جمعرات، 12 مارچ، 2015

مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟

٭مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟٭

أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ أَكْرَمَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ بِكَلِمَةٍ يُلْطِفُهُ بِهَا أَوْ قَضَى لَهُ حَاجَةً أَوْ فَرَّجَ عَنْهُ كُرْبَةً لَمْ تَزَلِ الرَّحْمَةُ ظِلًّا عَلَيْهِ مَمْدُوداً مَا كَانَ فِي ذَلِكَ مِنَ النَّظَرِ فِي حَاجَتِهِ ثُمَّ قَالَ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ لِمَ سُمِّيَ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً لِإِيمَانِهِ النَّاسَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَ أَمْوَالِهِمْ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ مَنِ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ [مِنْ] يَدِهِ وَ لِسَانِهِ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ بِالْمُهَاجِرِ مَنْ هَجَرَ السَّيِّئَاتِ وَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ مَنْ دَفَعَ مُؤْمِناً دَفْعَةً لِيُذِلَّهُ بِهَا أَوْ لَطَمَهُ لَطْمَةً أَوْ أَتَى إِلَيْهِ أَمْراً يَكْرَهُهُ لَعَنَتْهُ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُرْضِيَهُ مِنْ حَقِّهِ وَ يَتُوبَ وَ يَسْتَغْفِرَ فَإِيَّاكُمْ وَ الْعَجَلَةَ إِلَى أَحَدٍ فَلَعَلَّهُ مُؤْمِنٌ وَ أَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ وَ عَلَيْكُمْ بِالْأَنَاةِ وَ اللِّينِ وَ التَّسَرُّعِ مِنْ سِلَاحِ الشَّيَاطِينِ وَ مَا مِنْ شَيْءٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَنَاةٍ وَ اللِّين

امام جعفر صادق(ع) سے منقول ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "جو شخص اپنے مومن بھائی کی ایک کلمے سے بھی تکریم کرے، یا اس کی کوئی حاجت پوری کرے، یا اس سے کسی کرب کو دور کرے تو وہ شخص ہمیشہ رحمت خداوندی کے سایے میں ہوتا ہے اور جب تک وہ اس کی تکریم یا اس کے حاجات کی طرف متوجہ ہوتا ہے

پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟

کیونکہ لوگ اپنے نفس اور اموال کے حوالے سے اس پر یقین و اطمینان رکھتے ہیں۔

کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مسلمان کو مسلمان کیوں کہا جاتا ہے؟

کیونکہ لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے سالم رہتے ہیں (یعنی و لوگوں کی دلآزاری نہیں کرتا)۔

کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مہاجر کو مہاجر کیوں کہتے ہیں؟

کیونکہ وہ برائیوں اور گناہوں سے ہجرت کرتا ہے اور جو چیز اللہ نے اس پر حرام کی ہے دوری اختیار کرتا ہے۔

اور جو شخص کسی مومن کو رد کرے تاکہ اس کے ذریعے اس کو ذلیل و خوار کرے یا اس کو تھپڑ مارے یا اس پر کوئی مکروہ (و نقصاندہ) امر وارد کرے تو فرشتے اس شخص پر لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس مومن کو خوشنود اور خود توبہ و استغفار نہ کرے۔

اس کے بعد فرمایا: کسی بھی شخص کے متعلق ہوشیار رہو، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مومن ہو اور تمہیں پتہ نہ ہو۔

اور تم پر لازم ہے کہ نرمی اور آسانی کو اختیار کرو اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے فرار کرو، کیونکہ اللہ کے نزدیک نرمی اور آسانی سے زیادہ محبوب کوئی شئے نہیں ہے۔"

(علل الشرائع: ج2 ص523، باب نمبر 300)

رجال و درایۃ الحدیث:

اس حدیث کو شیخ صدوق نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔ ان کے والد ابن بابویہ قمّی، عبداللہ بن جعفر اور ہارون بن مسلم (رضی اللہ عنھم) ثقہ ہیں۔ جبکہ مسعدہ بن صدقہ کو شیخ طوسی نے سنّی کہا ہے اور شیخ کشی نے بتری۔ شیخ نجاشی نے ان کی کتب کا ذکر کیا ہے جن کو ہارون بن مسلم روایت کرتے ہیں۔ البتہ ان کی مذمّت بھی کہیں وارد نہیں ہوئی ہے۔ آقا وحید بہبہانی فرماتے ہیں کہ احادیث میں تتبّع سے معلوم ہوتا ہے کہ مسعدہ بن صدقہ کی روایات جمیل بن دراج و حریز بن عبداللہ جیسے ثقات کی طرح بہترین متن کی حامل ہیں۔

فوائد الحدیث:

آجکل ایک دوسرے کو مومن کہنے کا عام رواج چل پڑا ہے، یہ حدیث احتساب کی دعوت دیتی ہے کہ کیا ہم خود کو مومن کہلوا سکتے ہیں؟ معصوم کا یہ فرمانا کہ مومن کو مومن اس لئے کہا گیا کہ دوسرے لوگ اس سے امان میں رہیں یعنی وہ کسی کو گزند نہ پہنچائے، اور لوگوں کو اس سے اطمینان ہو۔ پس کیا محض نعرے لگانا ایمان کی دلیل ہے؟ یا اخلاق و کردار کا احسن ہونا؟

جس کا اخلاق احسن ہو وہ اکثر لوگوں کی طرف سے مورد آزار ٹھہرا رہتا ہے کیونکہ لوگ اس کے عمدہ اخلاق کو منفی سوچ کی وجہ سے منفی لے جاتے ہیں، تبھی مومن اکثر بلا اور آزمائشوں میں مبتلا رہتا ہے۔

اور اگر کوئی واقعی مومن ہے تو اس کا لوگوں پر حق بھی عظیم ہوگا، اس کو آزار پہنچانا اور تکلیف دینا ناقابل معافی جرم ٹھہرتا ہے جس کو وہی مومن ہی معاف کر سکتا ہے۔ نیز معصوم ہمیں متنبّہ کر گئے ہیں کہ لوگوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کسی پر بھی ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ کسی بھی برائی کے جواب میں حد سے آگے بڑھو کہ ظلم کرنے لگ جاؤ، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مومن ہو اور اللہ کے بندے کو نقصان پہنچا بیٹھیں یا دلآزاری کریں۔

بیشک اللہ آسانی اور نرمی کو پسند کرتا ہے۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


ہفتہ، 7 مارچ، 2015

نماز جماعت کی اہمیت

٭٭نماز جماعت کی اہمیت٭٭
آئیے ہم یہاں پر کچھ احادیث نماز جماعت کی اہمیت کے پیش نظر پیش کرتے ہیں؛
1) مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يُجِبْهُ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ فَلَا صَلَاةَ لَه
امام باقر(ع): "امیر المؤمنین ع نے فرمایا کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور پھر کسی عذر کے بغیر لبیک نہ کہے (یعنی جماعت میں حاضر نہ ہو) تو اس کی نماز نہیں ہے۔"
(الکافی: ج3 ص372، تہذیب الاحکام: ج3 ص24، وسائل الشیعہ: ج8 ص291)
مذکورہ حدیث کی دو اسناد ہیں، اور دونوں میں جلیل القدر ثقات موجود ہیں۔ پس درایت کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح اعلائی کے مرتبے پر ہے۔
2) مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الصَّلَاةُ فِي جَمَاعَةٍ تَفْضُلُ عَلَى كُلِّ صَلَاةِ الْفَرْدِ بِأَرْبَعٍ وَ عِشْرِينَ دَرَجَةً تَكُونُ خَمْساً وَ عِشْرِينَ صَلَاة
امام صادق(ع): "جماعت میں نماز تمام فرادی نمازوں سے چوبیس گنا افضل ہے، یعنی 25 نمازوں کے برابر درجہ ہے۔"
(تہذیب الاحکام: ج ص25، وسائل الشیعہ: ج8 ص285)
اس حدیث کے بھی تمام راوی ثقہ ہیں، پس یہ روایت بھی صحیح کے درجے پر ہے۔ نماز جماعت تب فرادی نماز سے چوبیس گنا افضل ہے جب ایک امام اور ایک ماموم ہوں، جتنے مقتدی/ ماموم بڑھیں گے اتنا ہی ثواب میں اضافہ ہوگا۔ بلکہ شہید ثانی(رض) شرح لمعہ میں فرماتے ہیں کہ مذکورہ ثواب اس صورت میں ہے جب امام غیر عالم ہوگا، اگر وہ (صحیح معنوں میں) عالم ہوگا تو نماز جماعت کا ثواب بڑھ جائے گا اور اس کا درجہ ہزار فرادی نمازوں کے برابر ہوگا۔ اور جیسے جیسے ماموم بڑھیں گے ثواب میں اضافہ ہوگا، اسی طرح دیگر عوامل کے سبب اس ثواب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مثلا اگر یہ جماعت بازار کی مسجد میں منعقد ہو تو ثواب میں اضافہ ہوگا، اگر محلّے کی مسجد میں ہو مزید اضافہ ہوگا، شہر کی جامع مسجد میں ہو تو اس میں اور اضافہ ہوگا۔ اسی طرح مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد کوفہ اور آئمہ(ع) کے روضوں کی مساجد میں یہ ثواب بیشتر ہوتا چلا جائے گا۔
3) قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيَهُمُّ بِعَذَابِ أَهْلِ الْأَرْضِ جَمِيعاً حَتَّى لَا يُرِيدَ أَنْ يُحَاشِيَ مِنْهُمْ أَحَداً إِذَا عَمِلُوا بِالْمَعَاصِي وَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ فَإِذَا نَظَرَ إِلَى الشِّيبِ نَاقِلِي أَقْدَامِهِمْ إِلَى الصَّلَوَاتِ وَ الْوِلْدَانِ يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ رَحِمَهُمْ وَ أَخَّرَ عَنْهُمْ ذَلِك
امام علی(ع): "اللہ تعالی جب ارادہ کرتا ہے کہ اہل زمین کو عذاب کرے اور کسی ایک آدمی کو بھی ان کی برائی اور گناہوں کی وجہ سے نہ چھوڑے، لیکن جب دیکھتا ہے کہ بوڑھے اپنے قدم نماز (جماعت) کی طرف اٹھا رہے ہیں اور چھوٹے بچے قرآن سیکھ رہے ہیں، تو اللہ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب کو مؤخر کر دیتا ہے۔"
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ص239، علل الشرائع: ج2 ص521)
4) عَنِ النَّبِيِّ ص مَنْ صَلَّى أَرْبَعِينَ يَوْماً فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى كُتِبَ لَهُ بَرَاءَتَانِ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَ بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاق
نبی کریم(ص): "جو شخص چالیس دن جماعت کو تکبیرۃ الاولی کے ساتھ پڑھے تو اس کے لئے دو چیزوں کی برائت (امان) لکھ دی جاتی ہے، ایک جہنّم سے برائت اور دوسرا منافقت سے برائت۔"
(بحارالانوار: ج85 ص4، مستدرک الوسائل: ج46ص448)
تکبیرۃ الاولی سے مراد نماز کی پہلی تکبیر ہے۔ احادیث میں جماعت کو پڑھنے کا ثواب موجود ہے لیکن اس جماعت کو بہترین کہا گیا ہے جس میں ماموم تکبیرۃ الاولی کو درک کرے یعنی امام جماعت کی پہلی تکبیر میں موجود ہو۔
تمام مؤمنین سے گزارش ہے کہ خاکسار کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


شیطان نیک لوگوں کو کیسے ورغلاتا ہے؟

٭شیطان نیک لوگوں کو کیسے ورغلاتا ہے؟٭
"اگر آپ متقی اور دل میں خوف خدا رکھنے والے ہیں تو کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کا نفس آپ کو زنا یا کسی کے قتل پر فورا آمادہ کرے یا جس کے اندر بھی شرافت اور طہارت نفس ہے اس کو چوری یا ڈکیتی پر آمادہ کر دے۔
اسی طرح ابتدائے امر میں یہ بھی ممکن نہیں کہ شیطان تم سے کہے اپنے عقیدہ و عمل میں خدا پر احسان چڑھاؤ یا اپنے آپ کو محبین و مقرّبین میں شمار کو، بلکہ وہ تو شروع میں پست طریقے سے تمہارے دل میں وسوسہ پیدا کرنا شروع کرے گا اور پہلے تم کو مستحبات و وظائف و اذکار کی پابندی پر سختی سے آمادہ کرے گا اور اسی ضمن میں کسی گنہگار کی حالت کو جو تمہارے مناسب حال ہو تمہارے سامنے پیش کرے گا اور تمہارے کان میں کہے گا کہ تم عقل و شرع دونوں اعتبار سے اس گنہگار سے بہتر ہو، اور تمہارے اعمال بحمدللہ تمہاری نجات کا سبب ہیں اور تم پاک و پاکیزہ ہو اور گناہوں سے پاک ہو۔
اس طرح تمہارے ذہن میں یہ بات بٹھا کر اس کو دو فائدے ہوں گے؛
1) خدا کے بندوں سے تمہیں بدبین کر دے گا
2) تمہارے اندر خودپسندی پیدا ہو جائے گی
یہ دونوں صفتیں نہ صرف ہلاک کرنے والی ہیں بلکہ فساد کی جڑ ہیں۔ لہذا تم اپنے نفس اور شیطان سے کہو کہ ہو سکتا ہے اس گنہگار میں کوئی ایسا ملکہ یا کوئی ایسے اعمال ہوں کہ خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو جائے اور اس ملکہ اور عمل کا نور اس کی ہدایت کا سبب بن جائے اور اس کا انجام بخیر ہو جائے۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ خدا نے اس کو گناہ میں اس لئے مبتلا کر دیا ہو کہ وہ خودپسندی سے، جو گناہ سے بھی بدتر ہے، بچ جائے۔ جیسا کہ کافی کی ایک حدیث میں امام صادق(ع) سے منقول ہے؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَلِمَ أَنَّ الذَّنْبَ خَيْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْعُجْبِ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ مَا ابْتُلِيَ مُؤْمِنٌ بِذَنْبٍ أَبَدا
امام صادق(ع): اللہ کو معلوم ہے کہ مومن کیلئے گناہ خود پسندی سے بہتر ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو مومن ہرگز گناہ میں مبتلا نہ ہوتا۔
اصول کافی: ج2 ص313 کتاب الایمان والکفر
ہمارے شیخ بزرگ و عارف کامل (آیت اللہ) شاہ آبادی (روحی فداہ) فرمایا کرتے تھے: اپنے دل میں کافر کو بھی سرزنش و ملامت نہ کرو، ہو سکتا ہے کہ نور فطرت اس کو ہدایت کر دے اور تمہاری یہ سرزنش و ملامت تمہارے کام کو بدانجام نہ بنا دے۔"
تحریر: حکیم الامّت سید روح اللہ الموسوی الخمینی (نور اللہ مرقدہ)
پیشکش: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


اوّل وقت نماز کی اہمیت

٭٭اوّل وقت نماز کی اہمیت٭٭
قَالَ النَّبِيُّ ص مَا مِنْ صَلَاةٍ يَحْضُرُ وَقْتُهَا إِلَّا نَادَى مَلَكٌ بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ أَيُّهَا النَّاسُ قُومُوا إِلَى نِيرَانِكُمُ الَّتِي أَوْقَدْتُمُوهَا عَلَى ظُهُورِكُمْ فَأَطْفِئُوهَا بِصَلَاتِكُم
رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں: "جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو ایک فرشتہ لوگوں کے درمیان آواز بلند کرتا ہے کہ اٹھ جاؤ اور اس آگ کو نماز کے ذریعے بجھاؤ جس کو تم نے اپنے پیچھے بھڑکایا ہے۔"
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ص 208، ح 624 ۔۔۔۔۔ علل الشرائع: ج1 ص247۔۔۔۔۔ امالی شیخ صدوق: ص496 ____ تہذیب الاحکام: ج2 ص238)
مذکورہ حدیث شیخ صدوق نے "من لا یحضرہ الفقیہ" میں بالجزم رسول اللہ(ص) سے نقل کی ہے لہذا امام خمینی (نوراللہ مرقدہ) و مرحوم فاضل لنکرانی (قدس سرّہ) سمیت متعدد اہل علم حضرات کے نزدیک معتبر قرار پائے گی۔
اس حدیث سے اوّل وقت نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مومن وہی ہے جو اس فرشتے کی آواز پر لبیک کہتا ہوا نماز کیلئے کھڑا ہو۔
نیز اس چیز سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے کیونکہ آگ گناہ کی طرف کنایہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے؛
وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ
نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں اور رات کے کچھ حصوں میں، نیکیاں بیشک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، نصیحت ماننے والوں کے لیے یہ ایک نصیحت ہے۔ (سورہ ھود: 114)
یہاں اس آیت میں " إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ" یعنی "نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں" واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز گناہوں کو دور کر دیتی ہے۔ بہت سی شیعہ سنّی روایات میں نقل ہوا ہے کہ یہاں حسنات سے مراد نماز ہے، اور سیاق و سباق سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
پس نماز برائیوں کو محو کر دیتی ہے۔ بعض روایات میں معصومین ع سے یہ بھی وارد ہوا ہے کہ جو شخص صدق نیّت سے اللہ کی رضا کیلئے وضو کرے تو اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پس نماز تو کجا فقط وضو بھی صدق نیت سے انجام دینے سے گناہ جھڑتے ہیں۔
البتہ مخفی نہ رہے کہ یہاں گناہ سے مراد صغیرہ ہیں، کبیرہ نہیں۔ بلکہ نماز انہی کے صغیرہ گناہوں کو معاف کرتی ہے جو گناہان کبیرہ سے اجتناب کریں، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے؛
إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلاً كَرِيمًا
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔ (سورہ نساء: 31)
لہذا نماز کی پابندی کریں اور خاکسار کو دعاؤں میں ضرور یاد کریں۔
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ