج کو بعید کہا ہے۔

داعی الی الحق: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کیا خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے؟ اور کیا اس کے لئے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے؟

سوال) کیا خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے؟ اور کیا اس کے لئے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے؟

جواب) ہمارے ہاں ایک عام غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جس نے خودکشی کر لی اس کا غسل و کفن، مجلس ترحیم اور رحمت و مغفرت کی دعا جائز نہیں ہے۔ یہ ایسی غلط فہمی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خودکشی کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے۔

لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ خودکشی کرنے والا ایک عظیم گناہ کا مرتکب ہوا ہے، جس طرح گناہان کبیرہ کو انجام دینے سے انسان جہنم کا حقدار ہو جاتا ہے اسی طرح خودکشی کرنے سے بھی ہو جاتا ہے بلکہ اپنی جان جو کہ اللہ کی امانت ہے اس کو ختم کر دینا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔

خودکشی اس لئے بھی سنگین ہے کیونکہ اس میں انسان کے پاس توبہ کے راستے ختم ہو جاتے ہیں۔ دیگر گناہوں میں انسان صدق دل سے استغفار کر سکتا ہے یا حقوق العباد سے متعلق گناہوں کا مرتکب ہوا ہے تو ان لوگوں سے معافی مانگ سکتا ہے یا نقصانات کا ازالہ کر سکتا ہے لیکن خودکشی کی صورت میں مذکورہ شخص اس دنیا میں ہی موجود نہیں رہتا کہ استغفار کر سکے تو پھر جہنّم اس کا مقدّر ہے۔

علاوہ ازیں خودکشی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی رحمت سے مایوس ہو گیا جو بذات خود ایک عظیم گناہ ہے۔

لیکن ان تمام باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے باقی تمام اچھے اعمال بیکار گئے اور اس کا غسل و کفن و دفن جائز نہیں۔ ہم کتنے ہی گنہگار لوگوں کو غسل دیتے ہیں تجہیز و تکفین کرتے ہیں اور ایصال ثواب وغیرہ کرتے ہیں، اسی طرح ایک خودکشی کرنے والے شخص کے لئے بھی یہ سب جائز ہے۔ جیسے تمام مسلمانوں کے لئے نماز جنازہ میں شرکت واجب کفائی ہے، اسی طرح ایک خودکشی کرنے والے مسلمان کی نماز جنازہ میں بھی شرکت واجب کفائی ہے۔

ہر شخص جس کا نامۂ اعمال کا بایاں پلڑا بھاری ہو وہ جہنّم میں جائے گا چاہے وہ مسلمان ہو۔ ہاں وہ مسلمان اپنے اعمال کی سزا پا کر جنّت میں جائے گا، یہی بات خودکشی کرنے والے کے لئے بھی ہے۔ وہ خودکشی کر کے دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو جاتا لیکن یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کے نامۂ اعمال پر بھاری ہوگا۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

بدگوئی حرام ہے

٭مؤمنین کی بدگوئی حرام ہے٭

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْأَوَّلِ ع قَالَ: قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ الرَّجُلُ مِنْ إِخْوَانِي يَبْلُغُنِي عَنْهُ الشَّيْءُ الَّذِي أَكْرَهُهُ فَأَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ فَيُنْكِرُ ذَلِكَ وَ قَدْ أَخْبَرَنِي عَنْهُ قَوْمٌ ثِقَاتٌ فَقَالَ لِي يَا مُحَمَّدُ كَذِّبْ سَمْعَكَ وَ بَصَرَكَ عَنْ أَخِيكَ فَإِنْ شَهِدَ عِنْدَكَ خَمْسُونَ قَسَامَةً وَ قَالَ لَكَ قَوْلًا فَصَدِّقْهُ وَ كَذِّبْهُمْ لَا تُذِيعَنَّ عَلَيْهِ شَيْئاً تَشِينُهُ بِهِ وَ تَهْدِمُ بِهِ مُرُوءَتَهُ- فَتَكُونَ مِنَ الَّذِينَ قَالَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ- إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذابٌ أَلِيم

محمد بن فضیل امام موسی کاظم(ع) سے عرض کرتے ہیں: میں آپ پر قربان! میرے مومن بھائیوں میں سے کسی شخص کے بارے میں کوئی بات مجھ تک پہنچتی ہے جس سے میں اس سے متنفّر ہو جاتا ہوں۔ جب میں اس شخص سے اس کا ذکر کرتا ہوں تو وہ اس بات سے انکار کرتا ہے، جبکہ وہ بات مجھ تک بہت سے ثقہ و بااعتماد افراد نے پہنچائی ہوتی ہے۔

امام کاظم(ع) محمد بن فضیل سے فرماتے ہیں: "اے محمد! اپنے مومن بھائی کے لئے اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کو جھٹلاؤ، چنانچہ اگر تہمارے سامنے اس بارے میں پچاس قسمیں ہی کیوں نہ کھائی جائیں تم اپنے مومن بھائی کی بات کو قبول کرو اور اس جماعت کو جھٹلاؤ۔ اور اپنے مومن بھائی کی کوئی ایسی بات فاش مت کرو جو اس کے لئے فتنہ اور آبروریزی کا باعث بنے اور اس کی مروّت کو لے ڈوبے۔ مبادا تم اس گروہ میں سے نہ ہو جاؤ جن کے لئے اللہ اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے درمیان بے حیائی پھیلے ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ یقینا جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے۔"

(کافی: ج8 ص147، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال: ص247)

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


رمضان کی نافلہ نمازیں اور مکتب تشیّع

٭رمضان کی نافلہ نمازیں اور مکتب تشیّع٭

رمضان ایک بہت ہی بابرکت اور رحمتوں والا مہینہ ھے جس میں اللہ تعالی نے روزے فرض کیے۔ اس مہینے میں کئی اعمال ایسے ھیں جو اسی سے مخصوص ھیں اور ان میں سے ایک رمضان کی خاص نفل نمازیں ھیں جو ھر رات کو بجا لائی جاتی ھیں اور شارعین نے ان نمازوں کی کافی تاکید کی ھے۔ لیکن افسوس کہ مسلم امّہ اس معاملے میں بھی افراط و تفریط کا شکار ھوئی، ایک طرف اھل سنّت حضرات ھیں جو ان نفل نمازوں کو جماعت میں پڑھتے ھیں جبکہ رسول اللہ(ص) نے نفل نمازوں کو جماعت میں پڑھنے سے منع فرمایا۔ اور دوسری طرف شیعہ حضرات ھیں جو ان نفل نمازوں کو پڑھتے ھی نہیں جبکہ آئمہ طاھرین(ع) اور اھل بیت رسول(ع) نے ان نمازوں کی کافی ترغیب دی ھے۔ نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ عامۃ الناس رمضان کے فیوض و برکات سے محروم رھتے ھیں، اور روزہ صرف سحری سے افطار تک بھوک پیاس برداشت کرنے کا ھی مترادف سمجھا جاتا ھے۔ یہاں تک کہ لوگ حسب معمول صرف واجبات و فرائض کی انجام دہی کو کافی سمجھتے ھوئے روزانہ کی نافلہ نمازوں پر بھی کاربند نہیں ھوتے۔ یعنی صرف بھوک و پیاس سے معلوم ھوتا ھے کہ رمضان ھے وگرنہ ایک عام شیعہ کے لئے رمضان میں اور دیگر مہینوں میں کوئی فرق نہیں رھتا۔

رسول اللہ(ص) اور آئمہ(ع) نے رمضان میں خاص نوافل کی تاکید کے ھے اور اس کا طریقہ یہ بتایا ھے کہ پہلی رمضان سے لے کر 20 رمضان تک روزانہ ھر شب 20 رکعت نفلییں دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں اور آخری عشرے میں 30 رکعت پڑھی جائیں۔ جبکہ 19، 21 اور 23 کی شب کو 100 رکعت پڑھی جائیں تو یہ تقریبا 1000 رکعتیں بن جاتی ھیں۔

ذیل میں کچھ احادیث تبرکا بیان کی جاتی ھیں تاکہ ھمارے موقف کی تائید ھو؛


وعنه، عن الحسن بن علي، عن أبيه قال: كتب رجل إلى أبي جعفر (عليه السلام) يسأله عن صلاة نوافل شهر رمضان وعن الزيادة فيها ؟ فكتب (عليه السلام) إليه كتابا قرأته بخطه: صل في أول شهر رمضان في عشرين ليلة عشرين ركعة، صل منها ما بين المغرب والعتمة ثماني ركعات، وبعد العشاء اثنتى عشرة ركعة، وفي العشر الاواخر ثماني ركعات بين المغرب والعتمة، واثنتين وعشرين ركعة بعد العتمة إلا في ليلة إحدى وعشرين (وثلاثوعشرين)، فان المأة تجزيك إنشاء الله، وذلك سوى الخمسين، وأكثر من قراءة (إنا أنزلناه)

حسن بن علی اپنے والد سے نقل کرتے ھیں کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں مکتوب ارسال کیا جس میں ماہ رمضان کے نوافل اور اس ماہ میں جو نمازیں کثرت سے پڑھی جاتی ھیں ان کے بارے میں پوچھا۔ امام(ع) نے جواب میں اپنے مبارک ہاتھوں سے جواب لکھا جسے میں نے بھی پڑھا۔ (جو کچھ یوں تھا) اوّل رمضان سے لے کر بیسویں رمضان تک ھر شب 20 رکعت نماز اس طرح پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان 8 رکعت اور غشاء کے بعد 12 رکعت اور آخری عشرے میں 30 رکعت اس طرح پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان 8 رکعت اور عشاء کے بعد 22 رکعت۔ سوائے 21 اور 23 کی شب کہ ان میں 100 رکعت پڑھنا کافی ھے انشاء اللہ۔


وعنه، عن علي بن سليمان، عن علي بن أبى خليس، عن أحمد بن محمد بن مطهر قال: كتبت إلى أبي محمد (عليه السلام) أن رجلا روى عن آبائك (عليهم السلام) أن رسول الله (صلى الله عليه وآله) ما كان يزيد من الصلاة في شهر رمضان على ما كان يصليه في سائر الايام، فوقع (عليه السلام): كذب فض الله فاه، صل في كل ليلة من شهر رمضان عشرين ركعة إلى عشرين من الشهر، وصل ليلة إحدى وعشرين مائة ركعة، وصل ليلة ثلاث وعشرين مائة ركعة، وصل في كل ليلة من العشر الاواخر ثلاثين ركعة. ورواه ابن طاووس في كتاب (الاقبال) باسناده عن هارون بن موسى التلعكبري، عن أبي علي بن همام، عن علي بن سليمان، عن ابن أبي خليس، عن محمد بن أحمد بن مطهر نحوه ۔ والحديثين اللذين قبله باسناده عن علي بن عبد الواحد النهدي، عن علي بن حاتم، وكذا الحديث الاول. وروى الثاني نقلا من كتاب علي بن الحسن بن فضال مثله


احمد ابن محمد ابن مطہر بیان کرتے ھیں کہ میں نے امام حسن عسکری(ع) کی خدمت میں خط لکھا کہ ایک شخص آپ کے آباء(ع) سے روایت کرتا ھے کہ رسول اللہ(ص) عام دنوں میں جو نماز پڑھا کرتے تھے ماہ رمضان میں کوئی اضافہ نہیں کرتے تھے۔ امام(ع) نے اپنے مہر کے ساتھ جواب لکھا کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ھے، اللہ اس کا منہ توڑے۔ تم ماہ رمضان کی پہلی سے لے کر اس کی 20 تاریخ تک ھر شب بیس رکعت نماز پڑھو اور 21 کی شب سو رکعت پڑھو اور پھر 23 کی شب بھی سو رکعت پڑھو اور آخری عشرے میں 30 رکعت پڑھو۔


علي بن موسى بن طاووس في كتاب (الاقبال) نقلا عن الرسالة العزية للشيخ المفيد قال: تصلي في العشرين ليلة الاولة كل ليلةعشرين ركعة، ثماني بين العشائين، واثنتي عشرة ركعة بعد العشاء الاخرة، ويصلي في العشر الاواخر كل ليلة ثلاثين ركعة يضيف إلى هذا الترتيب في ليلة تسع عشرة وليلة احدى وعشرين و ليلة ثلاث وعشرين كل ليلة مائة ركعة، وذلك تمام الالف ركعة قال: وهي رواية محمد بن أبي قرة في كتاب (عمل شهر رمضان) فيما أسنده عن علي بن مهزيار عن مولانا الجواد (عليه السلام)۔


سیّد ابن طاووس اپنی کتاب میں شیخ مفید(ر) کی کتاب رسالہ عزیہ سے نقل کرتے ھوئے کہتے ھیں کہ ماہ رمضان کی پہلی 20 شب میں ھر رات 20 رکعت نماز اس ترتیب سے پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان آٹھ رکعت اور عشاء کے بعد 12 رکعت اور آخری عشرہ میں ھر رات 30 رکعت۔ 19، 21، اور 23 کی شب اس میں ایک سو رکعت کا اضافہ کرو۔ اس طرح کل 1000 رکعت ھو جائیں گی۔ شیخ ابو قرہ نے اپنی کتاب "عمل شھر رمضان" میں اسناد کے ساتھ علی ابن مہزیار قمی سے امام جواد(ع) سے یہی روایت نقل کی ھے۔

٭وسائل الشیعہ، ج5 ص155٭


نوٹ؛ شاید روزانہ اتنی تعداد میں نمازیں پڑھنا ھر کسی کے لئے ممکن نہ ھو، اس صورت میں جتنی رکعتیں پڑھ سکتے ھیں پڑھیں۔ اللہ تعالی قبول کرے گا

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


رمضان میں نماز شب (تہجّد)

٭رمضان میں نماز شب (تہجّد)٭

اللہ تعالی کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں پھر سے ماہ رمضان کو درک کرنے کی سعادت نصیب کی ۔۔۔۔ زھے نصیب کہ یہ ایّام اور یہ راتیں پھر سے ہماری قسمت میں آئی ہیں۔ ماہ رمضان کی سعادتوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان آخر شب میں سحری کے لئے جاگتا ہے اور ان نیک ترین ساعات سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ حیف ہے کہ انسان ان گھڑیوں کو درک کرے لیکن نماز شب یا تہجّد کی سعادت سے محروم رہے۔

نماز شب کا بہترین وقت سحری کے اوقات ہیں۔ اس فرصت سے استفادہ کریں اور تہجّد کو رمضان کی راتوں میں ادا کریں۔ نماز شب کی فضیلت کے لئے کچھ احادیث ہم بطور تبرّک پیش کر رہے ہیں ورنہ اس نماز کی اتنی فضیلت ہے کہ شاید ایک آرٹیکل بھی کم ہو۔

رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں؛ افْضَلُ الصَّلاةِ بَعْدَ الصَّلاةِ الْمَکتوبَةِ الصَّلاةُ فی جَوْفِ اللَّیل

نماز پنجگانہ کے بعد افضل ترین نماز نماز شب ہے۔ (کنز العمّال: ج7 ح21397)

ختمی مرتبت(ص) نیز فرماتے ہیں: "دو رکعت نماز رات کی گہرائی میں مجھے دنیا و مافیھا سے محبوب تر ہے۔" (بحارالانوار: ج87 ص 148)

حضرت رسول اکرم(ص) نیز مولا علی(ع) سے اپنی وصیت میں فرماتے ہیں کہ کچھ چیزیں ہیں جن کو ہرگز ترک نہ کرو۔ ان میں آگے فرماتے ہیں؛ وَ عَلَيْكَ بِصَلَاةِ اللَّيْلِ وَ عَلَيْكَ بِصَلَاةِ اللَّيْلِ وَ عَلَيْكَ بِصَلَاةِ اللَّيْلِ

یعنی نماز شب کی پابندی کرو (اس جملے کی تین دفعہ تکرار فرماتے ہیں)

(کافی: ج8 ص79)

امام حسن عسکری(ع) اپنے ایک خط میں جو انہوں نے شیخ صدوق کے والد علی ابن بابویہ (قدس سرہ) کو لکھا تھا، رسول اللہ(ص) کی اسی وصیّت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛

و عليك بصلاة الليل فان النبيّ صلّى اللّه عليه و آله أوصى عليّا عليه السلام فقال يا على عليك بصلاة الليل ثلاث مرّات و من استخف بصلاة الليل فليس منّا، فاعمل بوصيتي و أمر شيعتى حتّى يعملوا عليه

"نماز شب کی پابندی کرو، کیونکہ نبی پاک(ص) نے علی(ع) کو وصیت کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا کہ اے علی! نماز شب کی پابندی کرو ۔۔۔۔ اور جو شخص نماز شب کو خفیف سمجھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ پس میری وصیّت پر عمل کرو اور میرے شیعوں کو حکم دو یہاں تک کہ وہ ان وصیّتوں پر عمل کریں۔"

اللہ اکبر!

اس قدر تاکید کے بعد ہم اس سعادت سے محروم رہیں؟ حیف ہے شیعوں پر جنہوں نے دین کو فقط چند مباحث تک قید کر لیا ہے اور تشیّع کو لایعنی مباحث میں سمو دیا ہے، لیکن تشیّع کی ان گرانقدر تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

نماز شب کی افادیت کے پیش نظر ہم مختصر طور پر اس کے کچھ اعمال بتا دیتے ہیں۔

1) نماز شب آٹھ رکعت ہے جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جائے گی (نماز فجر کی طرح)۔ اس کے بعد دو رکعت نماز شفع ہے اور پھر ایک رکعت نماز وتر۔

2) نماز شب میں حمد کے بعد سورت کی تلاوت ضروری نہیں۔

3) نماز شفع میں بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ ناس اور دوسری میں سورہ فلق کی تلاوت ہو۔

4) اگر وقت تنگ ہو تو دو رکعت پڑھنے پر اکتفا کیا جا سکتا ہے، ساتھ ایک رکعت وتر پڑھے۔ اگر مزید تنگ ہو تو نماز وتر پڑھنے پر ہی اکتفا کیا جائے۔

5) نماز وتر کی اپنی فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ مولا علی(ع) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ(ص) نے نماز وتر کی خاص تاکید کی اور آپ(ص) خود بھی وتر کے لئے کوشش کرتے تھے کہ کبھی قضا نہ ہو (بحارالانوار: ج84)

6) نماز شب بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں۔

7) مسافر اور ضعیف افراد، بلکہ ہر وہ شخص جس کو ڈر ہو کہ سونے کے بعد تہجد ادا نہ کر پائے گا یا محتلم ہو جائے گا تو وہ نماز شب کو آدھی رات سے پہلے بھی پڑھ سکتا ہے۔ بلکہ حالت اختیار میں بھی آدھی رات سے پہلے نماز شب پڑھنے کا جواز موجود ہے۔

8) ضروری نہیں کہ پورے گیارہ رکعت کو ایک ساتھ پڑھے، بلکہ چاہے تو متفرق اوقات میں پڑھ سکتا ہے۔ بلکہ متفرّق پڑھنا زیادہ افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ(ص) کیا کرتے تھے۔

9) آیت اللہ العظمی بہجت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی چار رکعت نماز شب پڑھے اور نماز فجر کا وقت ہو جائے تو وہ نماز شب چھوڑ کر فجر کی نافلہ اور فرض پڑھے، اور باقیماندہ تہجد کی رکعات کو قضا کرے۔ اور اگر بالکل ہی نماز تہجد پڑھ نہ پائے تو فجر کی نماز کے بعد نماز شب کی قضا کر سکتا ہے۔

اگر اس پوسٹ کو مفید پائیں تو شیئر کریں تاکہ آپ کے احباب بھی مستفید ہوں اور اس حقیر پرتقصیر کو دعاؤں میں یاد کریں۔

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


منگل، 23 ستمبر، 2014

کیا واقعی شیاطین رمضان میں قید کئے جاتے ہیں؟

٭کیا واقعی شیاطین رمضان میں قید کئے جاتے ہیں؟٭

سوال: کہا جاتا ہے کہ رمضان میں شیطان جکڑے جاتے ہیں اور رمضان کے بعد آزاد کئے جاتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان میں پھر بھی گناہ ہوتے ہیں، عملی طور پر تو شیاطین جکڑے نہیں جاتے۔

جواب: احادیث میں شیاطین کے جکڑے جانے اور رمضان کے بعد ان کو آزاد کئے جانے کا ذکر ہے۔ لیکن ہمارے ہاں عام تصوّر یہی ہے کہ ان کو زنجیروں میں جکڑا گيا ہے اور وہ پورا مہینہ قید ہوتا ہے، یہ تصوّر غلط ہے۔ اس سے حقیقت میں قید کیا جانا مراد نہیں۔

رمضان المبارک میں شیطان کو جکڑے جانا اس امر سے کنایہ ہے کہ شیاطین اس ماہ مبارک میں انسانوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی وجہ سے انسان کی حیوانی قوّت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے اور انسان ان گناہوں سے دور ہو جاتا ہے جو عموما وہ عام دنوں میں کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص رمضان میں ان باتوں کا بہت خیال رکھتا ہے، اور جو حضرات روزے رکھتے ہیں ان کا روزہ ان کو بہت سارے گناہوں سے باز رکھتا ہے۔

اس ماہ مبارک میں قوّت عقلیہ قوی ہوتی ہے جو نیکیوں کا باعث ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ اس ماہ انسان کثرت سے عبادت کی طرف مائل ہوتا ہے اور شیطانی وسوسوں میں نہیں آتا۔

اور شیطان کی مثال اس کتّے کی طرح ہے جس کے بھونکنے سے ہم جتنا ڈریں اتنا وہ شیر ہوتا ہے، اور اگر ہم اس کے بھونکنے کی پرواہ نہ کریں تو رفتہ رفتہ اس کی آواز مغلوب ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ بھونکنا بند کر دیتا ہے۔ روزہ ہمیں شیطان سے دور رہنا سکھاتا ہے، جب ہم اس کی خواہش کے برعکس کوئی نیک کام انجام دیں یا کسی گناہ سے باز رہیں تو وہ کمزور ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان اس ماہ مبارک سے بہت ڈرتا ہے جہاں اس کے دام کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اگر کوئی اس ماہ گناہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی تربیت میں غافل رہا، یا تو روزے نہیں رکھے یا اگر رکھے بھی تو روزے کا حق ادا نہ کر سکا۔ روزے کی حالت میں انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو چاہے وہ مبطلات روزہ میں سے نہ بھی ہو، ہمارا نفس ہمیں ضرور ٹوکتا ہے کہ اے غافل! کچھ خیال کر کہ تو روزے سے ہے۔ اگر ہم نے ضمیر کی اس آواز کو نظر انداز کیا تو شیطان کو موقع مل جاتا ہے اور ہم پر حاوی ہو جاتا ہے۔ وہ بہت خوش ہو جاتا ہے کہ کوئی شخص رمضان المبارک میں بھی گناہ کرنے پر راغب ہے۔

رمضان المبارک کے بعد شیطان کا آزاد ہونا بھی ایک کنایہ ہے۔ کوئی یہ بات درک کرنا چاہے تو رمضان المبارک کے فورا بعد چاند رات میں دیکھے کہ شیطان کس طرح بیباک ہو جاتا ہے کیونکہ اب لوگوں کے نفوس گناہ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

اگر کسی کو توفیق ہو تو رمضان کے فورا بعد عید الفطر والے دن فجر کی نماز مسجد میں پڑھنے جائے اور راستے میں لوگوں کے گھروں کی طرف توجّہ کرے۔ وہ واضح طور پر مشاہدہ کرے گا کہ جن گھروں میں اس وقت لائٹ جلی ہوتی تھی اور لوگ سحری کے مبارک اوقات کو درک کرتے تھے آج سب سوئے ہوئے ہیں۔ آج ان تمام گھروں کی لائٹ بند ہے، کل تک یہ لوگ جاگے ہوتے تھے، کوئی سحری کھا کر ثواب کماتا تھا، کوئی تہجد کی نماز پڑھتا تھا، کوئی دعائے سحر پڑھتا تھا، کوئی مسواک کرتا تھا۔۔ غرض اس بابرکت لمحات میں نیکیاں ہی نیکیاں ہوتی تھیں۔ لیکن وائے ہو ان لوگوں پر جو رمضان المبارک کے گزرنے کے بعد ان مبارک لمحات کو درک کرنے کی سعادت سے محروم رہتے ہیں، جو سحر خیزی کی اس نعمت سے قطع تعلّق کر لیتے ہیں۔ انہی حقائق کو احادیث میں کنایۃ کے طور پر شیاطین کا آزاد ہونا کہا گیا ہے۔ شیاطین کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوگی کہ رمضان المبارک ختم ہو گیا ہے؟ اور جب آپ نماز فجر پڑھنے مسجد میں پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نمازیوں کی تعداد میں بہت کمی ہوگئی ہے، جبکہ ماہ رمضان میں مساجد بہت زیادہ آباد ہوتی تھیں۔

رمضان المبارک کے مہینے میں روزے کی فرضیّت کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان ایک ماہ اپنی کردار سازی کرےاور رمضان کے نتیجے میں جو انسان تیّار ہو وہ سارا سال اللہ کی عبادت اور اس کے مخلوقات کی خدمت کرتا رہے۔ لیکن افسوس جیسے ہی یہ مہینہ ختم ہوتا ہے ہم سب اسی پرانی ڈگر پر واپس لوٹ آتے ہیں۔ تہجّد پڑھنا تو دور کی بات، ہم میں سے اکثر فجر بھی نہیں پڑھتے۔ چاند رات میں بازاروں کے گشت اور صبح تھکن کی وجہ سے فجر بھی نہیں پڑھتے اور بادل نخواستہ عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں جو واجب بھی نہیں۔

اللہ تعالی ہم سب کو اس مبارک مہینے میں اپنے کردار سازی کی توفیق عنایت فرمائے، اور ماہ مبارک کے فیوض و برکات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعادت نصیب کرے تاکہ ہم رمضان المبارک کے ختم ہونے کے بعد ایک بہترین مسلمان و مومن کی صورت میں سامنے آئیں۔

آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہمیشہ شیطان کو شکست فاش دیتے رہیں گے اور اس کی ناک زمین پر رگڑتے رہیں گے۔

وما علینا الاّ البلاغ

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


امام علی(ع) کی آخری وصیّت

٭امام علی(ع) کی آخری وصیّت٭

مولا علی(ع) کی شہادت کے جانگداز ایّام میں ہم ان کی وصیّت کا ذکر کرتے ہیں تاکہ ان سے محبّت کا دعوی کرنے والے اپنا محاسبہ کریں اور ان کی وصیّت پر عمل کریں۔

مولا علی(ع) کا وہ کلام جو انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے کہا جب ابن ملجم (لعنت اللہ علیہ) نے ان پر ضربت لگائی:

"میری وصیّت تم لوگوں کو یہی ہے کہ کسی بھی شئے میں شرک نہ کرو، اور محمد(ص) کی سنّت کو ضائع مت کرو، اور ان دو (اہم) ستونوں پر پابند رہو تاکہ کوئی تمہیں سرنگوں نہ کر سکے"۔

(نہج البلاغہ: مکتوب 23)

شیعیان علی(ع) کے لئے لمحہ فکریہ۔ مولا علی(ع), جن کی نسبت سے ہم خود کو شیعہ کہلاتے ہیں, اپنے آخری لمحات میں کیا فرما رہے ہیں؟ کن دو چیزوں کو ہماری دین کی اصل قرار دے رہے ہیں؟

(1) توحید
(2) سنّت رسول(ص)

اور یہ وصیّت وہ اپنے نام لیوا مومنین کے لئے ہی فرما رہے ہیں۔ جیسا کہ بعض جاہل کہتے ہیں کہ اسلام اور ایمان کے بعد شرک ممکن نہیں، تو وہ اس کلام کے بارے میں کیا کہیں گے؟ شرک سے بچنے کا حکم ہمیں دیا جا رہا ہے یا مشرکین کو؟

معلوم یہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی شرک ہوسکتا ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور سے امور کی نسبت دینا شرک ہے، اللہ کے افعال جیسے خلق و رزق میں شریک ٹھہرانا شرک ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا شرک ہے، اللہ کے سوا کسی اور سے امید لگانا شرک ہے۔

اور سنّت محمدی(ص) پر عمل پیرا ہونا آج ہمارے ہاں قبیح سمجھا جاتا ہے، کیا ہم نے مولا(ع) کی اس وصیت پر عمل کیا؟

بہت واضح طور پر مولائے متقیان(ع) ان دونوں ستونوں پر کاربند رہنے کو ہماری کامیابی کہ رہے ہیں اور ان دونوں ستونوں سے انحراف کو ہماری ناکامی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

لیکن آج ان دونوں ستونوں کی ہمارے ہاں اہمیت نہیں۔ توحید کا موضوع ہماری مجالس میں ہرگز نہیں، ہم توحید کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ذرا برابر بھی نہیں سوچتے، ہم اللہ کی شان پر حرف لاتے ہوئے ہرگز نہیں سوچتے۔ اور سنّت محمد(ص) پر عمل کرنے کو ہمارے ہاں قبیح سمجھا جاتا ہے، اور ہرگز اس کی اہمیت نہیں۔

جو توحید کو اہمیت نہیں دیتے، اور اللہ کا شریک قرار دیتے ہوئے نہیں چوکتے اور سنّتوں پر زندگی بھر عمل پیرا نہیں ہوتے، کیا یہ لوگ شیعہ کہلانے کے قابل ہیں؟

شب ضربت اور شب شہادت ، مولا علی(ع) کا یہ کلام ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ کوشش کریں کہ مولا(ع) کے بیان کردہ ان دونوں اصولوں پر صدق دل سے کاربند رہیں۔

وما علینا الا البلاغ

خاکپائے اہل بیت(ع) : ابو زین الھاشمي
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


امام علی(ع) ایک بہترین نمونۂ حیات

٭امام علی(ع) ایک بہترین نمونۂ حیات٭

آئیے آج مولا علی(ع) کی شہادت کی رات ان کی زندگی کے کچھ گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

رسول اللہ(ص) کا ارشاد ہے: انا ادیب اللہ و علی ادیبی یعنی میں اللہ کا تربیت شدہ ہوں اور علی(ع) میرے تربیت شدہ ہیں۔ (بحارالانوار: ج16 ص231)

امام علی(ع)، جن کی هيبت سے دن کے وقت ميدان جنگ ميں بڑے بڑے بہادروں کے بدن کانپ اٹهتے تهے، راتوں کو محراب عبادت ميں مار گزيدہ انسان کی مانند، تڑپتے ہوئے اشکبار آنکهوں کے ساتھ اس طرح فرياد کرتا تها: ”اے دنيا! اے دنيا! کيا تو ميرے پاس آئی ہے؟! کيا تو ميری مشتاق ہے؟! هيهات! هيهات! کسی اور کو دهوکہ دے، مجهے تيری کوئی حاجت نہيں، ميں نے تجهے تين طلاقيں ديں۔۔۔۔۔ آہ! آہ! زاد راہ کتنا کم ہے اور راہ کتنی طويل ہے؟“ (بحار الانوار؛ ج 41، ص121)

شجاعت اور سخاوت کا ايسا امتزاج کس امت و ملت ميں پايا جاتا ہے کہ ميدان جنگ ميں لڑائی کے دوران جب ايک مشرک نے کہا: يا ابن ابی طالب! هبنی سيفک۔۔۔ یعنی اپنی تلوار مجھے دے دیں۔ تو آپ(ع) نے تلوار اس کی جانب پهينک دی۔ جب مشرک نے کہا:وا عجبا!اے فرزند ابی طالب!ايسے سخت وقت ميں تم نے اپنی تلوار مجهے دے دی؟

تو آپ(ع)نے فرمايا: تم نے ميری طرف دست سوال دراز کيا تها اور سائل کو رد کرنا کرم
کے خلاف ہے۔ اس مشرک نے اپنے آپ کو زمين پر گرا کر کہا: يہ اہل دين کی سيرت هے!!، پھر وہ مسلمان هوگيا۔ (بحارالانوار: ج41 ص69)

زمانہ ايسے صاحب منصب کی مثال کہاں پيش کر سکتا ہے جس کی حکومت مصر سے خراسان تک پهيلی ہوئی ہو اور عورت کے کاندهے پر پانی کی مشک ديکھ کر اس سے لے اور منزل تک پہنچا آئے۔ اس سے احوال پرسی کرنے کے بعد، صبح تک اضطراب کی وجہ سے سو نہ سکے کہ اس بيوہ عورت اور اس کے بچوں کا خيال کيوں نہ رکها گيا۔ اگلے دن صبح سويرے يتيموں کے لئے اشياء خوردنی لے جائے، کهانا پکا کر اپنے ہاتهوں سے بچوں کو کهلائے اور عورت امير المومنين (ع) کو پہچاننے کے بعد جب شرمندگی کا اظہار کرے تو اس کے جواب ميں کہے: اے کنيز خدا! تم سے شرمندہ تو ميں ہوں۔ (بحارالانوار: ج41 ص52)

ايام حکومت ميں اپنی تلوار بيچنے کی غرض سے بازار ميں رکهوائی اور فرمايا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت ميں علی(ع) کی جان ہے! اگر ايک لنگ خريدنے کے بهی پيسے ميرے پاس ہوتے تو اپنی تلوار ہرگز نہ بيچتا۔ (بحارالانوار: ج41 ص52)

زر و جواهر کے خزانے اختيار ميں ہونے کے باوجود فرمايا: ((واللّٰہ لقد رقعت مدرعتي هذہ حتی استحييت من راقعها)) یعنی: خدا کی قسم اپنی قبا ميں اتنے پيوند لگائے کہ مجھے درزی سے شرم آنے لگی۔ (نہج البلاغہ: خطبہ 160)

جب کبهی آپ (ع) پر کوئی مصيبت وارد ہوتی اس دن ہزار رکعت نماز بجالاتے، ساٹھ مسکينوں کو صدقہ ديتے اور تين دن روزہ رکهتے تهے۔ (بحارالانوار: ج41 ص132)

خون پسينے کی کمائی سے ہزار غلام آزاد کئے، اور دنيا سے رخصت ہوئے تو آٹھ لاکھ درهم کے مقروض تهے۔ (بحارالانوار: ج40 ص338)

جس رات افطار کے لئے اپنی بیٹی کے ہاں مہمان تهے، اس وسيع ملک کے فرمانروا کی بيٹی کے دستر خواں پر جَو کی روٹی، نمک اوردودھ کے ايک پيالے کے سوا کچھ بهی نہ تها۔ آپ (ع) نے جَو کی روٹی اور نمک سے افطار فرمايا اور دودھ چهوا تک نہيں کہ کہيں آپ (ع) کا دستر خوان رعايا کے دستر خوان سے زيادہ رنگين نہ ہو جائے۔ (بحارالانوار: ج42 ص276)

تاريخ کو اس جيسی کوئی دوسری شخصيت ديکهنا نصيب ہی نہ ہوئی کہ مصر سے خراسان تک سلطنت ہونے کے باوجود خود اس کے اور اس کے گورنروں کے لئے حکومت کا منشور ايسا ہو جسے اميرالمو مٔنين (ع) نے عثمان بن حنيف کے خط ميں منعکس کيا ہے۔ اس خط کا مضمون و مفہوم تقريباً يہ ہے: ”اے ابن حنيف! مجهے يہ اطلاع ملی هے کہ بصرہ کے بڑے لوگوں ميں سے ايک شخص نے تمہيں کهانے پر بلايا اور تم لپک کر پہنچ گئے۔ رنگا رنگ کهانے اور بڑے بڑے پيالے تمهارے لئے لائے گئے۔ اميد نہ تهی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن ميں فقير و نادار دهتکار ديئے گئے ہوں اور جن ميں دولت مند مدعو هوں۔ جو لقمے چباتے ہو انهيں ديکھ ليا کرو اور جس کے متعلق شبہ ہو اسے چهوڑ دو اور جس کے پاک وپاکيزہ راہ سے حاصل هونے کا يقين ہو اس ميں سے کهاؤ۔ جان لو کہ ہر مقتدی کا ايک پيشوا ہوتا ہے جس کی وہ پيروی کرتا ہے اور جس کے نورعلم سے کسب نور کرتا ہے۔ ديکهو تمهارے امام کی حالت تو يہ ہے کہ اس نے دنيا کے سازوسامان ميں سے دو بوسيدہ چادروں اور دو روٹيوں پر قناعت کرلی ہے۔ يہ تمہارے بس کی بات نہيں ہے ليکن اتنا تو کرو کہ پرهيزگاری، سعی وکوشش، پاکدامنی اور امور ميں مضبوطی سے ميرا ساتھ دو ، خدا کی قسم ميں نے تمہاری دنيا سے سونا سميٹ کر نہيں رکها ،نہ اس کے مال و متاع ميں سے انبار جمع کر رکهے ہيں ، نہ اپنے اس بوسيدہ لباس کی جگہ کوئی اور لباس تيار کيا ہے اور نہ ہی اس دنيا کی زمين سے ايک بالشت پر بهی قبضہ جمايا ہے۔“

يہاں تک کہ فرماتے هيں :”اگر ميں چاہتا تو صاف ستهرے شهد ، عمدہ گيہوں اور ريشم کے بنے ہوئے کپڑوں کو اپنے لئے مہيّا کر سکتاتها، ليکن يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ خواہشات مجھ پر غلبہ حاصل کرليں اور حرص مجهے اچهے اچهے کهانے چن لينے کی دعوت دے، جب کہ حجاز اور يمامہ ميں شايد ايسے لوگ ہوں کہ جنہيں ايک روٹی ملنے کی آس بهی نہ ہو اور نہ ہی کبهی انہيں پيٹ بهر کر کهانا نصيب ہوا ہو۔“ (نہج البلاغہ: خطوط 45)

اللہ ہم سب کو سیرت معصومین(ع) پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کیا خواتین گھر پر اعتکاف کر سکتی ہیں؟

کیا خواتین گھر پر اعتکاف کر سکتی ہیں؟

اعتکاف مسجد کے علاوہ کہیں پر بھی جائز نہیں، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ قرآن میں واضح طور پر سورہ بقرہ آیت 187 میں اس جانب اشارہ ہے۔ البتہ برصغیر میں اہلسنّت خاص طور پر احناف کے ہاں خاتون گھر پر بھی اعتکاف کرتی ہے، اس چیز کو دیکھ کر بعض شیعہ خواتین نے بھی ہم سے اس کی مشروعیت پر سوال کیا، اور بعض تو اپنے گھر میں اعتکاف کے نام پر کسی کمرے میں مقیّد بھی ہو جاتی ہیں۔

شرع میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، گھر پر عبادت تو ہو سکتی ہے لیکن اعتکاف نہیں۔ اور اعتکاف کچھ ایام تک اللہ کی رضا کی خاطر اللہ کے گھر میں محبوس ہو جانے کا نام ہے۔ رسول اللہ(ص) کے زمانے میں خواتین مساجد میں ہی اعتکاف کرتی تھیں، اگر گھر پر اعتکاف جائز ہوتا تو رسول اللہ(ص) یقینا اس کو بیان فرماتے درحالیکہ عورت کے لئے گھر کو بہتر بھی قرار دیا گیا ہے۔ نیز خود اہلسنّت کے ہاں حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے؛

لا اعتکاف إلا فی مسجد جماعة

یعنی مسجد کے علاوہ کوئی اعتکاف نہیں۔ اس روایت کو بیہقی نے نقل کیا اور البانی نے صحیح کہا۔

غالبا صرف حنفیوں کے ہاں ہی عورت کا گھر پر اعتکاف جائز ہے۔ دیگر مسالک بشمول فقہ جعفریہ میں ایسا بالکل بھی جائز نہیں۔

پس گھر پر اعتکاف مذاق کے سوا کچھ نہیں۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


حسد ایک مرض ہے

قال الإمام علی علیه السّلام : اَلحَسَدُ مَرضٌ لا یُؤسَی

غرر الحكم، ح 6818

امام علی(ع): حسد ایسا مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں

قال الإمام علی علیه السّلام : لا یَشْفی صاحِبَهُ إِلاّ بُلُوغُ أملِهِ فیمَنْ یَحْسُدُهُ

مستدرك الوسائل، ج 12، ص 22

امام علی(ع): حاسد کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک وہ اپنے محسود (ٹارگٹ) کے بارے میں اپنی آرزو تک نہ پہنچے۔

قال الإمام علی علیه السّلام : یَكْفیكَ مِنَ الْحاسِدِ أَنَّهُ یَغْتَمُّ وَقْتَ سُرُورِكَ

مستدرك الوسائل، ج 12، ص 17

امام علی(ع): حاسد کے لئے یہی بس ہے کہ وہ تمہاری خوشی اور آسائش کے مواقع پر کڑھتا رہتا ہے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی


رمضان کی ستائیسویں شب کی فضیلت

٭رمضان کی ستائیسویں شب کی فضیلت٭

رمضان کی ستائیسویں شب بھی مبارک راتوں میں سے ایک ہے۔ اس رات غسل کرنے کی تاکید وارد ہوئی ہے چنانچہ حدیث ہے؛

رويناه بإسنادنا إِلى حنان بن سدير من كتاب النهديّ، عن ابن أَبي يعفور، عن أَبي عبد اللَّه عليه السلام قال: سألته عن الغسل في شهر رمضان، فقال: اغتسل ليلة تسع عشرة، و إِحدى و عشرين، و ثلاث و عشرين، و سبع و عشرين، و تسع و عشرين

عبداللہ بن ابی یعفور امام صادق(ع) سے رمضان کے مہینے میں غسل کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو آپ ع فرماتے ہیں کہ انیسویں، اکیسویں، تئیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں شب کو غسل کرو۔

(الإقبال بالأعمال الحسنة (ط - الحديثة)، ج1، ص: 400)

اس کے علاوہ اس شب کے متعلق متعدد دعائیں نقل ہوئی ہیں جن کا ذکر یہاں طولانی ہوگا، جو پڑھنا چاہتے ہیں وہ مفاتیح الجنان میں ملاحظہ کریں۔

البتہ اس دن ہمیں ایک دعا ملتی ہے جس میں اس کے بھی لیلۃ القدر ہونے کی طرف اشارہ ہے؛

اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي فِيهِ فَضْلَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَ صَيِّرْ أُمُورِي فِيهِ مِنَ الْعُسْرِ إِلَى الْيُسْرِ، وَ اقْبَلْ مَعاذِيرِي وَ حُطَّ عَنِّي الْوِزْرَ، يا رَءُوفاً بِعِبادِهِ الصَّالِحِين

"اے اللہ مجھے اس میں لیلۃ القدر کا فضل عطا کر، اور اس میں میرے امور کو تنگی سے آسانی میں تبدیل فرما، میرے عذر کو قبول کر اور مجھ سے گناہوں کو جھاڑ دے۔ اے وہ ذات جو اپنے نیک اور شائستہ بندوں کے ساتھ مہربان ہے"۔

(الإقبال بالأعمال الحسنة (ط - الحديثة)، ج1، ص: 403)

مذکورہ دعا کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں بھی نقل کیا ہے جو جدید طبع کے مطابق جلد 98 میں درج ہے۔

اللہ ہم سب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے!

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ