جمعرات، 3 نومبر، 2016

محرّم کا مہینہ

٭محرّم کا مہینہ٭
امام رضا (عليه ‌السلام): إنَّ المُحَرَّمَ شَهرٌ كانَ أهْلُ الجاهِلِيَّةِ يُحَرِّمُونَ فِيهِ القِتالَ، فَاسْتُحِلَّت فِيهِ دِماؤُنا، وَهُتِكَتْ فِيهِ حُرْمَتُنا، وَسُبِيَ فِيهِ ذَرارِينا وَنِساؤُنا
امام رضا (عليه ‌السلام): محرّم وہ مہینہ ہے جس میں حتی کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بھی جنگ کرنا حرام سمجھتے تھے، (لیکن) اس ماہ میں ہمارے خون کو حلال سمجھا گیا، ہماری حرمت کی پامالی کی گئی، اور ہماری اولاد اور ہماری عورتوں کو قیدی بنایا گیا۔
امام رضا (عليه ‌السلام): محرّم ماهی است كه [حتّی] مردم زمان جاهليّت جنگ را در آن حرام می‌دانستند، [امّا] در آن ماه خون ما را حلال شمردند، حرمت ما را پايمال و فرزندان و زنان ما را اسير كردند
Imam Raza(as): Muharram is the month when even people of the Jāhillīyya time declared fighting unlawful, [but never less] in that month they declared shedding our blood lawful, trampled upon our honor and captured our children and women.
(بحار الأنوار، ج 44، ص 283)
اس حدیث کی سند معتبر ہے۔
سید جواد حسین رضوی


آخری جنگ (امام حسین)

٭آخری جنگ٭
جب امام حسین(ع) بالکل تنہا رہ گئے، خیمے سے وداع کر کے نکلے تو ایسی بے پناہ شجاعت دکھائی، جو مقابل آیا اسے واصل جہنم کیا۔ آپ کی شجاعت کا اعتراف دشمن نے بھی کیا، فوج یزید کا وقائع نگار حمید بن مسلم کہتا ہے؛
"اللہ کی قسم میں نے کبھی دشمنوں کے نرغے میں گھرے ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کا سارا گھرانا اس کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوا ہو، اور پھر حسین ع جیسا شجاع، ثابت قدم، مطمئن اور جری ہو۔ حالت یہ تھی کہ چاروں طرف سے پیادے ان پر حملہ کرتے تھے مگر جب حسین ع تلوار سونت کر ان پر جوابی حملہ کرتے تو وہ اس طرح بھاگ کھڑے ہوتے جس طرح بھیڑیے کے حملے کے وقت بکریاں بھاگ جاتی ہیں۔ حالانکہ ان کی تعداد تیس ہزار تھی، مگر جب امام ان پر حملہ کرتے تو ان کے سامنے سے یہ لوگ ٹڈیوں کی طرح بھاگ کڑے ہوتے۔" (لہوف، ص105)
یہ صورتحال دیکھ کر شمر ملعون نے ایک مذموم چال چلی، وہ فوج کا ایک دستہ لے کر اہل حرم کے خیموں کی طرف غارتگری کیلئے متوجہ ہوا۔ امام (ع) نے فوج اشقیاء کو مخاطب کر کے کہا؛
"اے آل ابو سفیان کے شیعوں! اگر تمہیں مذہب کا خیال اور آخرت کا خوف نہیں ہے تب بھی تم عرب ہونے کے دعویدار ہو، اپنی غیرت کا ثبوت دو۔ میں کہتا ہوں میں تم سے جنگ لڑ رہا ہوں اور تم مجھ سے۔ خواتین کا اس میں کیا قصور؟"
یہ سن کر شمر ملعون ارادے سے باز آگیا۔
لڑتے لڑتے ایک موقع ایسا بھی آیا کہ آپ فرات تک پہنچ گئے، گھوڑے کو پانی میں داخل کیا، چاہا کہ پانی پیئں، ایک ملعون حصین بن تمیم نے آپ کے تیر مارا جو حلق میں پیوست ہوا، آپ نے ہاتھ آگے بڑھا کر چلو میں خون بھرا اور آسمان کی طرف پھینکا اور فرمایا کہ اے پروردگار میں اس جفاکار قوم کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں جس نے میرا خون بہایا اور مجھے پانی پینے سے روکا۔ کسی نے کہا کہ آپ یہاں پانی پیتے ہیں ادھر آپ کے خیموں کو تاراج کیا جا رہا ہے، آپ فورا واپس آئے دیکھا کہ خیمے سالم ہیں۔
آپ دوسری مرتبہ خیمے تشریف لے گئے اور مخدرات کو صبر کی تلقین کی۔ دوبارہ میدان کارزار تشریف لے گئے اور ایسی شجاعت دکھائی کے کشتوں کے پتشے لگا دیے۔ یہ صورتحال دیکھ کر شمر نے تیر اندازوں کو تیر چلانے کا حکم دیا۔ آپ پر اتنے تیر چلائے گئے کہ جسم کے گوشے گوشے میں تیر پیوست ہو گیا۔
ایک شقی نے آپ کی پیشانی اقدس پر پتھر مارا جس کی وجہ سے چہرا لہولہان ہوا، آپ نے کرتہ کا دامن اٹھایا تاکہ خون پونچھیں، کہ اس اثناء میں ایک تین نوک والا تیر آیا اور آپ کے سینے میں پیوست ہوا۔ اسی اثنا میں ایک ملعون صالح بن وہب مزنی نے آپ کی پشت پر اس زور سے نیزہ مارا کہ آپ گھوڑے سے داہنے رخ پر گر گئے۔
آپ گرنے کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے، تھوڑا چلتے پھر گر جاتے۔ آپ کا یہ بار بار گرنا ضعف کی وجہ سے نہ تھا بلکہ وجہ یہ تھی کہ آپ چند قدم چلتے، کوئی شقی آپ کو نیزہ مارتا، کوئی تلوار اور آپ گر جاتے۔
ایک ملعون نے آپ کے دہن اقدس میں تیر مارا، ایک نے حلق میں تیر مارا، ایک نے بائیں شانے پر تلوار ایک نے دائیں شانے پر۔ سنان بن انس نخعی نے نیزہ مارا آپ منہ کے بل گر پڑے پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور حلق سے تیر کھینچا۔ اس وقت دشمنوں نے آپ کو گھیرے میں لے لیا۔
آپ کو زمین پر گرے کافی دیر ہو گئی تھی لیکن کوئی ملعون آپ کو شہید کرنے کا گناہ اپنے سر نہیں لینا چاہ رہا تھا۔ خولی بن یزید آگے بڑھا لیکن لرزہ براندام ہو کر واپس چلا گیا۔ شمر لعین خود آگے بڑھا اور گستاخانہ انداز میں آپ کے سینہ پر سوار ہوا۔ شمر مبروص تھا یعنی برص کی بیماری تھی۔ امام حسین ع نے اس ملعون کو دیکھ کر فرمایا کہ رسول اللہ(ص) نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک سفید داغ والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہلبیت(ع) کے خون میں منہ ڈال رہا ہے۔
اس لعین نے کند تلوار کی بارہ ضربات سے خامس آل عبا نواسہ رسول حضرت سید الشہداء(ع) کی گردن پیچھے سے کاٹ ڈالی۔
آپ کے باوفا گھوڑے نے آپ کے خون سے اپنی پیشانی تر کر لی، اور واپس خیمے میں پہنچا۔ گھوڑے کی ہنہناہٹ سن کر بیبیاں باہر نکلیں، دیکھا کہ گھوڑا خالی ہے اور زخمی ہے۔ یقین ہو گیا کہ امام عالی مقام(ع) شہید ہو چکے ہیں، بیبیوں نے گریہ و بکاء کیا۔ (امالی صدوق: ص98)
انا للہ وانا الیہ راجعون وسیعلم الذین ظلمو ایّ منقلب ینقلبون
سید جواد حسین رضوی


عبداللہ بن حسن(ع) کی شہادت

٭عبداللہ بن حسن(ع) کی شہادت٭
جب دشمنان خدا نے امام حسین(ع) کو آخری وقت میں گھیر لیا تو عبداللہ بن حسن(ع) جو امام حسن(ع) کے بیٹے تھے، جن کی عمر اس وقت بمشکل 10 سال بھی نہیں ہو گی، خیمے میں خواتین کے پاس سے فوج کی طرف نکلے۔
اس بچے کی پرورش امام حسین(ع) نے کی تھی، چنانچہ عبداللہ(ع) کو اپنے چچا حسین(ع) سے بے پناہ محبّت تھی۔ عبداللہ(ع) بھاگ کر امام حسین(ع) کی طرف روانہ ہوئے تو جناب زینب(س) نے چاہا کہ عبداللہ کو روکیں، اور امام حسین(ع) نے بھی آواز دے کر کہا کہ "اے بہن! اس کو روک لو
لیکن عبداللہ(ع) نے سختی سے انکار کیا اور کہا: واللہ لا افارق عمی ۔۔۔۔ "قسم بخدا میں اپنے چچا کو تنہا نہیں چھوڑوں گا"۔
اور جب ابجر بن کعب (لعین) امام حسین(ع) کی طرف تلوار لے کر نکلا تو بچے نے اس کو پکار کر کہا: "اے خبیث عورت کے بیٹے! کیا تو میرے چچا کو قتل کرے گا؟"
یہ دیکھ کر ابجر(ملون) نے عبداللہ(ع) پر حملہ کیا، عبداللہ(ع) نے ہاتھ سے تلوار کو روکنے کی کوشش کی، لیکن تلوار نے آپ کا ہاتھ کاٹ دیا اور آپ کا ہاتھ کھال سے لٹکنے لگا۔ اس پر عبداللہ(ع) نے پکار کر کہا: "ہائے میری ماں"
امام حسین(ع) نے بچے کو پکڑ کر سینے سے لگایا اور فرمایا: "اے میرے بھائی کی یادگار، اس مصیبت پر صبر کرو جو تم پر وارد ہوئی ہے اور اس کے بدلے اللہ سے بہتری کی امید رکھو، بے شک وہ تمہیں تمہارے نیک اور صالح اجداد سے ملا دے گا۔"
٭بحارالانوار؛ ج45 ص153، الارشاد؛ ص307٭
ہائے حسین(ع) کی مظلومیت اور ان مصائب پر آپ(ع) کا صبر!
الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین
افسوس امام حسین (ع) کے اس لاڈلے بھتیجے کے مصائب ہماری مجالس میں نہیں پڑھے جاتے جس کی وجہ سے برّصغیر میں مومنین اس شہید کربلا کے بارے میں نہیں جانتے۔ ہمارے اہل منبر ان ثابت شدہ مصائب کو بیان نہیں کرتے اور غیر معتبر کتب سے روایات پڑھ پڑھ کر قوم کے عقائد غیر معتبر روایات پر پختہ کر دیئے ہیں۔ واقعی مقام فکر ہے۔۔۔۔
نیز جناب قاسم ع کی شادی کے جھوٹے قصّے گڑھ کر مہندی و شادی کی رسومات عام کی ہوئی ہیں لیکن ان ثابت شدہ مستند مقاتل کو نہیں پڑھتے۔
سید جواد حسین رضوی


آئمہ اور محرم کا مہینہ


کیا ابوذر(رض) کے غلام حون عیسائی تھے؟

٭کیا ابوذر(رض) کے غلام حون عیسائی تھے؟٭
سوال) کہا جاتا ہےکہ شہداء کربلا میں سیاہ فام غلام جون عیسائی تھے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب) حضرت جون (رضی اللہ عنہ) ایک سیاہ فام افریقی غلام تھے جن کو امیرالمؤمنین امام علی(ع) نے اپنے چچا زاد بھائی فضل بن عباس بن عبدالمطلب سے خریدا اور حضرت ابوذر غفاری(رض) کو ہدیہ کیا۔ جب جناب ابوذر(رض) کو حضرت عثمان بن عفان نے ربذہ جلاوطن کیا تو یہ غلام آپ کے ہمراہ تھا۔ ابوذر(رض) کی وفات کے بعد جون مولا علی(ع) کی خدمت میں رہے، ان کے بعد امام حسن(ع) کیاور پھر امام حسین(ع) کی۔ گویا انیس سال مسلسل براہ راست امامت کے زیر سایہ رہے۔
آپ جب میدان جنگ میں لڑنے گئے تو یہ رجز پڑھی؛
کَیْفَ یَریَ الْفجَّارُ ضَرْبَ الأَسْوَدِ • بِالْمُشْرِفِی الْقاطِعِ الْمُهَنَّدِ
گنہگار ایک کالے غلام کی ضربت کیسے دیکھیں گے، جو وہ ہندوستانی تلوار سے لگائے گا۔
بِالسَّیْفِ صَلْتاً عَنْ بَنی‌ مُحَمَّدٍ • أَذُبُّ عَنْهُمْ بِاللِّسانِ وَالْیَدِ
أَرْجُو بِذاکَ الْفَوْزَ عِنْدَ الْمَوْرِدِمِنَ الالهِ الْواحِدِ الْمُوَحَّدِ
تلوار، زبان اور ہاتھ سے آل محمد(ص) کا دفاع کروں گا۔ اور اس کے ذریعے خداوند واحد و یکتا کے نزدیک کامیابی کا خواہاں ہوں۔
کربلا میں جب حضرت جون کو ضربت لگی تو مولا حسین(ع) ان کے سرہانے گئے اور ان کی شہادت کے بعد ارشاد فرما؛
اللّهم بیّض وجهه و طیّب ریحه و احشره مع محمّد و آل محمّد
اللہ تعالی ان کے چہرے کو نورانی کرے، ان کی خوشبو کو معطّر کرے اور ان کو محمد و آل محمد(ص) کے ساتھ محشور کرے۔
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ عیسائی تھے، ممکن ہے کہ غلامی سے پہلے اپنی سرزمین میں عیسائی ہوں۔ امام علی(ع) و ابوذر سمیت جلیل القدر لوگوں کی تربیت میں رہنے کا بعد ان کا عیسائی رہنا ناممکنات میں سے ہے۔ جیسا کہ عرض کیا مسلمسل انیس سال آئمہ(ع) کے زیر تربیت رہے، لہذا ان کو عیسائی کہنا آئمہ(ع) کی تربیت پر سوالیہ نشان ہوگا۔ ان کے عیسائی ہونے کا ذکر ہم نے کسی بھی معتبر مقتل یا روایت میں نہیں دیکھا، پس ایسی کوئی بات ان سے منسوب کرنا اس جلیل القدر شہید کے ساتھ ناانصافی ہے۔
افسوس کی بات ہے دیگر تحریفات عاشورا کی طرح منبروں سے حضرت جون(رضی اللہ عنہ) کو عیسائی بنانے کا رواج عام ہے۔ اکثر ملنگ حضرات بھی استدلال کرتے نظر آتے ہیں کہ ایک عیسائی کو جنت ملی، جبکہ وہ نماز و روزہ نہیں پڑھتا ہوگا، تو عزاداروں کو مودت رکھنے یا فقط عزاداری کرنے پر جنت کیوں نہیں مل سکتی؟ اور شاید یہ ساری تحریف انہی کی طرف سے ہے تاکہ اسلام کے دیگر احکامات کو خفیف قرار دے سکیں۔
اللہ ہم سب کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرے۔
والسّلام ۔۔۔۔۔ سید جواد حسین رضوی
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر میں کسی بھی قسم کی تحریف کی اجازت نہیں۔


محرّم الحرام کے حوالے سے ضروری گزارشات

٭محرّم الحرام کے حوالے سے ضروری گزارشات٭
ماہ محرّم کی ابتدا ہے اور یہ مہینہ اپنے ساتھ ان عظیم شہداء کی یاد لے آتا ہے جن کے احوال سن کر کلیجہ جلتا ہے اور ہر ذی شعور آنسو بہانے پر مجبور ہوتا ہے۔ شاید کوئی شقی و بدبخت ہی ہوگا جو مصائب سن کر گریہ نہ کرے۔ گریہ و زاری کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ فکر و تدبّر کا مہینہ ہے، امام حسین(ع) کے قیام پر غور کیا جائے اور جس مقصد کے حصول کے لئے امام حسین(ع) نے عظیم قربانیاں پیش کیں ان کو یاد رکھا جائے جن میں سرفہرست بدعات و اعمال بد کے خلاف قیام اورقرآن و سنّت کا احیاء شامل ہے، لہذا اپنی اصلاح بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں۔
اس ماہ پابندی کے ساتھ نمازیں پڑھیں، اور ممکن ہوا تو نافلہ و مستحبات کے ساتھ، ایسا نہ ہو کہ نماز قضا کر کے یا نماز پڑھنے میں سستی کر کے ہم اپنے مولا کو شرمندہ کریں۔ یاد رہے کہ بغیر نماز و اعمال صالحہ کے عزاداری کوئی فائدہ نہیں دے گی، اس لئے اس نہج پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
جہاں اس عظیم قربانی کی یاد منائی جاتی ہے وہاں اکثر ایسے اعمال بھی انجام دیئے جاتے ہیں جو روح شریعت اور مقصد قیام حسین(ع) کے منافی ہیں، یا جن کا ارتکاب مقصد خون حسین(ع) کی توہین ہے، لہذا ایسے افعال سے بچا جائے تاکہ کربلا کا پیغام ہر انسان تک پہنچایا جائے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم یاد ایسے منائیں جس سے دیگر مذاہب و ادیان کے لوگ ہمارے قریب آئیں، ایسا نہ ہو کہ ہم مجالس میں ایسی گفتگو کریں جن کی وجہ سے براہ راست کسی مسلک یا دین کی دل آزاری ہوتی ہو۔ ہماری محافل ایسی پرشکوہ ہوں اور ان افعال سے دور ہوں جن کو دیکھ کر کوئی بھی ذی عقل ہم سے متنفر ہو جائے، بالفاظ دیگر ہر انسان ہماری مجالس میں شرکت کرے، کیونکہ امام حسین ع کا پیغام صرف ایک مخصوص گروہ کیلئے نہیں تھا بلکہ پوری انسانیت کیلئے تھا۔
ان علماء و ذاکرین کو سنیں جو فضائل کے ساتھ ساتھ عقائد و فروع کے احکام سے بھی روشناس کرائیں اور صحیح شیعہ اسلام کی ترویج کریں۔ ان ذاکروں کی محافل میں شرکت نہ کریں جو فضائل کی آڑ میں مکتب اہل بیت(ع) کی توہین کرتے ہیں اور توحید باری تعالی کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اور غالیانہ تقاریر کے ذریعے آئمہ(ع) کو دلی تکلیف پہنچاتے ہیں۔
ان علماء و ذاکرین کو سنیں جو مصائب کے نام پر جھوٹی روایتیں اور فضائل کے نام پر گڑھی ہوئی روایات نہیں پڑھتے بلکہ اپنی تقریر کی بنیاد معتبر کتب اور احادیث پر رکھتے ہیں اور جو امام حسین ع کے اعلی مقاصد و اہداف سے آشنا ہیں۔
اپنی مجالس اور عبادات میں خاکسار کو ضرور یاد رکھیں۔
والسلام
سید جواد حسین رضوی


نماز کی صحیح تعلیم

٭نماز کی صحیح تعلیم٭
حماد بن عیسی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امام صادق(ع) نے مجھ سے کہا: کیا درست طریقے سے نماز پڑھ سکتے ہو؟
میں نے کہا: میرے آقا میں نے حریز کی کتاب کو یاد کیا ہے جو نماز کے بارے میں ہے۔
آپ(ع) نے فرمایا: تمہارے لئے کافی نہیں ہے، کھڑے ہو کر نماز پڑھو
حماد بن عیسی آپ(ع) کے برابر میں قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور رکوع و سجود انجام دیا۔
آپ(ع) نے فرمایا: اے حمّاد! ٹھیک سے نماز نہیں پڑھ رہے ہو۔ ایک شخص کے لئے کتنی بری بات ہے کہ وہ 60 یا 70 سال کی عمر کا ہو چکا ہو اور ایک کامل نماز انجام نہ دے سکتا ہو۔
حماّد کہتے ہیں کہ میں اپنی ہی نگاہوں میں شدید شرمندہ ہوا اور کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، مجھے نماز سکھائیں۔
امام صادق(ع) اپنے تمام قد کے ساتھ رو بقبلہ کھڑے ہوئے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے رانوں پر رکھا اور انگلیوں کو باہم ملایا۔ دونوں پیروں کو قریب لے کر آئے یہاں تک کہ ان کے درمیان فاصلہ تین انگلیوں کے برابر رہا، اور پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کیا اور نہایت خشوع اور سکون کے ساتھ "اللہ اکبر" کہا
اس کے بعد حمد اور قل ھو اللہ کو ترتیل اور خوبصورت قرات کے ساتھ پڑھا، اور پھر ایک سانس کے برابر وقفہ لیا۔ اورپھر دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابل لے گئے اور کہا "اللہ اکبر"
اس کے بعد رکوع میں چلے گئے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اس حالت میں کہ انگلیاں کھلی ہوئی تھیں اپنے دونوں گھٹنوں کا احاطہ کیا اور گھٹنوں کو پیچھے اس طرح سے کیا کہ ان کی پشت ہموار ہو گئی، اگر پانی یا کوئی روغن بہایا جاتا تو وہ ہرگز نہ گرتی کیونکہ آپ کی پشت بالکل ہموار تھی۔ گردن کو جھکا کر اپنی آنکھوں کو بند کیا اور تین بار بڑے آرام و متانت سے کہا؛
سبحان ربی العظیم وبحمدہ
اس کے بعد کھڑے ہو گئے اور جب حالت سکون میں آگئے تو فرمایا: سمع اللہ لمن حمدہ
اسی طرح کھڑے ہو کر تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابل لے گئے۔ اس کے بعد سجدے میں گئے اور اپنے ہتھیلیوں کو اس حالت میں کہ انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں اپنے چہرے کے برابر رکھا اور تین بار کہا؛
سبحان ربی الاعلی وبحمدہ
اور اپنے بدن میں کسی عضو کو نہیں ہلایا، اور آٹھ اعضاء کے ساتھ سجدہ کیا۔ دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں پیروں کے انگوٹھے، پیشانی اور ناک۔
آپ(ع) نے فرمایا: سجدہ میں ان آٹھ اعضاء میں سے سات اعضاء کا زمین پر رکھنا واجب ہے، اور یہ وہی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: وَ أَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً اور یہ اعضاء دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنوں، دونوں پیروں کے انگوٹھے، اور پیشانی ہیں۔ اور ناک کو زمین پر رکھنا سنّت ہے۔
اس کے بعد سر کو سجدہ سے اٹھایا، اور جب زمین پر حالت سکون میں بیٹھ گئے تو اللہ اکبر کہا اور اپنے بائیں طرف اس حالت میں بیٹھے کہ دائیں پیر کے اوپری حصّے کو (جس پر مسح ہوتا ہے) بائیں پیر کی پشت پر رکھا۔ اور کہا؛
استغفر اللہ ربی واتوب الیہ
اور بیٹھ کر ہی دوبارہ تکبیر کہی اور دوسرے سجدے میں گئے اور وہی پڑھا جو پہلے سجدے میں پڑھا۔ رکوع و سجود میں اپنے کسی عضو کو کسی اور عضو پر نہیں رکھا، اور اپنے ہاتھوں کو (سجدے میں) بدن سے باہر کی جانب رکھا اور کہنیوں کو زمین پر نہیں رکھا۔ اسی طرح سے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر تشہد کے لئے ایسے بیٹھے کہ ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں۔ اور جب تشہد کے بعد سلام پھیرا تو فرمایا: اے حمّاد اس طرح نماز پڑھا کرو۔
(کافی ج6 ص141 طبع دارالحدیث، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص300، تہذیب الاحکام ج2 ص81)
مذکورہ حدیث مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) نے نقل کیا ہے اور تینوں کی اسناد صحیح ہیں۔
اس حدیث سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں؛
اوّل) یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ نماز کی ہمارے آئمہ(ع) کی نگاہوں میں کتنی اہمیت تھی، ان کی نگاہ میں صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ نماز کو مکمّل طریقے سے پڑھنا ضروری ہے
دوّم) اس سے ان لوگوں کی بھی رد ہوتی ہے جو مروّجہ نماز کو نماز نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ ناموں کو یا نعروں کو یا دیگر افعال کو نماز کا رتبہ دیتے ہیں
سوّم) اگر آئمہ(ع) کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو نماز کو احسن طریقے سے ادا کر کے خدا کی خوشنودی حاصل کریں
چہارم) اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) اپنے شیعوں کی تربیت کے لئے کتنے فکرمند رہتے تھے، اس بارے میں ہمارے علماء و عمائدین کو سوچنا چاھئے۔
سید جواد حسین رضوی
نوٹ: تحریر میں کسی قسم کی تحریف کی اجازت نہیں۔


ابلاغ کا سنہرا اصول

٭ابلاغ کا سنہرا اصول٭
ہم میں ہر انسان کی عقل کا معیار باقی انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض انسان گہرے مطالب کو سمجھ لیتے ہیں اور بعض ظاہری معنی لیتے ہیں۔ انسانی عقلوں اور رویّوں کا یہ تضاد ہمیں جابجا نظر آتا ہے، اور بہت ساری جگہوں پر باہمی جدال کی ایک وجہ بھی عقول کا یکساں نہ ہونا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیشہ عقلی لحاظ سے برتر افراد کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاھئے، اگر وہ ان افراد کیلئے خیر خواہ ہیں جن کی عقلیں بہت سارے معارف و نکات کو درک نہیں کر سکتیں تو ان کے حال پر رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی عقل و فہم کے مطابق گفتگو کی جائے۔ لازمی ہے کہ عوام کو عبادت یا عمدہ اخلاق کی طرف اس انداز میں راغب کیا جائے جس طرح سے ہم بچوں کو مختلف پیرایوں سے کسی امر کی طرف راغب یا کسی بات سے متنفّر کرتے ہیں۔
مثلا ایک بچہ چاقو لے کر کھیلنے لگتا ہے اور ہم اس سے یہ نہیں کہتے کہ دیکھو یہ تیز دھار ہے جس کا استعمال تم نہیں جانتے، اور اندیشہ ہے کہ تمہاری بے احتیاطی تمہیں زخمی کر دے گی، بلکہ آپ فورا اس سے کہتے ہیں کہ چاقو پھینک دو ورنہ بلّی تمہارے کان کاٹ لے گی، یا چاقو تمہیں کاٹ لے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس پر وہ بچہ خائف ہو کر چاقو پھینک دیتا ہے حالانکہ ان میں سے کسی بات میں حقیقت نہیں ہے اور نہ اس طرح کہنے کو کوئی کذب و دروغ کہے گا۔ یا اگر بچے کو صحتمند غذا کی ترغیب دینی ہے تو ہم یہی کہتے ہیں کہ بیٹا جلدی جلدی بڑے ہو جاؤ گے اور تم اس غذا کو کھا کر شیر جیسے طاقتور ہو جاؤ گے۔
یا مثلا میرا چھ سالہ بیٹا فلکیات میں کافی دلچسپی رکھنے لگا ہے۔ منظومۂ شمسی اور دیگر فلکیاتی اجسام کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے، یہاں تک کہ بلیک ہولز سے بھی واقف ہے۔ اس کی طرف سے بعض دفعہ ایسے سوالات آتے ہیں جن کا تفصیلی جواب اس کو مزید کنفیوز کر دے گا، یا یہ باتیں اس کے فہم سے بالا ہیں، یہاں پر مجھے بچگانہ مثالیں دے کر بات سمجھانی پڑتی ہے بلکہ اس کے فہم کے مطابق واقعیت سے ہٹ کر بھی بتانا پڑتا ہے تاکہ سر دست جس حد تک اس کی سمجھ ہے اور اس کیلئے مفید ہے، اس حد تک اس کو بات سمجھ آ جائے۔
اسی طرح ہمیں عوام میں مختلف افراد کی ذہنی سطح کو دیکھ کر بات کرنی پڑے گی۔ انبیاء کرام اور ان کے برحق اوصیاء نے بھی تبلیغ کیلئے یہی فلسفہ اختیار کیا۔ چنانچہ حضرت محمد مصطفی(ص) کا ارشاد گرامی ہے؛
اِنّا مَعاشِرَ الاَنْبياءِ اُمِرْنا اَنْ نُـكَلِّمَ النّاسَ عَلى قَدْرِ عُقولِهِمْ
یعنی ہم انبیاء کو حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق گفتگو کریں۔
اس حدیث کو امام حاکم نیشابوری نے صحیح قرار دیا ہے، اور امام مسلم نے مقدمے میں اس کو نقل کیا ہے۔ شیخ کلینی نے بھی اس حدیث کو اصول کافی کی جلد اول میں کتاب العقل والجھل میں امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے، چنانچہ مروی ہے؛
مَا كَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْعِبَادَ بِكُنْهِ عَقْلِهِ قَطُّ وَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُكَلِّمَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِم
امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے کبھی لوگوں سے اپنی عقل کے مطابق گفتگو نہیں کی، اور آپ(ص) فرماتے تھے کہ ہم انبیاء کو اس بات کا حکم ہے کہ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق گفتگو کریں۔
چنانچہ انبیاء جو اپنے زمانے میں کامل ترین عقول رکھتے تھے، کبھی بھی اپنی عقل اور سمجھ بوجھ کے مطابق گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ مقابل کی ذہنی سطح کو دیکھ کر گفتگو فرماتے تھے۔ اور اسی روش کو آئمہ(ع) نے بھی جاری رکھا، ہمیں روایات میں مختلف اقوال ملتے ہیں جس کی ایک وجہ یہی ہے۔ انہوں نے اسی فلسفے کو اختیار کیا تھا اورعوام کی ذہنیت اور ان کے نارسیدہ عقول کو دیکھ کر اعمال و افعال کے عواقب و نتائج اور اسباب و علل سمجھائے تھے۔
اگر ایک جاہل کے سامنے نماز کی حقیقی روح پر لیکچر دیا جائے کہ اس میں یوں اجتماعی و روحانی و نفسیاتی فوائد مضمر ہیں تو اس کے نزدیک نہ نماز میں کوئی اہمیت باقی رہے گی اور نہ وہ اس کی پابندی کرے گا لیکن اگر اس سے صرف یہ کہہ دیا جائے کہ دیکھو یہ اللہ کا حکم ہے جو تمہیں ہر حال میں ادا کرنا ہے، اور اگر ادا نہیں کرو گے تو فلاں فلاں عواقب و عذاب کا سامنا کرنا ہوگا تو ایک خاص قسم کی کیفیت اس پر طاری ہو جائے گی، اور وہ نماز کا پابند ہو جائے گا اور آخرکار وہ نتائج از خود بغیر اس کے علم کے پیدا ہو جائیں گے جو نماز کی پابندی سے پیدا ہوجاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بعض لائق افراد جو اعلی باتوں کو درک کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان کو بات کسی اور پیرائے میں سمجھائی جائے گی۔ اگر ان کو حقائق سے آگاہ کیا جائے تو وہ اچھے اعمال کو بہترین انداز سے انجام دیں گے، اس لئے نہیں کہ ان کو کسی چیز کی لالچ یا خوف ہے، بلکہ اس لئے کہ ایسا کرنا خود اس کیلئے اور معاشرے کیلئے مفید ہے۔
العبد: سید جواد حسین رضوی


علم کے ارتقاء میں قدیم ہندوستان کا کردار

٭علم کے ارتقاء میں قدیم ہندوستان کا کردار٭
قدیم ہندوستان خاص طور پر وادی سندھ کے تہذیبی شہر موہنجو داڑو اور ہڑپہ کا ایک وسیع حصّہ علوم کی ترقی میں رہا ہے۔ ہندوستانیوں کے عراق (بابل)، مصر اور یونان سے قریبی روابط رہے اور یہ تمام تہذیبیں ایک دوسرے کے علوم سے استفادہ کرتی رہیں۔ اس بات کے ٹھوس شواہد ملتے ہیں کہ سمیری، بابلی اور فونیقی (مشرق وسطی کی قدیم اقوام) تجارتی جہاز ہندوستان آتے تھے اور وادی سندھ اور ہڑپہ سے بھی تجارتی جہاز بابل اور مصر کی بندرگاہوں تک جاتے تھے۔ بابل و نینوا کے قدیم کھنڈرات سے برآمد ہونے والی "گلی الواح" (Clay Tablets) پر وادی سندھ کی تہذیب کی مہروں کے نشانات بھی ملے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے بابل اور میسوپوٹیمیا کے لوگوں سے روابط تھے۔
مشہور یونانی فلسفی فیثاغورث نے ہندوستان کا سفر بھی کیا، اور یہاں کے علوم و فنون سے کافی استفادہ کیا۔ معروف تاریخ دان "ویل ڈیورانٹ" اپنی معروف کتاب "دی سٹوری آف سویلائزیشن" میں اس سفر کا تفصیلی حال لکھتا ہے۔ بعض مؤرخین وثوق سے کہتے ہیں کہ فیثاغورث نے ہندوستان کے میدانی علاقوں (موجودہ پنجاب) کا سفر کیا۔ اس عظیم میدان کی زرخیزی کی وجہ سے ہمیشہ غیر ملکیوں نے اس پر حملے کیے اور اس کی دولت کو لوٹا۔ اسی خطے میں ہندوستانی تہذیب کے بڑے بڑے معمار پیدا ہوئے جنہوں نے علم و گیان سے بھرپور وید لکھے۔
یہ وید 1700 ق م سے لے کر 1100 ق م میں لکھے گئے۔ ان ویدوں کو ہندوستانی رشی منی، برہمنوں، سنیاسیوں، یوگیوں اور مذہبی پجاریوں نے لکھا۔ ان میں رگ وید، یجروید، سما وید اور اتھروید شامل ہیں۔ ان ویدوں میں دیوتاؤں کے حمدیہ گیت، جادو ٹونے کے منتر، مذہبی رسوم، زمین آسمان کی تکوین، سورج چاند ستاروں کی ھیئت، گیان دھیان، تزکیہ نفس، باطنیت اور خارجیت، تناسخ، الفاظ و اعداد، روح کی ابدیت، محاسبہ اعمال، جنسیات اور علم و حکمت شامل ہیں۔
ہندوستان یا بھارت ورت میں 1600 ق م سے لے کر 400 ق م تک ریاضی، ٹرگنومیٹری، ہندسہ اور فلکیات میں بہت سی دریافتیں کی گئیں۔ ہندوستانی ریاضی دان اور ھیئت دان ایسے بھی تھے جو اپنے ریاضی میں کام کی وجہ سے مشہور ہوئے، ان میں آریا بھٹ، برہما گپتا، مہاویر، بھاسکر، مادھو، نیلا کنتھا سوامی جی سرفہرست ہیں۔
ان ریاضی دانوں کے *Decimal Numbers* اب بھی استعمال ہوتے ہیں، جس کا پہلا تاریخی ریکارڈ ہندوستان میں ہی ملتا ہے۔ صفر کے عدد کو بھی ہندوستانیوں نے ہی عدد قرار دیا، اس کے علاوہ منفی اعداد، ارتھمیٹک، الجبرا اور ٹرگنومیٹری کا قدیم حوالہ بھی ہندوستانیوں سے ہی ملتا ہے۔ دائرہ اور اس کے مرکز میں نقطہ ہندوستانیوں کی روحانیت کا بنیادی مرکز تھا۔ وہ دائرے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ انہوں نے دائرے کو 360 درجے میں تقسیم کیا اور اس کو ہندسوں کا سردار قرار دیا۔
ہندو برہمنوں نے بہت سے علوم میں مہارت حاصل کر لی تھی، ان علوم میں ھیئت، ریاضی، طب اور ستاروں کا علم شامل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ برہمنوں نے علم نجوم اور ھیئت بابل کے لوگوں سے سیکھا اور ان علوم کو بہت زیادہ ترقی یافتہ بنا دیا تھا۔ انہوں نے آسمانی برجوں کی تقسیم کر کے جدول بھی مرتب کی تھی۔ ایک ہندو عالم برہم گپت نے ایک سال کی صحیح صحیح پیمائش بھی کی تھی جس کو اس وقت زیادہ اہمیت نہ دی گئی۔ برہم گپت نے ایک سال کی پیمائش کر کے بتا دیا تھا کہ ایک سال 365 دن، چھ گھنٹے اور چھ سیکنڈ کا ہوتا ہے۔
آریا بھٹ علم ریاضی اور ھیئت میں بہت مہارت رکھتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ زمین گول ہے اور یہ خلاء میں گردش کرتی ہے۔ آریا بھٹ نے دن رات کی تبدیلی کو زمین کی گردش محوری کا نتیجہ قرار دیا۔ برہم گپت اور آریا بھٹ دونوں ریاضی میں اس قدر ماہر تھے کہ وہ کسر عشاریہ کو بھی جانتے تھے۔ ٹرگنومیٹری کی علامات (Sin, Cosin) کو بھی ہندوستانیوں نے متعارف کروایا تھا۔
فیثاغورث نے ہندوستانی ریاضی دانوں سے بہت کچھ سیکھا، ہندوستان میں 800 ق م میں معروف ریاضی دان اور فلسفی "بدھیانا" نے سولباترا میں فیثا غورث کے تھیورم کو ایک اشلوک میں واضح کر دیا تھا جس کو بعد میں فیثاغورث نے اپنے تھیورم کا نام دیا۔ دنیا آج اس تھیورم کو فیثاغورث تھیورم کے نام سے ہی جانتی ہے جبکہ یہ خالص ایک ہندوستانی فلسفی بدھیانا کی اختراع تھی۔ سولباترا میں بدھیانا نے جیومیٹری اور ریاضی کے بہت سے مسائل کو حل کیا تھا۔
فیثاغورث نے ہندوستانیوں سے عقیدہ تناسخ بھی لیا، جس کو آواگون کہتے ہیں۔ اس نظریہ کی تعلیم اس نے یونان میں اپنے شاگردوں کو بھی دی۔
سید جواد حسین رضوی


تربیت کا غلط انداز

تربیت کا غلط انداز


اسلام میں ہیجڑوں کا حکم

لنک پر کلک کرین

اسلام میں ہیجڑوں کا حکم

ظلم پر خاموش رہنے والا ظلم میں شریک ہے




٭ظلم پر خاموش رہنے والا ظلم میں شریک ہے٭
حضرت محمد مصطفی(ص) کا ارشاد گرامی ہے؛
إِنَّ النّاسَ إِذا رَأَوُا الظّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذوا عَلى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللّهُ بِعِقابٍ مِنْهُ
لوگ جب ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے باز نہ رکھیں تو اس بات کیلئے منتظر رہیں کہ اللہ ان کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (نہج الفصاحہ: ص323)
امام صادق(ع) ارشاد فرماتے ہیں؛
العامِلُ بالظُلمِ والمُعينُ لَهُ والراضِي بهِ شُرَكاءُ ثَلاثَتُهُم
ظلم کرنے والا اور اس کی مدد و معاونت کرنے والا اور (اس کے ظلم پر) راضی رہنے والا، تینوں (اس ظلم میں) شریک ہیں۔ (الکافی: ج2 ص333)
قارئین اس وقت جس طرح کشمیر میں نہتے بیگناہ مسلمانوں پر بھارتی ریاستی اہلکار ظلم کر رہے ہیں وہ قابل مذمّت ہے۔ اگر آپ اس پر خاموش رہتے ہیں اور چشم پوشی کرتے ہیں تو اس ظلم میں آپ بھی شریک ہیں۔ لہذا جس قدر ہو سکے اس ظلم کے خلاف احتجاج کریں چاہے آپ ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں، امریکہ میں ہوں یا آسٹریلیا۔ شرعی طور پر آپ کے لئے لازمی ہے کہ اس ظلم کے خلاف احتجاج کریں۔ ممکن ہو تو سڑکوں پر آئیں، اگر یہ نہ ہو سکے تو زبان و قلم سے اس کی مخالفت کریں، اور اگر یہ بھی نہ کر سکیں تو کم سے کم اس ظلم کی حمایت نہ کریں، اور کشمیری بھائیوں کے احساسات کو مجروح نہ کریں۔
خدا نہ کرے کبھی آپ بھی اپنوں کی لاشیں اٹھائیں اور اسی طرح سے لوگ آپ کو ہی مجرم قرار دیں۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ اب بھارت میں باخبر ہندو بھی اس ظلم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لہذا آپ مسلمان ہیں تو آپ پر بھی مظلوم کی حمایت فرض ہے، بلکہ آپ پر یہ ذمہ داری سنگین ہے۔
حتی الامکان ان مظالم کی مذمت کریں اور کشمیری مظلوموں کا ساتھ دیں۔
الا لعنة الله علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا أی منقلب ینقلبون
وما علینا الا البلاغ
خاکسار: سید جواد حسین رضوی


دو کتب کے بارے میں وضاحت، (کتاب سلیم بن قیس، نہج الاسرار)

٭ دو کتب کے بارے میں وضاحت ٭
سوال 1: کتاب سلیم بن قیس معتبر ہے یا نہیں؟
جواب: کتاب سلیم ابن قیس کا طریق معتبر نہیں ہے۔ اس کا طریق ضعیف تو ہے، اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اہل علم میں دو گروہ پائے جاتے ہیں، ایک گروہ نے یکسر اس کی افادیت سے انکار کیا۔ اور ایک گروہ نے اس کو قبول کیا ہے جیسے شیخ نعمانی و حرّ عاملی وغیرہ۔۔۔۔ ہم اس معاملے میں اعتدال پر رہتے ہوئے یہی کہیں گے کہ اس کا طریق معتبر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا حکم دیگر احادیث ضعیفہ کی طرح ہوگا۔ یعنی اگر یہ مسلّمات اسلام و شیعہ سے متصادم نہ ہوں یا ان کی تائید میں دیگر احادیث صحیحہ موجود ہوں تو قبول کریں گے ورنہ بصورت دیگر ہم قبول نہیں کریں گے۔ اور یہ اصول تمام اہل علم کے نزدیک پسندیدہ ہے۔
سوال2: نہج الاسرار کے بارے میں کیا موقف ہے؟ آج کل اس سے بڑے پیمانے پر غیر معتبر اور خلاف مسلّمات تشیع چیزوں کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔
جواب: نہج الاسرار باقاعدہ کوئی مستند تحریر نہیں ہے، اس کے مؤلف نے صحیح/غلط کی تمیز کے بغیر ہر بات جو مولا علی(ع) کا کلام کہی جاتی تھی اس میں نقل کر دی۔ مؤلف کے اس عظیم تسامح کی وجہ سے نہج الاسرار ایک بمب کی شکل اختیار کر گئی۔ اگر وہ سیّد رضی کی طرح تدبر سے کام لیتے ہوئے یہ کام کرتا تو شاید ایک اچھی کاوش ہو سکتی تھی۔ اردو زبان میں جب کتب اربعہ کے ترجمے موجود نہیں تھے اور عقائد پر کوئی مستند کتاب نہیں تھی، تب نہج الاسرار کی تالیف نے شیعہ معاشرے پر بہت برے اثرات مرتّب کئے۔ ان پڑھ ذاکر جن کو فارسی اور عربی نہیں آتی تھی انہوں نے نہج الاسرار اور کوکب درّی کو ہاتھوں ہاتھوں لیا اور منبروں سے ان تحریروں کو نمک مرچ لگا کر پڑھنا شروع کیا تو آج قوم کی یہ حالت ہو گئی۔
نہج الاسرار نے جس طرح سے برّصغیر کے شیعہ معاشرے کو تباہ کیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ خطبۃ البیان کی کسی عارف نے شرح کی بھی تو یہ صرف عرفاء تک ہی محدود تھا، لیکن نہج الاسرار نے یہ خطرناک بمب عوام کے ہاتھوں میں دے دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان پڑھ ذاکروں نے اس کو استعمال کیا۔ عوامی قصّہ کہانیوں کو فروغ دینے میں کوکب درّی کے اردو ترجمے اور نہج الاسرار نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج ہم اس کے نقصانات دیکھیں تو ہمیں اس کے مؤلف کا حد درجہ تسامح نظر آتا ہے اور کلّی طور پر تو کوئی بھی تصنیف سو فیصد غلط نہیں ہوتی۔ کہنے کو تو ہم کوکب درّی کو بھی کلّی طور پر غلط نہیں کہہ سکتے، نہ ہی دارالمنتظم کو کہہ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ضمیر اختر اور تونسوی کی کتب میں بھی سب کچھ غلط نہیں ہیں۔ علماء نے شیخیوں کی کتب کو کتب ضالّہ قرار دیا لیکن شیخ احمد احسائی کی تمام باتیں بھی غلط نہیں ہیں۔ تو کلّی طور پر غلط ہونا ضروری نہیں ہوتا بلکہ شرور اور نقصانات اہم ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر ہم کتب کو مجروح ٹھہراتے ہیں۔ نہج الاسرار میں بھی بہت کچھ غلط نہیں ہوگا لیکن کلّی طور پر اس کتاب نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اس لئے اس کتاب کے بارے میں معاشرے میں جانکاری بہت ضروری ہے تاکہ لوگ اس سے بچے رہیں۔ عوام چن کر اس میں سے اچھی باتیں تو نہیں پڑھتی، بلکہ جب وہ اس کتاب کو خریدیں گے تو یقینا خطبۃ البیان، خطبۂ تطنجیہ و افتخاریہ جیسے خطبے بھی پڑھیں گے جن کی نسبت امام علی(ع) سے دینا جمہور علمائے شیعہ کے نزدیک درست نہیں ہے.
خاکسار: سید جواد حسین رضوی


نماز قضائے عمری کی شرعی حیثیت


بدھ، 18 مئی، 2016

آئمہ(ع) کے ادوار میں اجتہاد کی مثال: وضو میں پیر کا مسح کیوں؟ اور پورے پیر کا مسح کیوں نہیں؟

٭آئمہ(ع) کے ادوار میں اجتہاد کی مثال: وضو میں پیر کا مسح کیوں؟ اور پورے پیر کا مسح کیوں نہیں؟٭
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع أَ لَا تُخْبِرُنِي مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ وَ قُلْتَ إِنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ وَ بَعْضِ الرِّجْلَيْنِ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ نَزَلَ بِهِ الْكِتَابُ مِنَ اللَّهِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ فَعَرَفْنَا أَنَّ الْوَجْهَ كُلَّهُ يَنْبَغِي أَنْ يُغْسَلَ ثُمَّ قَالَ- وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ ثُمَّ فَصَّلَ بَيْنَ الْكَلَامِ فَقَالَ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ فَعَرَفْنَا حِينَ قَالَ- بِرُؤُسِكُمْ أَنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ لِمَكَانِ الْبَاءِ ثُمَّ وَصَلَ الرِّجْلَيْنِ بِالرَّأْسِ كَمَا وَصَلَ الْيَدَيْنِ بِالْوَجْهِ فَقَالَ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ فَعَرَفْنَا حِينَ وَصَلَهَا بِالرَّأْسِ أَنَّ الْمَسْحَ عَلَى بَعْضِهَا ثُمَّ فَسَّرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِلنَّاسِ فَضَيَّعُوهُ ثُمَّ قَالَ- فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ فَلَمَّا وَضَعَ الْوُضُوءَ إِنْ لَمْ تَجِدُوا الْمَاءَ أَثْبَتَ بَعْضَ الْغَسْلِ مَسْحاً لِأَنَّهُ قَالَ بِوُجُوهِكُمْ ثُمَّ وَصَلَ بِهَا وَ أَيْدِيَكُمْ ثُمَّ قَالَ مِنْهُ أَيْ مِنْ ذَلِكَ التَّيَمُّمِ لِأَنَّهُ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ أَجْمَعَ لَمْ يَجْرِ عَلَى الْوَجْهِ لِأَنَّهُ يُعَلَّقُ مِنْ ذَلِكَ الصَّعِيدِ بِبَعْضِ الْكَفِّ وَ لَا يَعْلَقُ بِبَعْضِهَا ثُمَّ قَالَ ما يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ وَ الْحَرَجُ الضِّيق
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر ع سے کہا کہ آپ سر اور پیر کے مسح میں پورے سر اور پیر کا مسح ضروری نہیں سمجھتے بلکہ سر اور پیر کی ایک مقدار کو مسح کے لئے کافی سمجھتے ہیں، کیا آپ بیان کر سکتے ہیں کہ یہ حکم آپ نے کیسے اور کہاں سے بیان فرمایا؟
امام نے تبسّم فرمایا اور فرمانے لگے: "یہ وہ چیز ہے جس کی رسول اللہ ص نے تصریح کی اور کتاب خدا میں نازل ہوا۔ جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے "فاغسلو وجوھکم" یعنی اپنے چہروں کو دھو لو، اس سے ہم نے جانا کہ چہرے کو مکمّل دھونا لازمی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ہاتھ دھونے کو چہرے پر عطف کیا اور فرمایا "وایدیکم الی المرافق" یعنی اپنے ہاتھ کو کہنیوں تک دھو لو (اللہ نے ہاتھ کے دھونے کے لئے الگ فعل کا ذکر نہیں کیا بلکہ چہرے کے فعل یعنی دھونے کا حکم یہاں برقرار رکھا تو ہم نے جانا کہ مکمّل ہاتھ کا کہنیوں تک دھونا لازمی ہے)۔
اس کے بعد اللہ نے کلام کے درمیان فاصلہ دیا اور کہا "وامسحو برؤوسکم" یعنی سر کا مسح کرو۔ برؤوسکم سے ہم نے جانا کہ سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح ہے کیونکہ یہاں حرف "باء" آیا ہے۔ (باء تبعیض کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر پورے سر کے مسح کا حکم ہوتا تو "وامسحو رؤوسکم" کہا جاتا)۔ پھر دونوں پیر کو سر کے حکم سے متّصل کیا جیسے ہاتھوں کو چہرے کے ساتھ وصل کیا تھا اور کہا "وارجلکم الی الکعبین" یعنی مسح کرو پیروں کا ان کے ابھار تک۔ پھر جیسا کہ پیروں کو سر سے وصل کیا تو اس کا مطلب ہوا کہ مسح بھی پیر کے بعض حصّوں کا ہی ہوگا (جیسے سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ص نے لوگوں کو (اس آیت کی) یہی تفسیر بتائی لیکن لوگوں نے آپ کے فرمان کو ضائع کر دیا۔"
(اصول کافی: ج3 ص30، تفسیر عیاشی ج1 ص299، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص 103، علل الشرائع ج 1 ص279، تہذیب الاحکام ج1 ص61)
رجال الحدیث:
کافی میں یہ روایت ان اسناد سے نقل ہوئی ہے؛
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ
گویا اس کی دو اسناد ہوئیں؛
1) علی بن ابراھیم ---> ابراھیم بن ہاشم ---> حمّاد بن عیسی --->
حریز ---> زرارہ
2) محمد بن اسماعیل ---> فضل بن شاذان ---> حماد بن عیسی ---> حریز ---> زرارہ
ان دونوں اسناد کے تمام روات بالاتفاق ثقہ ہیں۔
من لا یحضرہ الفقیہ میں زرارہ سے نقل ہوئی، شیخ صدوق نے مشیخہ میں اپنا طریق زرارہ تک یوں نقل کیا ہے؛
شیخ صدوق –> ابیہ (علی ابن بابویہ قمّی) –> عبداللہ ابن جعفر حمیری –> محمد بن عیسی بن عبید، و حسن بن ظریف و علی ابن اسماعیل بن عیسی –> حماد بن عیسی –> حریز بن عبداللہ –> زرارہ
اس روایت میں شیخ صدوق کے والد، عبداللہ ابن جعفر حمیری، محمد بن عیسی بن عبید، حماد بن عیسی و حریز بن عبداللہ اور زرادہ ثقہ ہیں۔
شیخ صدوق نے علل الشرائع میں اسی روایت کو اس سند کے ساتھ بھی نقل کیا ہے؛
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة
اس سند میں بھی تمام راوی ثقہ ہیں۔
شیخ طوسی نے اس روایت کو کلینی سے نقل کیا اور کلینی سے آگے اس کی سند وہی ہے جو کافی میں تھی۔ اور شیخ طوسی کا اپنا طریق کلینی تک ثقات پر مشتمل ہے۔ تہذیب الاحکام میں اس سند کے ساتھ نقل ہوئی؛
مَا أَخْبَرَنَا بِهِ الشَّيْخُ أَيَّدَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة
شیخ طوسی کو اس روایت کا اجازہ شیخ مفید نے دیا، ان کو مشہور محدّث ابن قولویہ نے اور انہوں نے کلینی سے نقل کیا۔ یہ سب اجلاّت ثقات ہیں، کلینی سے آگے سند وہی ہے جو اصول کافی میں نقل ہوئی۔
درایۃ الحدیث:
جیسا کہ اوپر وارد ہوا کہ شیخ کلینی نے دو اسناد سے اس روایت کو نقل کیا اور دونوں صحیح کے درجے پر ہیں۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ صدوق کا زرارہ تک طریق بھی صحیح ہے۔ علل الشرائع میں بھی اس کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں اور روایت صحیح ہے۔ تہذیب الاحکام میں بھی اس کی سند صحمح ٹھہرے گی۔ دیکھا جائے تو یہ روایت کثرت طرق، کثرت نقل اور مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) کے اعتبار کی وجہ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر ہے۔
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مشایخ نے حمّاد بن عیسی یا حریز بن عبداللہ سجستانی کی کتاب سے اٹھایا ہے، جو یقینا ان کے پاس موجود ہوگی۔ اس زمانے میں حدیث کی کتب کو مشایخ کے پاس قرات کیا جاتا تھا یا جس کی کتاب تھی وہ اپنے شاگردوں کو املا کرتا تھا۔
فوائد الحدیث:
اس حدیث سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں؛
1) وضو کا شیعہ طریقہ قرآن سے ثابت ہے
2) سوال پوچھنا یا فتوی کا ماخذ پوچھنا بالکل بھی غلط نہیں بلکہ ذہنی بالیدگی کا ثبوت ہے۔ زرارہ جیسے جلیل القدر اصحاب آئمہ ع سے مختلف احکامات کی علّتیں یا ان کا ماخذ پوچھتے تھے، لیکن کبھی امام نے نہیں ٹوکا کہ تمہارا کام آنکھ بند کر کے عمل کرنا ہے۔
3) ظاہر قرآن حجت ہیں
4) یہ حدیث اجتہاد کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ امام ع گویا بتا رہے ہیں کہ ہمیں کس طرح سے قرآن و سنّت سے استنباط کرنا ہے۔ امام خمینی(رض) آئمہ(ع) کے دور میں اجتہاد کے وجود پر لکھتے ہیں؛
"ان دلائل میں وہ روایات ہیں جو کتاب اللہ سے حکم شرعی کے استنباط کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیسے زرارہ کی روایت ۔ غور کرو کہ امام کس طرح سے زرارہ کو کتاب اللہ سے استنباط کا طریقہ سکھا رہے ہیں۔"
(الرّسائل: ج2 ص127)
شیخ حرّ عاملی اس روایت کو اجتہاد سکھانے پر واضح دلیل سمجھتے ہیں۔ آپ "الفصول المھمّہ فی اصول الائمہ" میں اصول فقہ کے باب میں اس روایت کو اس عنوان سے لاتے ہیں "ان الباء تاتی للتبعیض کآیۃ الوضوء والتیمم"۔
دکتر ابوالقاسم گرجی اس روایت کو ان روایات میں شمار کرتے ہیں جو صدر اسلام میں اجتہاد اور اصول فقہ کے وجود پر دلالت کرتے ہیں (تحوّل علم اصول، ص19)
ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ یہ روایت زرارہ کے ضعف ایمان اور بے ادبی پر دلالت کرتی ہے، تو اس کا جواب شیخ بہائی نے مشرق الشمسین میں دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ بے ادبی شمار نہیں ہوں گے اور نہ ضعف اعتقاد ہے، بلکہ زرارہ چونکہ اہل سنّت کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کرتے تھے اور وہ ہر بات کی دلیل پوچھتے تھے اس لئے زرارہ امام باقر(ع) سے رہنمائی کے طالب ہوئے۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: سید جواد رضوی

کیا حضور(ص) کی شادی پہلے سے حضرت آسیہ (زوجۂ فرعون) کے ساتھ ہو چکی ہے

٭کیا حضور(ص) کی شادی پہلے سے حضرت آسیہ (زوجۂ فرعون) کے ساتھ ہو چکی ہے٭
سوال) جنید جمشید صاحب اپنی ایک ویڈیو میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت خدیجہ (س) کی وفات ہونے لگی تو رسول اللہ نے فرمایا خدیجہ جب جنت میں جاؤ تو اپنی سوکن کو میرا سلام کہنا،،،حضرت خدیجہ نے کہا یا رسول اللہ میری تو کوئی سوکن نہیں،،آقاﷺ نے فرمایا ، تجھ سے پہلے اللہ نے میرا نکاح آسیہ(فرعون کی بیوی) سے کر دیا تھا۔ کیا یہ حدیث درست ہے؟
جواب) ان روایات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کچھ کتب اہلسنت جیسے معجم طبرانی و تاریخ دمشق وغیرہ میں اس طرح کی روایات ملتی ہیں جن میں یہی بات درج ہے کہ اللہ تعالی نے پہلے سے ہی جناب مریم و آسیہ کا نکاح حضرت رسول اکرم(ص) سے طے کر رکھا ہے، یا جنت میں ان کی باہم شادیاں کرے گا۔ لیکن سب روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، جبکہ شیعہ منابع میں ایسی کوئی روایت ہمیں ملی ہی نہیں البتہ علامہ مجلسی نے اہلسنّت منابع سے حضرت خدیجہ س کی وفات کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول ص نے ان سے فرمایا کہ جنّت میں اللہ تعالی تمہیں اور مریم اور آسیہ کو میری ازواج میں سے قرار دے گا۔ لیکن اس روایت کی بھی کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ یہ ضعیف و مقطوع اسناد کے ساتھ منقول ہے۔
لہذا ایسی بات پر یقین رکھنا اور قطعی طور پر رسول اللہ(ص) سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ یہ بات مقام رسالت کے بھی منافی ہے اور اس طرح کی ضعیف روایت نقل کرنے سے پہلے آنجناب(ص) کی شخصیت کو مدّنظر رکھنا چاھئے، بعید نہیں کہ مذکورہ روایت گڑھی ہوئی ہو، کیونکہ سند اور متن دونوں اس کے عدم صدور پر دلالت کرتے ہیں۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
العبد: سید جواد رضوی


بغیر تصدیق سوشل میڈیا یا ایس ایم ایس پر حدیث شیئر کرنا


*بغیر تصدیق سوشل میڈیا یا ایس ایم ایس پر حدیث شیئر کرنا*
سوال: آجکل ایس ایم ایس یا فیس بک پر بغیر ریفرنس احادیث گردش کرتی ہیں اور کچھ انتہائی مقبول بھی ہو چکی ہیں، ان کو آگے فارورڈ کرنے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: امام باقر(ع) کا ارشاد گرامی ہے: مَنْ دَانَ اللَّهَ بِغَيْرِ سَمَاعٍ عَنْ صَادِقٍ أَلْزَمَهُ اللَّهُ الْبَتَّةَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة
امام باقر(ع): جو شخص دین الہی میں کچھ شامل کرے کسی صادق اور سچّے آدمی سے سنے بغیر، اللہ اس شخص کو قیامت والے دن تک حیرت و گمراہی میں مبتلا کرے۔
(بصائر الدرجات: ج1 ص14، الکافی: ج1 ص377)
یہ روایت جابر بن یزید جعفی نے امام باقر(ع) سے نقل کی ہے اور کتاب بصائر الدرجات میں مذکور ہے۔ شیخ کلینی نے کم و بیش انہی الفاظ کے ساتھ مختلف سند کے ساتھ امام صادق(ع) سے نقل کی ہے۔ نیز شیخ نعمانی نے بھی ایک الگ سند سے امام صادق(ع) سے کم و بیش انہی الفاظ میں یہ حدیث نقل کی ہے۔
آج کل ایس ایم ایس یا فیس بک پر آئمہ طاھرین(ع) سے منسوب جعلی احادیث بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جن کے ریفرنس اکثر اوقات جعلی ہوتے ہیں۔ بعض حالات میں تو کوئی ریفرنس یا حوالہ ہی نہیں ہوتا۔
برائے مہربای خوف خدا کریں اور آئمہ(ع) پر جھوٹ باندھنے کے بجائے یا ان سے منسوب کوئی ایس ایم ایس پھیلانے سے پہلے حوالہ کسی بھی مستند عالم سے چیک کرا لیں۔ اور اگر کوئی حوالہ نہیں ہے تو اس کو فارورڈ کرنے سے اجتناب کریں۔ اکثر لوگ نادانستہ طور پر اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یاد رھے کہ معصومین(ع) پر جھوٹ
باندھنا یا ان سے منسوب جھوٹی باتیں پھیلانا عظیم گناہ ہے۔
خاکسار: سید جواد رضوی







منگل، 3 مئی، 2016

ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت


٭ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت٭
جب بھی معاشرے میں مغربی یلغار کے تحت کوئی نئی چیز آتی ہے تو طبیعی ہے کہ اس کی مخالفت ہوگی۔ لیکن چند ہی عرصے کے بعد وہ شئے قابل قبول ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب برصغیر میں لاؤڈ اسپیکر آيا تو علماء میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا لاؤڈ اسپیکر پر اذان جائز ہے یا نہیں، بہت سے علماء نے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کو حرام قرار دیا۔ لیکن آج دیکھیں تو مولوی حضرات کا لاؤڈ اسپیکر کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔
ایک عرصے تک تصاویر یا موویز بنوانے کو حرام کہا جاتا تھا اور اس سلسلے میں حد درجہ مبالغہ آرائی کی جاتی تھی کہ یہ خدا کی تخلیق میں دخل اندازی کے برابر ہے۔ دعوت اسلامی کے الیاس قادری صاحب بھی تصاویر اور موویز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، آج سے دس پندرہ سال پہلے ان کو کسی نے بھی تصویر میں نہیں دیکھا تھا، آج مدنی چینل پر ان کا رخ انور ہر وقت جلوہ گر رہتا ہے۔ لال مسجد کے خطیب صاحب جب ٹی وی پر آتے تھے تو ان کا ہیولا دکھایا جاتا تھا یا پیچھے سے ان کی پیٹھ دکھائی جاتی تھی۔ آج مولوی صاحب اسلام کی سربلندی کے لئے ٹی وی چینلز پر ذوق و شوق سے تشریف لاتے ہیں۔
ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ بلتستان میں کافی عرصہ پہلے فٹ بال کھیلنے کو حرام سمجھا جاتا تھا، کہا جاتا تھا کہ یہ کھیل سب سے پہلے یزید کی فوج نے کھیلا جب شہدائے کربلا کے سروں کی بے احترامی کی گئی اور فٹ بال کھیلا گیا۔ لیکن اب یہ خیال شاید ہی کسی کے ذہن میں آتا ہو۔
جب مغربی ثقافتی یلغار کی وجہ سے معاشرے میں والدین کے مخصوص ایام آئے تو پھر سے اس کی مخالفت ہوئی۔ یہ مخالفت کہیں کہیں اب بھی قائم ہے، کہا جاتا ہے کہ اسلام میں والدین کے لئے ایک دن مقرر نہیں بلکہ سارا سال ان کی خدمت کرنی چاھئے۔ یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے، لیکن دوسرے نقطۂ نگاہ سے دیکھیں تو بیشک ہمیں والدین کی عزّت اور ان سے محبت سارا سال کرنی چاھئے لیکن ایک دن سب اپنے والدین کے لئے محبت کا اظہار کریں جو ان کے لئے بے انتہاء خوشی و مسرّت کا باعث ہوگا، اور ان کی خدمات و زحمات کو خراج تحسین کا ایک انداز بھی ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس بات کو درک کیا کہ مغربی اثرات کے سامنے پل باندھنے کا فائدہ نہیں، انہوں نے اس چیز کو ترمیمات کے ساتھ معاشرے میں رائج کیا، اس طرح سے کہ وہاں امام علی ع کی یوم ولادت کو فادر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے اور جناب زھرا(س) کی ولادت کو مدر ڈے کے طور پر۔ یہ ایک خوش آیند قدم ہے کہ اس طرح اسلامی ایام کا التزام بھی ہوگا اور جدید تقاضے بھی پورے ہوں گے، اور ایک مخصوص دن والدین کے ساتھ تجدید محبت ان کی زحمات کو خراج تحسین پہنچانے کے لئے مؤثر بھی ثابت ہوگا، گو کہ اسلامی احکامات کے تحت سارا سال بھی والدین کی خدمت کی جائے۔
اسی طرح جب ہمارے ہاں ویلنٹائن ڈے کی آمد ہوئی تو حسب معمول اسی طرح سے شدومد کے ساتھ اس کی مخالفت کی گئی، اور اس کو حرام کہا گیا۔ بعض پوسٹس میں اس کو یہودیوں کا دن کہا گیا اور انتہائی غیر مہذبانہ تعبیریں بھی استعمال کی گئیں۔ ہمارے لوگ گمان کرتے ہیں کہ اس طرح سختی سے کام لے کر شاید اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح سختی سے مقابلہ کسی نتیجے کا حامل نہیں ہوتا۔ بلاوجہ مذہبی طبقات اور معاشرے کے روشن خیال افراد میں دوری پیدا ہو جاتی ہے، جس کے دیگر منفی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
لہذا اس کو حرام یا یہودی سازش کہہ کر کنارہ کش ہونے میں فائدہ نہیں، اس مسئلے کو شریعت کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں دیکھنا چاھئے۔ اسلام کے اصول ایک خاص وقت اور معاشرے کے لئے نہیں بلکہ اس کے اصول آفاقی ہیں، یعنی ہر زمانے میں اسلام کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر نئی چیز کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ویلنٹائن کو دیکھیں تو اس دن اظہار محبت کے نام پر ناجائز اختلاط کی تشویق بھی ہے اور ساتھ ہی عزیز و مشروع رشتوں کے درمیان اظہار محبت بھی ہے۔ اس دن میاں بیوی اور منگیتر حضرات بھی تحفے تحائف اور اظہار محبت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور کئی جگہوں پر دیگر رشتوں جیسے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے درمیان بھی یہ سلسلہ نظر آتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کا تصور یہ ہے کہ ہر شخص ان رشتوں کو خراج تحسین پیش کرے جو اس کی زندگی میں اہمیت کی حامل ہیں، گو کہ اس میں غلط طور طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں، جیسے عید ایک اسلامی تہوار ہے لیکن اس دن بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو غلط ہیں لیکن ان غلط کاموں سے عید کی قداست پر حرف نہیں پڑتا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے اس کے جائز پہلوؤں کو دیکھا جائے اور ناجائز طریقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امام علی(ع) و جناب فاطمہ زھرا(س) کی شادی والے دن اظہار محبت کے جائز پہلوؤں کو اپنایا جائے، تاکہ مولا علی(ع) و جناب زھرا(ع) کی ذوات مقدسہ سے کامیاب ازدواجی زندگي گزارنے کا درس ملے۔
چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ مطلق کسی شئے کو حرام قرار دے کر کنارہ کش ہو جانا دیرپا نہیں ہے، اگر اسی وقت ہی سمجھداری سے حکم لگایا جائے تو بہت سارے مسائل کا حل مل جائے گا۔ اگر مذہب کی غیر عقلانی تشریحات ہوں اور نوجوانوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ اسلام میں سختی ہی سختی ہے، اور محض کسی دن جائز طریقے سے بھی اظہار محبت حرام ٹھہرتا ہے تو یہ بات ان کے اذہان میں مثبت اثر نہیں چھوڑتا۔ لہذا ویلنٹائن ڈے ضرور منائیں لیکن ان رشتوں کے ساتھ جن کو اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دیا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ

خاکسار: سید جواد رضوی

کیا اہل بدعت کو گالیاں دینا اور تہمتیں لگانا جائز ہے؟

٭کیا اہل بدعت کو گالیاں دینا اور تہمتیں لگانا جائز ہے؟٭
سوال: بعض روایات میں ہے کہ جو شخص بدعت کرے اس کو خوب گالیاں دی جائیں اور تہمت لگائی جائے، ان روایات کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟
جواب: نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا؛
رسول الله(ص): إذا رأيتم أهل الريب والبدع من بعدي فأظهروا البراءة منهم وأكثروا من سبهم والقول فيهم والوقيعة، وباهتوهم كي لا يطمعوا في الفساد في الإسلام ويحذرهم الناس ولا يتعلمون من بدعهم ، يكتب الله لكم بذلك الحسنات ويرفع لكم به الدرجات في الآخرة
" اگر میرے بعد شک اور بدعت کرنے والوں کو پاؤ گے تو ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرو۔ ان میں سے اکثر کو ذلیل و خوار کرو، ان کی بد گوئی کرو( گالیاں دو)، اور انھیں برہان و دلیل سے خاموش کردو,اسلام میں فساد پھیلانے کی لالچ نہ کرسکیں اور نتیجہ کے طور پر لوگ ان سے دوری اختیاری کریں اور ان کی بدعتوں سے آلودہ نہ ہو جائیں اور خدا وند متعال اس کام کے بدلے میں آپ کے لئے ثواب لکھے گا اور آخرت میں آپ کے درجات کو بلند کرے گا۔"
شیخ کلینی نے یہ روایت اس سند کے ساتھ نقل کی ہے؛
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ سِرْحَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع
اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے، لیکن روایت کے بعض الفاظ کے متعلق اشکال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس میں کثرت سے گالیاں دینے کا حکم ہے، جبکہ قرآنی آیات اور دیگر روایات میں سب و شتم و گالم گلوچ سے منع کیا گيا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ مکارم شیرازی اس روایت کو معتبر نہیں سمجھتے۔
اس روایت میں جس لفظ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے وہ "باھتموھم" ہے جس سے اکثر افراد یہ سمجھے کہ یہاں تہمت و بہتان لگانے کا حکم ہے۔ فیض کاشانی و شہید مطہری نے اس کو حق و براہین سے مبہوت کرنے کے زمرے میں لیا ہے۔ یعنی اہل بدعت و ضلال کو جب دیکھو تو ان کو براہین و دلائل سے مبہوت و لاجواب کر دو جیسا کہ حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کو کیا "فبھت الذی کفر"۔۔۔۔۔ یعنی کفر کرنے والا (ابراھیم ع کے دلائل سن کر) مبہوت رہ گیا
اس روایت میں کلام کافی ہے، اکثر علماء نے تصریح کی ہے کہ اہل بدعت بھی ہوں، جھوٹ اور تہمت و بہتان کی اجازت نہیں کیونکہ یہ شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ ان کو ذلیل کرنے سے مراد ان کو دلائل دے کر ذلیل کرنا ہے، نہ کہ جھوٹ بول کر اور ناروا تہمتیں لگا کر، جو یقینا غیر مہذبانہ عمل ہے۔

العبد: سید جواد رضوی