منگل، 28 مارچ، 2017

کیا آیت اللہ خامنہ ای سید خراسانی ہیں؟

٭کیا آیت اللہ خامنہ ای سید خراسانی ہیں؟٭
آجکل یہ روش بہت عام ہے کہ ایرانی بلاگز جو کسی شخص کو اپنے مزاج کے مطابق نظر آئے، فورا ترجمہ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیتے ہیں۔ شاید فارسی یا عربی میں لکھی ہوئی ہر تحریر کو مقدس شمار کیا جاتا ہے یا شاید کوئی اور وجہ ہو، بہرحال اس طرح کے بلاگز کے ترجمے کے وقت کسی بھی تحقیق یا تصدیق کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور بس ترجمہ کر کے جنگل میں آگ کے مصداق سوشل میڈیا پر لائکس و شیئر کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ ایران و عرب میں سب مقدّس نہیں رہتے، مختلف خیال و نظریات کے لوگ وہاں پر بھی بستے ہیں، یہ افراد اپنے مدعا کے اثبات کیلئے جھوٹ اور سچ سب مکس کر کے بیان کرتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ عرصہ پہلے شہید کربلا عابس بن شبیب (رض) کی قمہ زنی کی پوسٹ وائرل ہوئیں۔ تھوڑا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ کسی ایرانی مولائی بلاگ پر یہ واقعہ نقل ہوا، اور پاکستانی خوش عقیدہ افراد نے فورا اس کا ترجمہ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا۔ جب ہم نے اصل کتب سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ فارسی ترجمے میں تدلیس کی گئی، ورنہ اصل عبارت میں خونی ماتم کا کوئی ذکر نہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ اس پوسٹ کو پرچار کرنے میں سوشل میڈیا کے بعض زعماء پیش پیش تھے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ وائرل بنا کر پھیلایا جا رہا ہے جس میں امام خمینی سے آیت اللہ خامنہ ای پر قاتلانہ حملہ چھپایا جاتا ہے، جب بعد میں ان کو سید خامنہ ای کا ہاتھ نظر آتا ہے تو پوچھتے ہیں کیا ہوا، بتایا جاتا ہے بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس پر آپ شکر ادا کرتے ہیں، پھر بلاگ لکھنے والا رسول اللہ(ص) سے ایک روایت لکھتا ہے کہ سید خراسانی کے نام سے ایک شخص آئے گا جس کا نام علی ہوگا (شکر ہے کہ روایت میں علی خامنہ ای نہیں لکھا)، اس کا دایاں ہاتھ شل ہوگا، اور وہ حکومت حاصل کر کے صاحب امر کے حوالے کرے گا۔
جب یہ واقعہ خوش باور افراد کے ہاتھ لگا تو دھڑا دھڑ اس کا ترجمہ کر کے پھیلا کر اپنے تئیں ولایت فقیہ کی خدمت کرنے لگے۔ جب اس پوسٹ میں موجود بحارالانوار کے حوالے کو چیک کیا گيا تو مذکورہ ایڈریس پر ایسی کوئی روایت ہی نہیں ملی۔ البتہ سید خراسانی کے حوالے سے روایات موجود ہیں، لیکن بلاگ میں پیش کیا گيا متن درست نہیں۔ سید خراسانی کون ہیں اور کب آئیں گے، اس حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
کچھ عرصہ پہلے جب کچھ ویب سائٹس نے ادعا کیا تھا کہ آقاي خامنہ ای سید خراسانی ہیں، احمدی نژاد شعیب بن صالح ہے، جن کا ذکر روایات میں ہے، اور حسن نصر اللہ سید یمانی ہیں۔ اس مدعا کو بہت زور و شور سے پھیلایا گيا، بعض کا دعوی ہے کہ یہ دشمنوں کی سازش تھی۔ بہرحال ان تمام باتوں سے مراجع اور جملہ محققین نے بیزاری کا اظہار کیا. روایات میں ہمیں ظہور کے وقت کو متعین کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا اس طرح کی کاوشوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
اگر آقای خامنہ ای سید خراسانی ہیں، حالانکہ ان کا آبائی تعلق آذربائجان صوبے سے ہے، لیکن خراسان میں پلے بڑھے، تو حسن نصر اللہ "سید یمانی" کیسے ہوئے؟ اگر بالفرض مان لیں کہ ان کے اجداد یمنی تھے، تو اسٹینڈرڈ آبائی نسبت ہے یا موجودہ نسبت؟ اگر موجودہ نسبت ہے تو حسن نصر اللہ سید یمانی نہیں، اگر آبائی نسبت اسٹیندرڈ ہے تو آقای خامنہ ای سید خراسانی نہیں۔ اور احمدی نژاد کو شیعب بن صالح کہنا اس سے بھی زیادہ بھونڈی بات ہے۔
لہذا ان باتوں میں کان نہ دھریں اور نہ ایسی باتوں کو پھیلایا جائے۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کا تعلق زمانہ ظہور میں آنے والی شخصیات سے ہو یا نہ ہو، اللہ کے نیک بندے ہیں اور دین اسلام کا احیاء کرنے والوں میں سے ہیں، اللہ ان کو صحت و سلامتی و تندرستی عطا کرے۔ آج بعض افراد آیت اللہ خامنہ ای کیلئے وہی سب کچھ کر رہے ہیں جو ایک زمانے میں آئمہ ع کیلئے بعض لوگ کرتے تھے۔ یعنی اپنے عقائد کے ادعا کیلئے ان ہستیوں سے کچھ بھی منسوب کر دیا جائے، اور اس کو دین کی خدمت گردانا جائے۔
اللہ ہم سب کو افراط و تفریط سے بچائے رکھے۔
الاحقر: سید جواد حسین رضوی


احادیث میں گائے کا گوشت

٭احادیث میں گائے کا گوشت٭
سوال) کیا یہ بات درست ہے کہ احادیث میں گائے کے گوشت کو بیماری لیکن اس کے دودھ کو دوا کہا گیا ہے؟ کیا اس صورت میں گائے کے گوشت کا استعمال نہیں کرنا چاھئے؟
جواب) جی بعض روایات میں ایسا وارد ہوا ہے۔ البتہ ان روایات کا مفہوم ہرگز یہ نہیں کہ سب لوگوں کیلئے گائے کا گوشت بیماری ہے۔ گائے کے گوشت کے فوائد بھی روایات میں ہیں جیسا کہ امام صادق(ع) کا ارشاد گرامی ہے؛
مَرَقُ لَحْمِ الْبَقَرِ یَذْهَبُ بِالْبَیَاضِ (کافی ج6 ص311)
یعنی گائے کا آبگوشت برص کی بیماری میں مفید ہے۔
لہذا گائے کو بیماری کہنے والی روایات خاص حالات میں ہیں۔ جیسے گائے کا گوشت ہاضمے میں سخت ہے اور ان افراد کیلئے مضر ہے جن کا جسمانی کام کم ہے، لیکن ان افراد کیلئے مفید ہے جو سخت جسمانی کام کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں بعض بیماریوں جیسے "یورک ایسڈ" کی زیادتی میں بھی سرخ گوشت خاص طور پر گائے گا گوشت مضر ہے۔ لہذا حالات پر منحصر ہے، بہرکیف کثرت سے استعمال نہیں کرنا چاھئے۔ کوشش ہونی چاھئے کہ ہماری غذا متوازن ہو اور گوشت کی مختلف اقسام، ڈیری اشیاء اور سبزی جات میں ایک توازن برقرار رہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے اثرات

٭انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے اثرات٭
مندرجہ ذیل الفاظ ایک ڈسکشن کے دوران لکھے گئے جہاں انگریزی کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بات ہو رہی تھی۔
صدیوں سے مختلف معاشروں پر تبدیلیوں کے اثرات ہوتے رہے ہیں، بعض اثرات ایسے ہیں جن سے بچنا مشکل ہوتا ہے، وقتی طور پر بچ سکتے ہیں لیکن لانگ ٹرم میں ممکن نہیں ہوتا۔ مثلا ایران میں انقلاب کے بعد انگریزی کی تدریس کم کر دی گئی، صرف ایک زبان کی حد تک بڑی کلاسوں میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے اس پر بہت اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
یہ سلسلہ تاریخ میں تسلسل سے جاری و ساری رہا ہے، مثلا جب عرب بااثر تھے اور مختلف علوم و فنون میں ان کا ڈنکا بجتا تھا تو عربی زبان کی تدریس لازمی سمجھی جاتی تھی۔ قرون وسطی میں پورے پورپ بشمول انگلینڈ میں عربی کے بغیر کسی کو اسکالر یا عالم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عربی کے الفاظ بہت سے یورپی زبانوں میں داخل ہو گئے۔ خود فارسی کو آپ دیکھیں، آج فارسی کے ذخیرہ الفاظ میں آدھے سے زائد عربی کے الفاظ ملتے ہیں۔ یہ اثرات فتح ایران کے بعد شروع ہوئے جب علمی و فنی زبان عربی ٹھہری۔ لہذا جب بھی کوئی قوم ترقی کرتی ہے یا وہ سپر پاور بن کر دیگر اقوام پر اثر ڈالتی ہے تو اس قوم کی زبان کے اثرات دیگر زبانوں پر خودبخود ہوتے ہیں۔
میں تو اس سے بھی بڑھ کر ایک حقیقت بتاتا چلوں کہ عربی زبان کے اثرات کی وجہ سے بہت سے علاقوں کی زبانوں نے دم توڑ دیا اور وہاں عربی بولی جانے لگی۔ مثلا مصر میں اسلام سے پہلے قبطی رہتے تھے اور ان کی اپنی زبان تھی، جب مسلمان وہاں داخل ہوئے تو اپنے ساتھ عربی لے گئے، رفتہ رفتہ عربی نے ان کی زبان پر اثر انداز ہونا شروع کیا، اسی طرح سے عربی کے الفاظ ان کی زبان کا حصّہ بنتے گئے۔ رفتہ رفتہ ان کی اپنی زبان بالکل ختم ہو گئی اور آج پورا مصر عربی میں بات کرتا ہے۔
اسی طرح شمالی افریقہ کے ممالک جیسے لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش اور ماریطانیہ کے افراد بربری تھے اور بربری زبان بولتے تھے، لیکن آج یہ تمام بربری عربی میں بات کرتے ہیں۔ سوڈان کو "نوبہ" کہا جاتا تھا، ان کی اپنی زبان تھی لیکن آج یہ تمام سیاہ فام نبطی عربی میں بات کرتے ہیں۔
بحیرہ میڈیٹیرین کے مغربی سواحل جیسے شام، فلسطین اور لبنان وغیرہ کی قدیم لوکل زبانیں تھیں، مسلمانوں کی فتوحات اور ان علاقوں کے مسلمان ہونے کے بعد ان کی زبان میں تغیر آتا گيا اور آج یہ سب نسلی طور پر عرب نہیں لیکن عربی بولتے ہیں، اور عرب ہی کہلاتے ہیں۔ خود ہندوستان کو ہی دیکھ لیں، یہاں مسلمانوں کی آمد کے بعد بہت سماجی و لسانی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ لسانی طور پر فارسی کا اثرو رسوخ بہت گہرا رہا جو مغلوں کی درباری زبان تھی۔ ہندوستان کی تعلیمی و دفتری و عدالتی زبان فارسی ٹھہری، اور فارسی نے مقامی زبان پر اتنا اثر کیا کہ اردو نامی الگ زبان وجود میں آئی۔
ان تمام مثالوں سے یہ تاریخی حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ جو اقوام ثقافت و تعلیم میں مضبوط ہو جائیں تو ان کا اثر دوسروں پر طبیعی ہے۔ برصغیر تو پھر بھی انگریزوں کی کالونی رہی ہے، جاپان و چین جیسے ممالک میں، جہاں استعمار اس طرح سے داخل نہیں ہو سکا، مغرب سے شدید متاثر ہے۔
آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان پر اغیار کا اثر نہ ہو، بلکہ آپ ہی دوسروں پر اثرات ڈالیں تو اتنی ترقی کریں کہ قدرت کا طبیعی قانون نافذ ہو جائے اور آپ کی زبان و ثقافت دوسروں پر اثر انداز ہو سکے۔ ورنہ آپ کوشش کر کے اس اثر کو کچھ عرصہ کیلئے روک تو سکتے ہیں، ہمیشہ کیلئے نہیں۔
لہذا اس تبدیلی کو قبول کریں اور اپنے بچوں کو بیرونی زبانوں میں اعلی تعلیم دلوائیں، لیکن ساتھ ساتھ مقامی زبان و کلچر سے بھی آشنا رکھیں۔
سید جواد حسین رضوی


کیا ناد علی معصوم کا کلام ہے؟

کیا ناد علی معصوم کا کلام ہے؟


سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟

٭سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟٭
سوال) سورہ حجر میں سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟
جواب) سورہ حجر کی آيت نمبر 87 میں ارشادی باری تعالی ہے؛
ولَقَد ءاتَينكَ سَبعـًا مِنَ المَثانى والقُرءانَ العَظيم
اور ہم نے تمہیں سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا۔
سبعا من المثانی کی تعبیر کے بارے میں درج ذیل نظریات مفسرین کے درمیان پائے جاتے ہیں؛
1) اس سے مراد سورہ حمد ہے
2) اس سے مراد قرآن کی ابتدائی سات لمبی سورتیں ہیں
3) اس سے مراد وہ سورتیں ہیں جو بعض حروف مقطعات جیسے حا میم وغیرہ سے شروع ہوتی ہیں۔

جس نظریہ کی تائید ہمیں آئمہ علیھم السلام سے ملتی ہے وہ پہلی رائے ہے۔ امام صادق ع اس آيت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سورہ حمد ہے جو ہر نماز میں دو دفعہ پڑھی جاتی ہے۔ علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں اور آيت اللہ مکارم شیرازی نے تفسیر نمونہ میں اسی رائے کو درست قرار دیا کیونکہ ظاہر آيات و قرائن بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور معصومین ع سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
جو دوسری رائے ہے اس کے اپنے دلائل ہیں، ایک دلیل یہ ہے کہ اوائل کی لمبی سورتوں میں تمام غیبی امور من جملہ واقعات و حوادث تاریخی زیادہ بیان ہوئے ہیں، اور چونکہ ان مفسرین کے مطابق قرآن دو دفعہ نازل ہوا ہے لہذا سبعا من المثانی سے مراد ابتدائی سات لمبی سورتیں ہیں۔
لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ پہلی رائے زیادہ ارجح و مطابق با حقیقت ہے۔ اس میں اس پر بھی بحث ہے کہ "من" سے مراد من تبعیض ہے یا من تبیین ۔۔۔۔۔ دونوں صورتوں میں پہلی رائے پر فرق نہیں پڑتا، سید فضل اللہ لکھتے ہیں کہ چونکہ قرآن سارا کا سارا مثانی ہے، لہذا اس قرآن میں سے کچھ آیتیں جو سورہ حمد کی سات آیتیں ہیں، مراد ہیں، یعنی یہ "من" تبعیض ہے۔ سورہ زمر کی آيت 23 میں بھی قرآن کو مثانی کہا گيا ہے۔
کتاباً مُتَشابِهاً مَثانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُم‏
مخفی نہ رہے کہ بعض کے نزدیک سورہ فاتحہ قرآن سے ہٹ کر نازل ہوئی ہیں، لہذا یہاں سورہ فاتحہ اور باقی قرآن کا الگ الگ ذکر کرنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ نیز یہ احتمال بھی قوی ہے کہ سورہ فاتحہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کیلئے بھی الگ سے ذکر کیا گيا ہے۔
سید جواد حسین رضوی


عقیقہ کے چند مسائل


سات حرفوں پر قرآن کے نزول کی صحت



٭سات حرفوں پر قرآن کے نزول کی صحت٭
سوال) صحاح ستہ میں بعض احادیث کے مطابق قرآن سات حروف میں نازل ہوا، اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اس وقت متعدد قراتیں دنیا میں رائج ہیں، کونسی قرات درست ہے؟ مکتب امامیہ کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب) صحاح ستہ میں سات حرفوں یا قراتوں پر قرآن کے نزول کی جو روایات آئی ہیں ان سے آئمہ اہلبیت(ع) نے شدت سے اختلاف کیا۔ جیسے کافی میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے؛
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ إِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَقَالَ كَذَبُوا أَعْدَاءُ اللَّهِ وَ لَكِنَّهُ نَزَلَ عَلَى حَرْفٍ وَاحِدٍ مِنْ عِنْدِ الْوَاحِد
فضل بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے کہا کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے دشمن جھوٹ بولتے ہیں، قرآن خداوند واحد کی طرف سے ایک حرف پر نازل ہوا۔ (کافی ج2 ص630)
ہمیں "کافی" کی اسی جلد اور اسی صفحے پر یہ روایت بھی ملتی ہے جس کے مطابق قراتوں کا یہ اختلاف راویوں کی وجہ سے پیدا ہوا، غرض ایسا نہیں کہ اللہ کی طرف سے ہی سات حرفوں پر نازل ؛
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ إِنَّ الْقُرْآنَ وَاحِدٌ نَزَلَ مِنْ عِنْدِ وَاحِدٍ وَ لَكِنَّ الِاخْتِلَافَ يَجِي‏ءُ مِنْ قِبَلِ الرُّوَاة
امام باقر(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن ایک ہی ہے جو خداوند واحد کی طرف سے نازل ہوا لیکن اس کی قراتوں میں اختلاف روات کی وجہ سے پیدا ہوا۔
اس حدیث کی بھی سند صحیح ہے۔ لہذا امامیہ کے نزدیک یہ متفقہ بات ہے کہ قرآن صرف ایک حرف پر نازل ہوا، اور اس کی صرف ایک ہی قرات ہے جس پر اللہ تعالی کی طرف سے قرآن نازل ہوا۔ اسی لئے ہم اس رائے کو نہیں مانتے جس کے مطابق سات حرفوں پر قرآن کے نزول کا ذکر ہے، اس طرح کے اختلاف سے تحریف قرآن کے عقیدے کو تقویت ملتی ہے۔
نیز یہ جو قراتوں کا اختلاف ملتا ہے یہ قرآن کے راویوں کے درمیان اختلاف ہے، چنانچہ ہمیں سات مشہور قراتیں ملتی ہیں جو اوائل اسلام کے بعض قاریوں سے مروی ہیں جن کو قراء سبعہ کہا جاتا ہے۔ قراء سبعہ یا سات قراء ان قاریوں کو کہا جاتا ہے جن سے قرآن کریم کی قراءت کے سلسلہ میں متعدد روایتیں وارد ہوئی ہیں، ان روایتوں میں بعض جگہوں پر کلمات، اعراب (زبر، زیر، پیش) وغیرہ کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ علوم قرآن کی متداول کتابوں میں ان قراء کے نام اس طرح درج ہیں: عبد اللہ بن عامر، ابن کثیر المکی، عاصم بن بہدلہ کوفی، ابو عمرو بصری، حمزہ کوفی، نافع مدنی اور کسائی کوفی۔
اہلسنت کے نزدیک یہ سات قراتیں تواتر سے ثابت ہیں، اور ان کے نزدیک ان میں سے کسی بھی قرات پر تلاوت جائز ہے۔ یہ قراتیں کسی حد تک جغرافیائی خطوں پر بھی منحصر ہے، برصغیر ایران و ترکی وغیرہ میں عاصم کی قرات رائج ہے۔
جبکہ ہمارے نزدیک عاصم کی قرات ہی سب سے زیادہ معتبر ہے جو حفص سے مروی ہے، شیعہ علماء نے اس قرات پر زیادہ اعتبار کیا ہے بلکہ ابن شھر آشوب، قاضی نور اللہ شوشتری و سید خوئی نے البیان میں تصریح کی ہے کہ عاصم خود بھی شیعہ تھا۔ نیز عاصم کی قرات متواتر ہے اور عالم اسلام میں سب سے زیادہ رائج ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ عاصم کی قرات کا سلسلہ حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


شرابخوری کی سزا

٭ شرابخوری کی سزا٭
سوال) اسلام میں شرابخور کیلئے کیا سزا بیان ہوئی ہے؟ کیا بیئر Beer پینے کی بھی وہی سزا ہے جو شراب Wine پینے کی ہے؟
جواب) شیخ حرعاملی نے وسائل الشیعہ میں "مسکر" یعنی شرابخوار کے حد والے باب میں احادیث جمع کی ہیں، جن میں سے کچھ سند کے لحاظ سے صحیح کے درجے پر ہیں۔ ان میں سے ایک صحیح حدیث کے مطابق ابو بصیر نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ شرابخور کی حد کیا ہے۔ تو آپ(ع) نے جواب دیا کہ رسول اللہ(ص) کے دور میں شرابخور کو ابتدا میں ہاتھوں اور جوتوں سے مارا کرتے تھے، جب شرابخوری کثرت سے بڑھ گئی اور شرابخور آپ(ص) کے پاس زیادہ لائے جانے لگے تو ان کو زیادہ مارا پیٹا جانے لگا، یہاں تک کہ شرابخوری حد سے زیادہ پہنچی تو یہ ضربیں 80 تک جا پہنچیں۔
خلیفۂ دوّم حضرت عمر کے دور میں ایک شخص کو شرابخوری کے جرم میں پکڑ کر لایا گیا، لیکن حضرت عمر کو اس حوالے سے تردّد تھا کہ کتنی ضربیں لگائی جائیں، اس پر حضرت علی ع نے فرمایا کہ اس شرابی کو 80 کوڑے کی سزا ہوگی کیونکہ شرابخوار جب مست ہوتا ہے تو فضولیات بکتا ہے، اور اس پر ایک مفتری (تہمت لگانے والے) کی حد جاری ہوگی جو قرآن میں 80 کوڑے بیان ہوئی ہے۔
شیعہ سنّی فقہاء شرابخوری کیلئے اسّی کوڑے کی سزا کے قائل ہوئے ہیں، بشرطیکہ دو عادل گواہ اس شخص کو باقاعدہ شراب پیتے دیکھیں۔ بنا بر مشہور مست کرنے والے فقاع (آب جو) یعنی بیئر (Beer) کی بھی یہی سزا ہے۔ اس سزا کی علت یہ ہے کہ شرابی مست ہونے کے بعد ہوش و ہواس میں نہیں رہتا اور ایسے شخص کا نشے میں گھومنا معاشرے میں دیگر افراد کیلئے نقصان یا سردرد کا باعث بھی ہو سکتا ہے، اس کے آئے دن مظاہرے آپ کو مغربی ممالک میں بکثرت نظر آئیں گے۔ لہذا اسلام نے شراب پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس کی سزا بھی قدرے سخت بیان کی ہے تاکہ ان مسائل کا سدباب ہو سکے۔
البتہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ شرابخواری کی سزا میں اضافہ زمانے کی ضرورت کے حساب سے کیا گیا۔ شروع میں فقط مار پیٹ پر اکتفا کیا جاتا تھا، جب شرابخواری بڑھی تو ان ضربوں کو بڑھا کر 80 تک کر دیا گيا۔ لہذا یہ حکومت اور عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس جرم کے روک تھام کیلئے کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔ جیسے ایران کی عدالت نے مبینہ توہین رسالت کے مرتکب کو اسلامی کتب پڑھنے اور دو سال تک دینی علوم حاصل کرنے کی سزا سنائی، غالبا عدالت یہ جان گئی تھی کہ اس توہین کا ارتکاب فقط اسلامی عقائد و احکامات سے عدم واقفیت کی بنا پر ہوا۔
بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ تادیب ہو جائیں اور اس مذموم حرکت سے بچ کر رہیں۔
والسلام علیکم
سید جواد حسین رضوی


آل محمد(ص) کا مرتبہ مولا علی(ع) کی زبانی

<آل محمد(ص) کا مرتبہ مولا علی(ع) کی زبانی>
امام علی(ع): هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَاءُ اءَمّرِهِ وَ عَيْبَهُ عِلْمِهِ وَ مَوئِلُ حُكْمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ، وَ جِبالُ دِينِه ، بِهِمْ اءَقامَ انْحِناءَ ظَهْرِهِ وَ اءَذْهَبَ ارْتِعادَ فَرائِصِهِ
زَرَعُوا الْفُجُورَ، وَ سَقَوْهُ الْغُرُورَ، وَ حَصَدُوا الثُّبُورَ، لا يُقاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مَنْ هذِهِ الامَّهِ اءَحَدٌ وَ لا يُسوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْهِ اءَبَدا، هُمْ اءَساسُالدِّينِ، وَ عِمادُ الْيَقينِ، إ لَيْهِمْ يَفِى ءُ الْغالِى ، وَ بِهِمْ يِلْحَقُ التّالِى وَ لَهُمْ خَصائِصُ حَقِّ الْوِلايَهِ، وَ فِيهِمْ الْوَصِيَّهُ وَ الْوِراثَهُ، الآنَ اذْ رَجَعَ الْحَقُّ الى اءهلِهِ وَ نُقِلَ الى مُنتَقَلِهِ
مولا علی(ع): یہ لوگ ( یعنی آل محمد) سرّ خداوندی ہیں اور دینی امور کا ملجا ہیں۔ یہی اللہ کے علم کا مرکز ہیں اور اللہ کے حکم کی پناہ گاہ ہیں۔ کتابوں نے انہی کے پاس پناہ لی ہے اور دین کے کوہ گراں یہی ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ نے دین کی پشت کی کجی سیدھی کی ہے اور انہیں کے ذریعے اس (دین) کے جوڑ بند کے رعشہ کا علاج کیا ہے۔
یاد رکھو کہ اس امّت میں کسی کو بھی آل محمد(ص) پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی لوگوں کو ان (اہل بیت) کے برابر قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ان پر ہمیشہ اللہ کی نعمتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
آل محمد(ص) دین کی اساس اور یقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر انہیں کی طرف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے۔ ان کے پاس ولایت کے حق کی خصوصیات ہیں اور انہی کے درمیان نبی پاک(ص) کی وصیّت اور ان کی وراثت ہے"۔
نہج البلاغہ: خطبہ 2
خاکسار: سید خواد حسین رضوی


سجدہ کے لئے افضل ترین جگہ مٹی ہے۔ اس کی تین حکمتیں ہیں

سجدہ کے لئے افضل ترین جگہ مٹی ہے۔ اس کی تین حکمتیں ہیں؛
1) پانی کے بعد اللہ تعالی نے مٹی کو پاک قرار دیا ہے۔ مٹی وہ چیز ہے جو پانی کی عدم موجودگی میں وضو کا نعم البدل ہو جاتی ہے اور تیمم فرض ہو جاتا ہے۔
2) مٹی پر سجدہ کرنا انسان کی عجز و انکسارکی کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیاوی اشیاء جیسے کپڑہ وغیرہ سجدے کے اصل معانی کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جب انسان اپنی اشرف ترین شئے یعنی پیشانی کو مٹی پر رکھتا ہے تو اس سے بڑھ کر انکساری کا ذریعہ نہیں۔
3) انسان کی خلقت مٹی سے ہوئی اور مٹی پر پہلا سجدہ اس بات کی نشانی ہے کہ ہم مٹی سے خلق ہوئے، اس کے بعد سر اٹھا کر دوبارہ مٹی پر سجدہ کرتے ہیں جو اس بات کی نشانی ہے کہ ہم نے پلٹ کر اسی مٹی میں جانا ہے۔ پس مٹی پر سجدہ انسان کو اپنی خاک سے تخلیق اور دوبارہ خاک سے رجوع کو ظاہر کرتا ہے، اور فقط دو سجدوں میں ہی "اناّ للہ وانا الیہ راجعون" کا مفہوم سمجھ آتا ہے۔
سید جواد حسین رضوی


انشورنس کا حکم فقہ جعفریہ کی روشنی میں

٭انشورنس کا حکم فقہ جعفریہ کی روشنی میں٭
سوال) کیا فقہ جعفریہ میں انشورنس جائز ہے؟ بعض اہلسنت علماء اس سے منع کرتے ہیں، اس کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب) انشورنس ایک عقد یعنی Contract ہے جس میں انشورنس دینے والا کچھ روپوں کے عوض نقصان کا ضامن ہو جاتا ہے۔ انشورنس کو اردو اور فارسی میں "بیمہ" کہتے ہیں۔ انشورنس کی دو اقسام ہیں، جنرل انشورنس جس میں مشینوں، جائداد اور گاڑیوں کے انشورنس ہوتے ہیں۔ اس میں مدت ختم ہونے پر کچھ نہیں ملتا، بلکہ پریمیم کے عوض ایک مقررہ مدت تک جو کہ عموما ایک سال پر مشتمل ہوتی ہے، انشورنس کمپنی نقصانات کو پورا کرنے کی ضامن بن جاتی ہے۔
دوسری قسم لائف انشورنس ہے جس میں عموما سالانہ پریمیئم کے عوض ایک مقررہ مدت تک انسان کی موت کی صورت میں یا اس کے اپاہج ہونے کی صورت میں ایک بڑی رقم ورثاء کو دی جاتی ہے۔ اگر یہ مدت بخیر و خوبی گزر جائے تو انشورنس کمپنی انشورنس کی رقم کے ساتھ اس عرصے تک کا منافع بھی ادا کرتی ہے۔
اہلسنت علماء اس انشورنس کے عقد کے بارے میں ہمیشہ مختلف الخیال رہے ہیں۔ عقد بیمہ پر جو اعتراضات وارد کئے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں؛
1) خود عقد بیمہ کا تصور صدر اسلام میں نہیں ملتا
2) اس میں غرر کا فیکٹر ہوتا ہے جو شرع میں جائز نہیں، غرر کسی چیز کی قیمت یا مبیع *Subject Matter* میں بے یقینی کی کیفیت کو کہتے ہیں۔ چونکہ انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ نقصان ہوگا بھی یا نہیں، اور نقصان کی صورت میں کتنا نقصان ہوگا، یہ معلوم نہیں ہوتا، ان کے نزدیک یہ غرر کا عنوان ہے۔ اور غرر سے رسول اللہ(ص) نے منع فرمایا ہے "ونھی النبی عن البیع الغرر"
3) قمار کا مسئلہ بھی پیش آتا ہے خصوصا جنرل انشورنس میں۔ انسان پریمئم ادا کرتا ہے جس کے عوض انشورنس کپمنی کسی بھی نقصان یا خسارت کے وارد ہونے کی صورت میں پورا کرتا ہے۔ لیکن نقصان نہ ہونے کی صورت میں انشورنس کرنے والے کو اس کی پریمئم کی رقم واپس ادا نہیں ہوتی۔ بالفاظ دیگر ایک رقم ادا ہوتی ہے جو واپس نہیں ہوتی، لیکن اس کے عوض انسان ایک غیر معینہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جو قمار کی صورت ہے۔
4) چوتھا فیکٹر سود کا ہے، خصوصا لائف انشورنس میں جتنا پریمئم ادا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ مدت مقرر ہونے پر انشورنس کمپنی ادا کرتی ہے۔
ان باتوں کی وجہ سے اہلسنت علماء کی ایک بڑی تعداد انشورنس کو جائز نہیں سمجھتی۔ اس کے عوض انہوں نے تکافل کے نام سے اسلامی انشورنس کی بنیاد رکھی ہے جس میں عقد معاوضہ (بیمہ) کو عقد تبرّع میں بدلا گیا ہے۔ چونکہ عقد تبرّع میں غرر اور قمار جائز ہے، لہذا اس قباحت کو اس طرح دور کیا گيا ہے۔ اور سود کے فیکٹر کو مضاربت کے ذریعے پورا کیا گيا ہے، جو یقینا اچھی کاوش ہے لیکن بظاہر ملمّع کاری معلوم ہوتی ہے۔
شیعہ مراجع نے ابتدا سے ہی عقد بیمہ کو جائز قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک ضروری نہیں کہ کسی عقد کا وجود ابتدائے اسلام میں ملے، ہر جدید چیز جائز ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس میں خلاف شرع کوئی بات نہ ہو۔ لہذا کسی عقد کے صدر اسلام میں نہ ملنے سے وہ عقد ناجائز نہیں ہو جاتا۔ شیعہ مراجع فرماتے ہیں کہ پریمئم کو "ھبۂ معوّضہ" کے عنوان سے ادا کیا جائے، یعنی ایسا گفٹ جس کے عوض آپ بھی فائدہ حاصل کریں۔ اس ھبۂ معوّضہ کے بدلے انشورنس کمپنی خسارتوں کو پورا کرنے کی ضامن ہو جائے، اس طرح سے ابتدائی تین مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
شہید مطہری نے 1970 کی دہائی میں حسینیۂ ارشاد میں سود کے مسائل پر جو لیکچرز دیے تھے وہ "ربا" کے عنوان سے فارسی میں طبع شدہ دستیاب ہیں، آپ نے ان لیکچرز میں سود کے مسئلے، جدید بینکاری اور مختلف نئے عقود پر سیر حاصل بات کی ہے۔ آپ نے جب انشورنس پر بات کی تو مندرجہ بالا اصول اخذ کرنے کے بعد پہلے تین فیکٹرز سے انشورنس کو مبرّا قرار دیا۔ جو چیز قابل اشکال ہے وہ اس میں ربا کا فیکٹر ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو جنرل انشورنس میں قباحت نظر نہیں آتی لیکن لائف انشورنس میں ربا کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اگر انشورنس کمپنی یہ عہد کرے کہ وہ پریمئم کے پیسوں کو شرعی طور پر حلال جگہوں میں سرمایہ کاری کر کے اس کا منافع مضاربت کے عنوان سے ادا کرے گی۔
اس سلسلے میں دیکھا جائے تو اس کا التزام پاکستان میں فقط تکافل کمپنیاں یا انشورنس کمپنیوں کی تکافل ونڈوز کرتی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ عرض ہوا کہ اہلسنت علماء نے انشورنس میں بزعم خویش قباحتوں کو دیکھتے ہوئے تکافل (اسلامی انشورنس) کی بنیاد رکھی تھی۔ باقی انشورنس کمپنیاں اس قسم کا کوئی وعدہ نہیں کرتیں اور اس کا التزام بھی نہیں کرتیں۔ ایران کی تمام انشورنس کمپنیاں اس حوالے سے شرعی اصولوں پر کاربند ہیں لہذا ان کا بیمہ بلا اشکال ہے۔ اکثر مراجع کی توضیح میں بیمہ کے حوالے سے ایران کی انشورنس کمپنیوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
البتہ مراجع اس عنوان سے کہ عقد میں ھبہ کے عنوان سے اصل رقم سے زائد دینے کا ذکر ہو تو اس کی بھی اجازت دیتے ہیں، کیونکہ ایک عرصے تک طرفین انشورنس کے عقد میں منسلک رہے تو اس مدت کے بعد کمپنی ھبہ یا گفٹ کے عنوان سے انشورنس کرنے والے کو زائد رقم دے تو انشورنس کروانے والا اس رقم کو قبول کر سکتا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


مومن کیسے مومن بنتا ہے؟

٭مومن کیسے مومن بنتا ہے؟٭
امام رضا(ع): "مومن تب تک مومن نہیں بنتا جب تک تین خصلتیں اس میں نہ ہوں، ایک خصلت اپنے رب کی، دوسری اپنے نبی کی اور تیسرے اپنے ولی (امام) کی۔
جو رب کی خصلت ہے وہ یہ ہے کہ (لوگوں کے) اسرار اور عیوب کی پردہ پوشی کرے، نبی کی خصلت یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، اور ولی کی خصلت یہ ہے کہ مصیبتوں اور سختیوں میں صبر کرے۔"
حدیث کا ماخذ اور اسناد:
یہ حدیث کتاب التمحیص میں ہے، یہ کتاب غیبت صغری کی ان چند کتب میں سے ہے جو ہمارے پاس صحیح سلامت پہنچی ہیں۔۔۔ اس کا مؤلف محمد بن ھمام الاسکافی امام زمانہ عج کے نائبین کے اصحاب میں سے تھے۔
‫اس حدیث کو شیخ کلینی نے بھی کم و بیش زیادہ الفاظ کے ساتھ کافی میں اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے؛
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُنْدَارَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ سَهْلِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الدِّلْهَاثِ مَوْلَى الرِّضَا ع قَالَ سَمِعْتُ الرِّضَا ع
شیخ صدوق نے معانی الاخبار اور امالی میں اس سند کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا؛
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْكُوفِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ الْآدَمِيِّ عَنْ مُبَارَكٍ مَوْلَى الرِّضَا عَلِيِّ بْنِ مُوسَى
جبکہ شیخ صدوق نے ہی خصال میں اپنے والد کے ذریعے احمد بن ادریس سے نقل کیا؛
حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ الدِّلْهَاثِ مَوْلَى الرِّضَا ع
جبکہ عیون اخبار الرضا اور صفات الشیعہ میں اپنے والد کے ذریعے محمد بن یحیی العطار سے نقل کیا؛
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ الدِّلْهَاثِ مَوْلَى الرِّضَا ع قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ ع
پس یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے‬ اور وثوق صدوری فراھم کرتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح معنوں میں مومن بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔
سید جواد حسین رضوی


تفسیر امام حسن عسکری ع کا اعتبار

٭تفسیر امام حسن عسکری ع کا اعتبار٭
‫اس تفسیر کو محمد بن قاسم استرآبادی نے تدوین کیا جن کو مفسّرجرجانی بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اس تفسیر کو دو راویوں سے نقل کیا جن کے نام ابو الحسن علی بن محمد بن سیار اور ابویعقوب یوسف بن محمد بن زیاد تھے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ امام حسن عسکری(ع) نے یہ تفسیر ان دونوں کو املاء کرائی۔ اس تفسیر کے بارے میں دو آراء ہمارے فاضل علماء کے درمیان پائی جاتی ہیں:
1) کچھ اس کو اور اس کے متن کو جعلی اور ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں
22) اور کچھ اس کو معتبر قرار دیتے ہیں
جو اس کو غیر معتبر اور جعلی کہتے ہیں ان کی اصل دلیل یہ ہے کہ اس کے دونوں راوی مجہول ہیں۔ اور اس پر ان کے دیگر دلائل بھی ہیں۔ ان علماء میں ابن غضائری، علامہ حلّی، سیّد مصطفی تفرشی، محقق داماد، قہپائی، محمد تقی شوشتری اور آیت اللہ خوئی شامل ہیں۔
اور جو اس کو معتبر سمجھتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اس تفسیر پر شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں اعتبار کیا ہے اور محمد بن قاسم استرآبادی کے ساتھ "رضی اللہ" وغیرہ لگاتے تھے۔ جو علماء اس کے معتبر ہونے کے قائل ہیں ان میں شیخ صدوق، قطب راوندی، ابو منصور طبرسی، ابن شہر آشوب، شہید ثانی، علامہ مجلسی، شیخ حر عاملی، وحید بہبہانی، سیّد عبداللہ شبّر، اور آیت اللہ بروجردی شامل ہیں
اگر ہم محمد بن قاسم استرآبادی کو ممدوح یا ثقہ مان بھی لیں تو مشکل ابوالحسن علی بن محمد بن سیار اور ابو یعقوب یوسف بن محمد بن زیاد کے ساتھ پھر بھی باقی رہے گی۔
اس کی سند کو چھوڑ کر ہم اس کے متن پر جائیں تو ادبی اعتبار سے اس کے متن میں بہت خرابیاں ہیں اور معصومین ع کے فصیح کلام سے میل نہیں کھاتی۔ یہ تو کنفرم ہے کہ اس کی نسبت امام حسن عسکری(ع) سے درست نہیں ہے، بظاہر لگتا یہی ہے کہ کسی سادہ لوح شیعہ نے تصنیف کے بعد امام عسکری(ع) سے منسوب کر دیا۔
واللہ اعلم‬
سید جواد حسین رضوی


حضرت عابس بن شبیب شاکری کی قمہ زنی کی حقیقت

٭حضرت عابس بن شبیب شاکری کی قمہ زنی کی حقیقت٭
سوال) آجکل ایک روایت سوشل میڈیا پر کافی پھیلائی جا رہی ہے کہ شہید کربلا عابس بن شبیب (رض) نے اپنے سر پر سب سے پہلے قمہ کیا، اور فرمایا کہ امام حسین ع کی محبت نے مجھے دیوانہ کر دیا، اور اس روایت کیلئے لہوف، نفس المہموم اور مقتل الحسین کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس کی صحت کیا ہے؟
جواب) جھوٹ اور تدلیس کی انتہا ہوتی ہے، عابس بن شبیب(رض) کی شہادت کے احوال میں ہمیں ایک روایت ملتی ہے جس میں عابس کا امام حسین ع سے اذن لینا اور پھر میدان جنگ میں روانہ ہو کر شہادت پانے کی روایت ہے۔ یہ روایت یہ سب سے پہلے تاریخ طبری میں ابی مخنف سے نقل ہوئی، اور وہاں سے شیخ عباس قمی نے نفس المہموم میں اور عبدالرزاق المقرم نے مقتل الحسین میں نقل کیا۔ اس پوری عربی میں کہیں بھی نہیں کہ عابس نے سر پر قمہ مارا، مندرجہ ذیل عبارت کا غلط ترجمہ کر کے تدلیس کی کوشش کی گئی ہے؛
// ومشى نحو القوم مصلتاً سيفه و به ضربة على جبينه فنادى//
جب عابس نے امام حسین ع سے اذن لیا تو وہ اشقاء کی جانب برہنہ تلوار لئے روانہ ہو، اس حالت میں کہ ان کے پیشانی پر ضربت کا نشان تھا، اور پکارا کہ کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آئے؟
اس میں کہاں ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی پیشانی پر تلوار سے وار کیا؟ اور جو قصہ نقل کیا گیا ہے کہ جب کوئی ان کے مقابلے پر نہیں آيا تو انہوں نے کہا کہ عشق میں دیوانہ ہو گيا ہوں اور سر پر قمہ مارا، تو یہ الفاظ کہیں نہیں ہیں۔
عابس کے احوال میں ملتا ہے کہ جب یہ میدان میں گئے تو کوئی ان کے مقابلے میں نہیں آيا، کیونکہ یہ لڑنے میں ماہر تھے، جب ابن سعد نے یہ حالت دیکھی تو لشکر کو حکم دیا کہ سب مل کر عابس پر سنگ باری کریں، جب ان پر ہر طرف سے پتھر برسائے جانے لگے تو اپنی زرہ اتار دی، اور آہنی ٹوپی بھی اتار کر پھینک دی، کسی نے کہا کہ اپنی ٹوپی کیوں پھینک دی تو فرمایا کہ "حب الحسین اجننی" ۔۔۔ عشق حسین ع نے مجھے دیوانہ کر دیا۔ اسی حالت میں فوج یزید نے ان کو گھیر کر شہید کیا اور سر قلم کیا۔ ابن زیاد کے دربار میں ہر کوئی دعوی کرنے لگا کہ میں نے عابس کا سر قلم کیا ہے، جس کا فیصلہ ابن زیاد نے یوں کیا کہ سب نے مل کر اس کا سر قلم کیا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


کیا سمندری کتا اور خنزیر حلال ہیں؟

کیا سمندری کتا اور خنزیر حلال ہیں؟

سوال) کچھ مراجع کے عجیب فتوی میری نظر سے گزرے کہ سمندری کتے اور خنزیر پاک ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کتا اور خنزیر پاک ہو جائے؟
جواب) پانی کے بہت سے جانور جن کو برّی مشابہت کی وجہ سے نام دیا جاتا ہے، جیسے سمندری شیر *Sea Lion* حقیقت میں شیر نہیں ہوتا، لیکن اس کو شیر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سمندری کتا اور سمندری خنزیر ہیں۔۔۔۔ بھلا کتا اور خنزیر جو نجس ہیں، کیا پانی میں رہ سکتے ہیں؟
جب نہیں رہ سکتے تو پانی میں جو جانور رہتا ہے وہ یقینا کتا یا خنزیر نہیں ہے۔ ایسے جانور پاک ہیں چاہے ان کی شکل برّی جاندار سے کیوں نہ ملتی ہوں۔۔۔ پانی میں مستقل رہنا ان کے پاک ہونے کا سبب ہے
یاد رہے کہ یہ بحث ان کے پاک ہونے یا ناپاک ہونے سے ہے، ان کے حلال ہونے سے نہیں۔ سمندری جاندار میں صرف چھلکے والی مچھلیاں اور جھینگے حلال ہیں۔ باقی کوئی جاندار حلال نہیں۔
سید جواد حسین رضوی