بدھ، 18 مئی، 2016

آئمہ(ع) کے ادوار میں اجتہاد کی مثال: وضو میں پیر کا مسح کیوں؟ اور پورے پیر کا مسح کیوں نہیں؟

٭آئمہ(ع) کے ادوار میں اجتہاد کی مثال: وضو میں پیر کا مسح کیوں؟ اور پورے پیر کا مسح کیوں نہیں؟٭
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع أَ لَا تُخْبِرُنِي مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ وَ قُلْتَ إِنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ وَ بَعْضِ الرِّجْلَيْنِ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ نَزَلَ بِهِ الْكِتَابُ مِنَ اللَّهِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ فَعَرَفْنَا أَنَّ الْوَجْهَ كُلَّهُ يَنْبَغِي أَنْ يُغْسَلَ ثُمَّ قَالَ- وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ ثُمَّ فَصَّلَ بَيْنَ الْكَلَامِ فَقَالَ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ فَعَرَفْنَا حِينَ قَالَ- بِرُؤُسِكُمْ أَنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ لِمَكَانِ الْبَاءِ ثُمَّ وَصَلَ الرِّجْلَيْنِ بِالرَّأْسِ كَمَا وَصَلَ الْيَدَيْنِ بِالْوَجْهِ فَقَالَ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ فَعَرَفْنَا حِينَ وَصَلَهَا بِالرَّأْسِ أَنَّ الْمَسْحَ عَلَى بَعْضِهَا ثُمَّ فَسَّرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِلنَّاسِ فَضَيَّعُوهُ ثُمَّ قَالَ- فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ فَلَمَّا وَضَعَ الْوُضُوءَ إِنْ لَمْ تَجِدُوا الْمَاءَ أَثْبَتَ بَعْضَ الْغَسْلِ مَسْحاً لِأَنَّهُ قَالَ بِوُجُوهِكُمْ ثُمَّ وَصَلَ بِهَا وَ أَيْدِيَكُمْ ثُمَّ قَالَ مِنْهُ أَيْ مِنْ ذَلِكَ التَّيَمُّمِ لِأَنَّهُ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ أَجْمَعَ لَمْ يَجْرِ عَلَى الْوَجْهِ لِأَنَّهُ يُعَلَّقُ مِنْ ذَلِكَ الصَّعِيدِ بِبَعْضِ الْكَفِّ وَ لَا يَعْلَقُ بِبَعْضِهَا ثُمَّ قَالَ ما يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ وَ الْحَرَجُ الضِّيق
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر ع سے کہا کہ آپ سر اور پیر کے مسح میں پورے سر اور پیر کا مسح ضروری نہیں سمجھتے بلکہ سر اور پیر کی ایک مقدار کو مسح کے لئے کافی سمجھتے ہیں، کیا آپ بیان کر سکتے ہیں کہ یہ حکم آپ نے کیسے اور کہاں سے بیان فرمایا؟
امام نے تبسّم فرمایا اور فرمانے لگے: "یہ وہ چیز ہے جس کی رسول اللہ ص نے تصریح کی اور کتاب خدا میں نازل ہوا۔ جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے "فاغسلو وجوھکم" یعنی اپنے چہروں کو دھو لو، اس سے ہم نے جانا کہ چہرے کو مکمّل دھونا لازمی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ہاتھ دھونے کو چہرے پر عطف کیا اور فرمایا "وایدیکم الی المرافق" یعنی اپنے ہاتھ کو کہنیوں تک دھو لو (اللہ نے ہاتھ کے دھونے کے لئے الگ فعل کا ذکر نہیں کیا بلکہ چہرے کے فعل یعنی دھونے کا حکم یہاں برقرار رکھا تو ہم نے جانا کہ مکمّل ہاتھ کا کہنیوں تک دھونا لازمی ہے)۔
اس کے بعد اللہ نے کلام کے درمیان فاصلہ دیا اور کہا "وامسحو برؤوسکم" یعنی سر کا مسح کرو۔ برؤوسکم سے ہم نے جانا کہ سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح ہے کیونکہ یہاں حرف "باء" آیا ہے۔ (باء تبعیض کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر پورے سر کے مسح کا حکم ہوتا تو "وامسحو رؤوسکم" کہا جاتا)۔ پھر دونوں پیر کو سر کے حکم سے متّصل کیا جیسے ہاتھوں کو چہرے کے ساتھ وصل کیا تھا اور کہا "وارجلکم الی الکعبین" یعنی مسح کرو پیروں کا ان کے ابھار تک۔ پھر جیسا کہ پیروں کو سر سے وصل کیا تو اس کا مطلب ہوا کہ مسح بھی پیر کے بعض حصّوں کا ہی ہوگا (جیسے سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ص نے لوگوں کو (اس آیت کی) یہی تفسیر بتائی لیکن لوگوں نے آپ کے فرمان کو ضائع کر دیا۔"
(اصول کافی: ج3 ص30، تفسیر عیاشی ج1 ص299، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص 103، علل الشرائع ج 1 ص279، تہذیب الاحکام ج1 ص61)
رجال الحدیث:
کافی میں یہ روایت ان اسناد سے نقل ہوئی ہے؛
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ
گویا اس کی دو اسناد ہوئیں؛
1) علی بن ابراھیم ---> ابراھیم بن ہاشم ---> حمّاد بن عیسی --->
حریز ---> زرارہ
2) محمد بن اسماعیل ---> فضل بن شاذان ---> حماد بن عیسی ---> حریز ---> زرارہ
ان دونوں اسناد کے تمام روات بالاتفاق ثقہ ہیں۔
من لا یحضرہ الفقیہ میں زرارہ سے نقل ہوئی، شیخ صدوق نے مشیخہ میں اپنا طریق زرارہ تک یوں نقل کیا ہے؛
شیخ صدوق –> ابیہ (علی ابن بابویہ قمّی) –> عبداللہ ابن جعفر حمیری –> محمد بن عیسی بن عبید، و حسن بن ظریف و علی ابن اسماعیل بن عیسی –> حماد بن عیسی –> حریز بن عبداللہ –> زرارہ
اس روایت میں شیخ صدوق کے والد، عبداللہ ابن جعفر حمیری، محمد بن عیسی بن عبید، حماد بن عیسی و حریز بن عبداللہ اور زرادہ ثقہ ہیں۔
شیخ صدوق نے علل الشرائع میں اسی روایت کو اس سند کے ساتھ بھی نقل کیا ہے؛
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة
اس سند میں بھی تمام راوی ثقہ ہیں۔
شیخ طوسی نے اس روایت کو کلینی سے نقل کیا اور کلینی سے آگے اس کی سند وہی ہے جو کافی میں تھی۔ اور شیخ طوسی کا اپنا طریق کلینی تک ثقات پر مشتمل ہے۔ تہذیب الاحکام میں اس سند کے ساتھ نقل ہوئی؛
مَا أَخْبَرَنَا بِهِ الشَّيْخُ أَيَّدَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة
شیخ طوسی کو اس روایت کا اجازہ شیخ مفید نے دیا، ان کو مشہور محدّث ابن قولویہ نے اور انہوں نے کلینی سے نقل کیا۔ یہ سب اجلاّت ثقات ہیں، کلینی سے آگے سند وہی ہے جو اصول کافی میں نقل ہوئی۔
درایۃ الحدیث:
جیسا کہ اوپر وارد ہوا کہ شیخ کلینی نے دو اسناد سے اس روایت کو نقل کیا اور دونوں صحیح کے درجے پر ہیں۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ صدوق کا زرارہ تک طریق بھی صحیح ہے۔ علل الشرائع میں بھی اس کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں اور روایت صحیح ہے۔ تہذیب الاحکام میں بھی اس کی سند صحمح ٹھہرے گی۔ دیکھا جائے تو یہ روایت کثرت طرق، کثرت نقل اور مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) کے اعتبار کی وجہ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر ہے۔
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مشایخ نے حمّاد بن عیسی یا حریز بن عبداللہ سجستانی کی کتاب سے اٹھایا ہے، جو یقینا ان کے پاس موجود ہوگی۔ اس زمانے میں حدیث کی کتب کو مشایخ کے پاس قرات کیا جاتا تھا یا جس کی کتاب تھی وہ اپنے شاگردوں کو املا کرتا تھا۔
فوائد الحدیث:
اس حدیث سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں؛
1) وضو کا شیعہ طریقہ قرآن سے ثابت ہے
2) سوال پوچھنا یا فتوی کا ماخذ پوچھنا بالکل بھی غلط نہیں بلکہ ذہنی بالیدگی کا ثبوت ہے۔ زرارہ جیسے جلیل القدر اصحاب آئمہ ع سے مختلف احکامات کی علّتیں یا ان کا ماخذ پوچھتے تھے، لیکن کبھی امام نے نہیں ٹوکا کہ تمہارا کام آنکھ بند کر کے عمل کرنا ہے۔
3) ظاہر قرآن حجت ہیں
4) یہ حدیث اجتہاد کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ امام ع گویا بتا رہے ہیں کہ ہمیں کس طرح سے قرآن و سنّت سے استنباط کرنا ہے۔ امام خمینی(رض) آئمہ(ع) کے دور میں اجتہاد کے وجود پر لکھتے ہیں؛
"ان دلائل میں وہ روایات ہیں جو کتاب اللہ سے حکم شرعی کے استنباط کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیسے زرارہ کی روایت ۔ غور کرو کہ امام کس طرح سے زرارہ کو کتاب اللہ سے استنباط کا طریقہ سکھا رہے ہیں۔"
(الرّسائل: ج2 ص127)
شیخ حرّ عاملی اس روایت کو اجتہاد سکھانے پر واضح دلیل سمجھتے ہیں۔ آپ "الفصول المھمّہ فی اصول الائمہ" میں اصول فقہ کے باب میں اس روایت کو اس عنوان سے لاتے ہیں "ان الباء تاتی للتبعیض کآیۃ الوضوء والتیمم"۔
دکتر ابوالقاسم گرجی اس روایت کو ان روایات میں شمار کرتے ہیں جو صدر اسلام میں اجتہاد اور اصول فقہ کے وجود پر دلالت کرتے ہیں (تحوّل علم اصول، ص19)
ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ یہ روایت زرارہ کے ضعف ایمان اور بے ادبی پر دلالت کرتی ہے، تو اس کا جواب شیخ بہائی نے مشرق الشمسین میں دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ بے ادبی شمار نہیں ہوں گے اور نہ ضعف اعتقاد ہے، بلکہ زرارہ چونکہ اہل سنّت کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کرتے تھے اور وہ ہر بات کی دلیل پوچھتے تھے اس لئے زرارہ امام باقر(ع) سے رہنمائی کے طالب ہوئے۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: سید جواد رضوی

کیا حضور(ص) کی شادی پہلے سے حضرت آسیہ (زوجۂ فرعون) کے ساتھ ہو چکی ہے

٭کیا حضور(ص) کی شادی پہلے سے حضرت آسیہ (زوجۂ فرعون) کے ساتھ ہو چکی ہے٭
سوال) جنید جمشید صاحب اپنی ایک ویڈیو میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت خدیجہ (س) کی وفات ہونے لگی تو رسول اللہ نے فرمایا خدیجہ جب جنت میں جاؤ تو اپنی سوکن کو میرا سلام کہنا،،،حضرت خدیجہ نے کہا یا رسول اللہ میری تو کوئی سوکن نہیں،،آقاﷺ نے فرمایا ، تجھ سے پہلے اللہ نے میرا نکاح آسیہ(فرعون کی بیوی) سے کر دیا تھا۔ کیا یہ حدیث درست ہے؟
جواب) ان روایات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کچھ کتب اہلسنت جیسے معجم طبرانی و تاریخ دمشق وغیرہ میں اس طرح کی روایات ملتی ہیں جن میں یہی بات درج ہے کہ اللہ تعالی نے پہلے سے ہی جناب مریم و آسیہ کا نکاح حضرت رسول اکرم(ص) سے طے کر رکھا ہے، یا جنت میں ان کی باہم شادیاں کرے گا۔ لیکن سب روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، جبکہ شیعہ منابع میں ایسی کوئی روایت ہمیں ملی ہی نہیں البتہ علامہ مجلسی نے اہلسنّت منابع سے حضرت خدیجہ س کی وفات کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول ص نے ان سے فرمایا کہ جنّت میں اللہ تعالی تمہیں اور مریم اور آسیہ کو میری ازواج میں سے قرار دے گا۔ لیکن اس روایت کی بھی کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ یہ ضعیف و مقطوع اسناد کے ساتھ منقول ہے۔
لہذا ایسی بات پر یقین رکھنا اور قطعی طور پر رسول اللہ(ص) سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ یہ بات مقام رسالت کے بھی منافی ہے اور اس طرح کی ضعیف روایت نقل کرنے سے پہلے آنجناب(ص) کی شخصیت کو مدّنظر رکھنا چاھئے، بعید نہیں کہ مذکورہ روایت گڑھی ہوئی ہو، کیونکہ سند اور متن دونوں اس کے عدم صدور پر دلالت کرتے ہیں۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
العبد: سید جواد رضوی


بغیر تصدیق سوشل میڈیا یا ایس ایم ایس پر حدیث شیئر کرنا


*بغیر تصدیق سوشل میڈیا یا ایس ایم ایس پر حدیث شیئر کرنا*
سوال: آجکل ایس ایم ایس یا فیس بک پر بغیر ریفرنس احادیث گردش کرتی ہیں اور کچھ انتہائی مقبول بھی ہو چکی ہیں، ان کو آگے فارورڈ کرنے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: امام باقر(ع) کا ارشاد گرامی ہے: مَنْ دَانَ اللَّهَ بِغَيْرِ سَمَاعٍ عَنْ صَادِقٍ أَلْزَمَهُ اللَّهُ الْبَتَّةَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة
امام باقر(ع): جو شخص دین الہی میں کچھ شامل کرے کسی صادق اور سچّے آدمی سے سنے بغیر، اللہ اس شخص کو قیامت والے دن تک حیرت و گمراہی میں مبتلا کرے۔
(بصائر الدرجات: ج1 ص14، الکافی: ج1 ص377)
یہ روایت جابر بن یزید جعفی نے امام باقر(ع) سے نقل کی ہے اور کتاب بصائر الدرجات میں مذکور ہے۔ شیخ کلینی نے کم و بیش انہی الفاظ کے ساتھ مختلف سند کے ساتھ امام صادق(ع) سے نقل کی ہے۔ نیز شیخ نعمانی نے بھی ایک الگ سند سے امام صادق(ع) سے کم و بیش انہی الفاظ میں یہ حدیث نقل کی ہے۔
آج کل ایس ایم ایس یا فیس بک پر آئمہ طاھرین(ع) سے منسوب جعلی احادیث بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جن کے ریفرنس اکثر اوقات جعلی ہوتے ہیں۔ بعض حالات میں تو کوئی ریفرنس یا حوالہ ہی نہیں ہوتا۔
برائے مہربای خوف خدا کریں اور آئمہ(ع) پر جھوٹ باندھنے کے بجائے یا ان سے منسوب کوئی ایس ایم ایس پھیلانے سے پہلے حوالہ کسی بھی مستند عالم سے چیک کرا لیں۔ اور اگر کوئی حوالہ نہیں ہے تو اس کو فارورڈ کرنے سے اجتناب کریں۔ اکثر لوگ نادانستہ طور پر اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یاد رھے کہ معصومین(ع) پر جھوٹ
باندھنا یا ان سے منسوب جھوٹی باتیں پھیلانا عظیم گناہ ہے۔
خاکسار: سید جواد رضوی







منگل، 3 مئی، 2016

ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت


٭ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت٭
جب بھی معاشرے میں مغربی یلغار کے تحت کوئی نئی چیز آتی ہے تو طبیعی ہے کہ اس کی مخالفت ہوگی۔ لیکن چند ہی عرصے کے بعد وہ شئے قابل قبول ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب برصغیر میں لاؤڈ اسپیکر آيا تو علماء میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا لاؤڈ اسپیکر پر اذان جائز ہے یا نہیں، بہت سے علماء نے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کو حرام قرار دیا۔ لیکن آج دیکھیں تو مولوی حضرات کا لاؤڈ اسپیکر کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔
ایک عرصے تک تصاویر یا موویز بنوانے کو حرام کہا جاتا تھا اور اس سلسلے میں حد درجہ مبالغہ آرائی کی جاتی تھی کہ یہ خدا کی تخلیق میں دخل اندازی کے برابر ہے۔ دعوت اسلامی کے الیاس قادری صاحب بھی تصاویر اور موویز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، آج سے دس پندرہ سال پہلے ان کو کسی نے بھی تصویر میں نہیں دیکھا تھا، آج مدنی چینل پر ان کا رخ انور ہر وقت جلوہ گر رہتا ہے۔ لال مسجد کے خطیب صاحب جب ٹی وی پر آتے تھے تو ان کا ہیولا دکھایا جاتا تھا یا پیچھے سے ان کی پیٹھ دکھائی جاتی تھی۔ آج مولوی صاحب اسلام کی سربلندی کے لئے ٹی وی چینلز پر ذوق و شوق سے تشریف لاتے ہیں۔
ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ بلتستان میں کافی عرصہ پہلے فٹ بال کھیلنے کو حرام سمجھا جاتا تھا، کہا جاتا تھا کہ یہ کھیل سب سے پہلے یزید کی فوج نے کھیلا جب شہدائے کربلا کے سروں کی بے احترامی کی گئی اور فٹ بال کھیلا گیا۔ لیکن اب یہ خیال شاید ہی کسی کے ذہن میں آتا ہو۔
جب مغربی ثقافتی یلغار کی وجہ سے معاشرے میں والدین کے مخصوص ایام آئے تو پھر سے اس کی مخالفت ہوئی۔ یہ مخالفت کہیں کہیں اب بھی قائم ہے، کہا جاتا ہے کہ اسلام میں والدین کے لئے ایک دن مقرر نہیں بلکہ سارا سال ان کی خدمت کرنی چاھئے۔ یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے، لیکن دوسرے نقطۂ نگاہ سے دیکھیں تو بیشک ہمیں والدین کی عزّت اور ان سے محبت سارا سال کرنی چاھئے لیکن ایک دن سب اپنے والدین کے لئے محبت کا اظہار کریں جو ان کے لئے بے انتہاء خوشی و مسرّت کا باعث ہوگا، اور ان کی خدمات و زحمات کو خراج تحسین کا ایک انداز بھی ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس بات کو درک کیا کہ مغربی اثرات کے سامنے پل باندھنے کا فائدہ نہیں، انہوں نے اس چیز کو ترمیمات کے ساتھ معاشرے میں رائج کیا، اس طرح سے کہ وہاں امام علی ع کی یوم ولادت کو فادر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے اور جناب زھرا(س) کی ولادت کو مدر ڈے کے طور پر۔ یہ ایک خوش آیند قدم ہے کہ اس طرح اسلامی ایام کا التزام بھی ہوگا اور جدید تقاضے بھی پورے ہوں گے، اور ایک مخصوص دن والدین کے ساتھ تجدید محبت ان کی زحمات کو خراج تحسین پہنچانے کے لئے مؤثر بھی ثابت ہوگا، گو کہ اسلامی احکامات کے تحت سارا سال بھی والدین کی خدمت کی جائے۔
اسی طرح جب ہمارے ہاں ویلنٹائن ڈے کی آمد ہوئی تو حسب معمول اسی طرح سے شدومد کے ساتھ اس کی مخالفت کی گئی، اور اس کو حرام کہا گیا۔ بعض پوسٹس میں اس کو یہودیوں کا دن کہا گیا اور انتہائی غیر مہذبانہ تعبیریں بھی استعمال کی گئیں۔ ہمارے لوگ گمان کرتے ہیں کہ اس طرح سختی سے کام لے کر شاید اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح سختی سے مقابلہ کسی نتیجے کا حامل نہیں ہوتا۔ بلاوجہ مذہبی طبقات اور معاشرے کے روشن خیال افراد میں دوری پیدا ہو جاتی ہے، جس کے دیگر منفی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
لہذا اس کو حرام یا یہودی سازش کہہ کر کنارہ کش ہونے میں فائدہ نہیں، اس مسئلے کو شریعت کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں دیکھنا چاھئے۔ اسلام کے اصول ایک خاص وقت اور معاشرے کے لئے نہیں بلکہ اس کے اصول آفاقی ہیں، یعنی ہر زمانے میں اسلام کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر نئی چیز کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ویلنٹائن کو دیکھیں تو اس دن اظہار محبت کے نام پر ناجائز اختلاط کی تشویق بھی ہے اور ساتھ ہی عزیز و مشروع رشتوں کے درمیان اظہار محبت بھی ہے۔ اس دن میاں بیوی اور منگیتر حضرات بھی تحفے تحائف اور اظہار محبت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور کئی جگہوں پر دیگر رشتوں جیسے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے درمیان بھی یہ سلسلہ نظر آتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کا تصور یہ ہے کہ ہر شخص ان رشتوں کو خراج تحسین پیش کرے جو اس کی زندگی میں اہمیت کی حامل ہیں، گو کہ اس میں غلط طور طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں، جیسے عید ایک اسلامی تہوار ہے لیکن اس دن بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو غلط ہیں لیکن ان غلط کاموں سے عید کی قداست پر حرف نہیں پڑتا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے اس کے جائز پہلوؤں کو دیکھا جائے اور ناجائز طریقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امام علی(ع) و جناب فاطمہ زھرا(س) کی شادی والے دن اظہار محبت کے جائز پہلوؤں کو اپنایا جائے، تاکہ مولا علی(ع) و جناب زھرا(ع) کی ذوات مقدسہ سے کامیاب ازدواجی زندگي گزارنے کا درس ملے۔
چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ مطلق کسی شئے کو حرام قرار دے کر کنارہ کش ہو جانا دیرپا نہیں ہے، اگر اسی وقت ہی سمجھداری سے حکم لگایا جائے تو بہت سارے مسائل کا حل مل جائے گا۔ اگر مذہب کی غیر عقلانی تشریحات ہوں اور نوجوانوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ اسلام میں سختی ہی سختی ہے، اور محض کسی دن جائز طریقے سے بھی اظہار محبت حرام ٹھہرتا ہے تو یہ بات ان کے اذہان میں مثبت اثر نہیں چھوڑتا۔ لہذا ویلنٹائن ڈے ضرور منائیں لیکن ان رشتوں کے ساتھ جن کو اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دیا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ

خاکسار: سید جواد رضوی

کیا اہل بدعت کو گالیاں دینا اور تہمتیں لگانا جائز ہے؟

٭کیا اہل بدعت کو گالیاں دینا اور تہمتیں لگانا جائز ہے؟٭
سوال: بعض روایات میں ہے کہ جو شخص بدعت کرے اس کو خوب گالیاں دی جائیں اور تہمت لگائی جائے، ان روایات کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟
جواب: نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا؛
رسول الله(ص): إذا رأيتم أهل الريب والبدع من بعدي فأظهروا البراءة منهم وأكثروا من سبهم والقول فيهم والوقيعة، وباهتوهم كي لا يطمعوا في الفساد في الإسلام ويحذرهم الناس ولا يتعلمون من بدعهم ، يكتب الله لكم بذلك الحسنات ويرفع لكم به الدرجات في الآخرة
" اگر میرے بعد شک اور بدعت کرنے والوں کو پاؤ گے تو ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرو۔ ان میں سے اکثر کو ذلیل و خوار کرو، ان کی بد گوئی کرو( گالیاں دو)، اور انھیں برہان و دلیل سے خاموش کردو,اسلام میں فساد پھیلانے کی لالچ نہ کرسکیں اور نتیجہ کے طور پر لوگ ان سے دوری اختیاری کریں اور ان کی بدعتوں سے آلودہ نہ ہو جائیں اور خدا وند متعال اس کام کے بدلے میں آپ کے لئے ثواب لکھے گا اور آخرت میں آپ کے درجات کو بلند کرے گا۔"
شیخ کلینی نے یہ روایت اس سند کے ساتھ نقل کی ہے؛
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ سِرْحَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع
اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے، لیکن روایت کے بعض الفاظ کے متعلق اشکال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس میں کثرت سے گالیاں دینے کا حکم ہے، جبکہ قرآنی آیات اور دیگر روایات میں سب و شتم و گالم گلوچ سے منع کیا گيا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ مکارم شیرازی اس روایت کو معتبر نہیں سمجھتے۔
اس روایت میں جس لفظ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے وہ "باھتموھم" ہے جس سے اکثر افراد یہ سمجھے کہ یہاں تہمت و بہتان لگانے کا حکم ہے۔ فیض کاشانی و شہید مطہری نے اس کو حق و براہین سے مبہوت کرنے کے زمرے میں لیا ہے۔ یعنی اہل بدعت و ضلال کو جب دیکھو تو ان کو براہین و دلائل سے مبہوت و لاجواب کر دو جیسا کہ حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کو کیا "فبھت الذی کفر"۔۔۔۔۔ یعنی کفر کرنے والا (ابراھیم ع کے دلائل سن کر) مبہوت رہ گیا
اس روایت میں کلام کافی ہے، اکثر علماء نے تصریح کی ہے کہ اہل بدعت بھی ہوں، جھوٹ اور تہمت و بہتان کی اجازت نہیں کیونکہ یہ شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ ان کو ذلیل کرنے سے مراد ان کو دلائل دے کر ذلیل کرنا ہے، نہ کہ جھوٹ بول کر اور ناروا تہمتیں لگا کر، جو یقینا غیر مہذبانہ عمل ہے۔

العبد: سید جواد رضوی

مصلحت آمیز جھوٹ فساد انگیز سچ سے بہتر ہے


٭مصلحت آمیز جھوٹ فساد انگیز سچ سے بہتر ہے٭
حضرت محمد مصطفی(ع) اپنی طویل وصیت میں امام علی(ع) سے فرماتے ہیں؛
يَا عَلِيُّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَحَبَّ الْكَذِبَ فِي الصَّلَاحِ وَ أَبْغَضَ الصِّدْقَ فِي الْفَسَاد
"اے علی! اللہ عزوجل اس جھوٹ کو پسند کرتا ہے جو صلاح و بہتری کے لئے ہو، اور اس سچ کو ناپسد کرتا ہے جس سے فساد پھوٹے۔"
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج4 ص353 حدیث5762)
شیخ سعدی گلستان میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی بادشاہ نے ایک لغزش پر کسی اسیر کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ جب اس اسیر کو اپنی موت سامنے نظر آئی تو بادشاہ کو گالیاں دینے لگا۔ بادشاہ کو سمجھ نہیں آئی تو پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟
ایک با تدبیر وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت وہ اس آیت کی تلاوت کر رہا ہے؛
«والکاظمین الغیظ و العافین عن الناس»
"(اہل ایمان) اپنے غیظ و غضب کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی غلطی پر ان کو معاف کرتے ہیں"
بادشاہ نے یہ سنا تو نرم پڑ گیا اور اس اسیر کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس پر ایک دوسرا درباری جو دل میں برائی اور وزیر سے دشمنی رکھتا تھا، بادشاہ سے کہنے لگا کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ اسیر تو آپ کو گالیاں دے رہا تھا۔
اس پر بادشاہ نے کہا کہ اس وزیر کا جھوٹے میرے لئے تمہاری سچائی سے زیادہ بہتر ہے، کیونکہ اس نے مصلحت سے (ایک شخص کی جان بچانے کے لئے) جھوٹ کہا اور تم اپنی باطنی خباثت کی وجہ سے سچ بول رہے ہو۔
اسی لئے فارسی مقولہ ہے؛
"دروغ مصلحت آمیز بہ از راست فتنہ انگیز"۔
چنانچہ وہ جھوٹ جس سے دو انسانوں کے درمیان قرب بڑھے اور دلوں کی کدورتیں دور ہوں اس سچ سے بہتر ہے جس سے دلوں میں دوری پیدا ہو یا کسی کی بدگوئی ہو یا کسی مسلمان یا انسان کو نقصان و آزار پہنچے۔

خاکسار: سید جواد رضوی

کیا جہنّم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے؟


٭ کیا جہنّم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے؟ ٭
بعض روایات کا مضمون ہے کہ جہنّمیوں کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی، لیکن یہ روایات معتبر نہیں اور ان کا متن قابل استدلال نہیں۔ جیسے شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں اس مضمون کی ایک روایت نقل کی ہے؛
وَ مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ص عَلَى نِسْوَةٍ فَوَقَفَ عَلَيْهِنَّ ثُمَّ قَالَ يَا مَعَاشِرَ النِّسَاءِ مَا رَأَيْتُ نَوَاقِصَ عُقُولٍ وَ دِينٍ أَذْهَبَ بِعُقُولِ ذَوِي الْأَلْبَابِ مِنْكُنَّ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ- يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَتَقَرَّبْنَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا اسْتَطَعْتُنَّ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَ عُقُولِنَا فَقَالَ أَمَّا نُقْصَانُ دِينِكُنَّ فَالْحَيْضُ الَّذِي يُصِيبُكُنَّ فَتَمْكُثُ إِحْدَاكُنَّ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا تُصَلِّي وَ لَا تَصُومُ وَ أَمَّا نُقْصَانُ عُقُولِكُنَّ فَشَهَادَتُكُنَّ إِنَّمَا شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ نِصْفُ شَهَادَةِ الرَّجُل
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث ص391)
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) کچھ خواتین کے پاس سے گزر رہے تھے تو ان کو ناقص العقل اور ناقص الایمان کہا اور فرمایا کہ میں نے جہنّمیوں کی اکثریت کو تم میں سے دیکھا ہے لہذا اللہ سے تقرّب کی جتنی ممکن ہو کوشش کرو۔ اس پر عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ(ص) ہماری عقل اور ایمان کیسے ناقص ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان اس لئے ناقص ہے کیونکہ ایّام حیض میں تم نماز نہیں پڑھ سکتیں اور روزہ نہیں رکھ سکتیں، اور عقل کا نقص یہ ہے کہ ایک عورت کی گواہی مرد کی آدھی گواہی کے برابر ہے۔
یہ روایت شیخ صدوق نے مرسل نقل کی ہے، اس روایت کا مضمون بھی قابل مناقشہ ہے کیونکہ ایمان کا تعلق اس چیز سے ہے جس پر انسان کا اختیار ہو، ایاّم حیض کا ہونا اللہ تعالی کے امر سے ہے، اگر ان ایام میں روزہ اور نماز سے منع کیا گيا ہے اور کوئی خاتون اللہ کے حکم کی بجا آوری میں نماز و روزہ سے دور رہے تو یہ بھی عین اطاعت ہے اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ بالفاظ دیگر عبادت اللہ کے حکم کی اطاعت کا ہی نام ہے۔ پس اس چیز کو ایمان کے نقص کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔
محدّث نوری نے بھی ایک روایت مستدرک الوسائل میں نقل کی ہے اور فرمایا ہے کہ بعض قدیم نسخوں میں انہوں نے یہ روایت دیکھی اور احتمال ظاہر کیا ہے کہ احمد بن عبدالعزیز الجلودی کی کتاب خطب سے یہ روایت لی گئی ہوگی، جبکہ اس کی سند میں بھی بعض مجاہیل ہیں؛
وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ نَبِيّاً وَ رَسُولًا لَقَدْ بَعَثَنِي [رَبِّيَ] الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ فَعَرَضَنِي عَلَى جَنَّتِهِ وَ نَارِهِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ النِّسَاءَ فَقُلْتُ يَا حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ وَ لِمَ ذَلِكَ فَقَالَ بِكُفْرِهِنَّ فَقُلْتُ يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ لَا وَ لَكِنَّهُنَّ يَكْفُرْنَ النِّعْمَةَ فَقُلْتُ كَيْفَ ذَلِكَ يَا حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ فَقَالَ لَوْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا زَوْجُهَا الدَّهْرَ كُلَّهُ لَمْ يُبْدِ إِلَيْهَا سَيِّئَةً قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْهُ خَيْراً قَط
اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے مجھے نبی اور رسول مبعوث کیا، اور مقام محمود پر فائز کیا۔ جب (معراج کے وقت) میں جہنم پہنچا تو جہنّم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل تھی، میں نے جبرائیل سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ یہ اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں ہیں۔ تو میں نے پوچھا کہ کیا وہ اللہ پر کفر کریں گی؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ کفران نعمت کریں گی، ان کا شوہر ان سے اچھا سلوک کرے اور کوئی برائی نہ بھی کرے تب بھی یہ کہیں گی کہ ہم نے اپنے شوہر سے کبھی اچھائی نہیں دیکھی۔ (مستدرک الوسائل: ج14 ص243)
محدّث نوری نے ہی مستدرک الوسائل میں ایک اور روایت بغیر کسی سند نقل کی ہے؛
وَ قَالَ ص يَا مَعَاشِرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ وَ أَكْثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّار
یعنی رسول(ص) نے فرمایا کہ اے عورتوں، کثرت سے صدقہ دو اور استغفار کرو کیونکہ میں نے تم میں سے اکثر کو اہل جہنّم میں سے دیکھا ہے۔ (مستدرک الوسائل: ج 14 ص310)
پس ہمیں اس سلسلے میں تین روایات ملی ہیں، پہلی روایت مرسل ہے اور اس کے متن میں بھی اشکال ہے، دوسری روایت مجہول ہے اور اس کا ماخذ و مصدر معلوم نہیں، یہی حال تیسری روایت کا بھی ہے جس کی کوئی سند نہیں ہے۔
ان روایات کے برعکس دیگر معتبر احادیث موجود ہیں جن میں درج ہے کہ جنّت کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی۔ اور جب احادیث میں تعارض ہوگا تو مرجّحات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، سند کا صحیح/ مؤثق / معتبر ہونا بھی ان مرجحات میں سے ایک ہے۔ لہذا اپنے موقف کی اثبات میں ہم دو معتبر احادیث پیش کرتے ہیں؛
1) شیخ صدوق نے فضیل سے نقل کیا ہے؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لَهُ شَيْءٌ يَقُولُهُ النَّاسُ إِنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ النِّسَاءُ قَالَ وَ أَنَّى ذَلِكَ وَ قَدْ يَتَزَوَّجُ الرَّجُلُ فِي الْآخِرَةِ أَلْفاً مِنْ نِسَاءِ الدُّنْيَا فِي قَصْرٍ مِنْ دُرَّةٍ وَاحِدَة
امام صادق(ع) سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اکثر اہل جہنّم عورتیں ہوں گی۔ تو آپ(ع) نے فرمایا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ وہاں ایک مرد اس دنیا کی ہزار عورتوں سے نکاح کرے گا اور سچے موتیوں سے بنے محل میں رہے گا۔ (من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث 4627)
اگر یہاں فضیل سے مراد فضیل بن عثمان اعور ہیں تو شیخ صدوق کا طریق ان تک صحیح ہے، اس طریق کو علامہ حلّی نے بھی صحیح کہا ہے۔ اگر اس سے مراد فضیل بن یسار ہیں تب بھی اس کی سند معتبر ٹھہرے گی۔
اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اہل جنّت کی باہم شادیاں کر دی جائیں گی، اور اس قدر عورتیں ہوں گی کہ مردوں کی کمی کے باعث ایک مرد سے کئی عورتیں بیاہی جائیں گی، لہذا جنّت میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اور صادق آل محمد(ص) نے عوام الناس خاص طور پر اہلسنّت میں مشہور اس فکر سے انکار کیا کہ جہنّم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی۔ بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس مضمون کی شیعہ روایتیں بھی راویوں کے اشتباہ کی وجہ سے شیعہ کتب میں در آئی ہیں۔
حالانکہ آئمہ(ع) اس صحیح حدیث میں واضح فرماتے ہیں کہ اہل جہنم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل نہیں جبکہ اس ادعا کے برعکس اہل جنت کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی۔
2) من لا یحضرہ الفقیہ میں اس سے اگلی روایت بھی اس لحاظ سے بہت خوبصورت ہے، عمار ساباطی سے منقول ہے؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِينَ النِّسَاءُ- عَلِمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ضَعْفَهُنَّ فَرَحِمَهُن
امام صادق(ع): اہل جنت کی اکثریت مستضعف عورتوں پر مشتمل ہے، چونکہ اللہ تعالی کو (معاشرے میں) ان کی کمزوری (اور مظلومیت) کا علم ہے تو وہ عورتوں پر خاص رحم و شفقت کرے گا۔
عمار ساباطی فطحی مذہب تھے لیکن ثقہ تھے، البتہ ان کی منفردات پر عمل کرنا ہمارے نزدیک درست نہیں۔ لیکن چونکہ دیگر صحیح روایات اس مضمون کی تائید کر رہی ہیں لہذا یہ روایت قابل قبول اور قابل استدلال ہے۔ شیخ صدوق نے عمار ساباطی تک جو طریق بیان کیا ہے اس میں بھی تین نام احمد بن حسن بن علی بن فضال، عمرو بن سعید المدائنی اور مصدق بن صدقہ فطحی المذہب ہیں لیکن ثقہ ہیں۔ پس یہ روایت مؤثق ٹھہرے گی۔
اس حدیث میں خاص نکتہ پایا جاتا ہے، اللہ تعالی خواتین پر خاص شفقت کرے گا، اور یہ شفقت اس دنیا میں بھی محیط ہے، اور اہل ایمان کو خاص تلقین کی گئی ہے کہ اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کریں اور ان پر شفقت کریں، چاہے یہ بیویاں ہوں یا مائیں ہوں یا بہنیں ہوں یا بیٹیاں ہوں۔
3) اس سے آگے ہمیں ایک اور حدیث ملتی ہے جس سے کا ذکر اس حوالے سے کافی ضروری ہے؛
وَ قَالَ الصَّادِقُ ع الْخَيْرَاتُ الْحِسَانُ مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الدُّنْيَا وَ هُنَّ أَجْمَلُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ
امام صادق(ع) قرآن کی اس آیت "فیھن خیرات حسان" کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں خوبصورت اور خوبرو عورتوں سے مراد اس دنیا کی نیک عورتیں ہیں جو حوروں سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں گی۔ (من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث4631)
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوا کہ عام پروپیگنڈے کے برعکس اللہ تعالی خواتین پر بہت شفقت کرتا ہے اور ان کو خاص لطف و احترام کی نکاہ سے دیکھتا ہے۔ ہمارے والد محترم اکثر فرماتے ہیں کہ خواتین سے دعائین کرواؤ کیونکہ اللہ مردوں کی نسبت خواتین کی زیادہ سنتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو پرانے زمانوں سے لے کر اب تک عورت ہمیشہ مظلوم واقع ہوئی ہے اور مردوں کےاستحصال کا شکار رہی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیشہ مظلوم طبقات کی حمایت کی اور ان کے استحصال کی وجہ سے ان کی چھوٹی سی نیکی بھی اللہ کے نزدیک بہت بڑی ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو دین و دنیا میں بصیرت عطا فرمائے، اور دین مبین اسلام کو بہتر انداز میں سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

خاکسار: سید جواد رضوی
ادارہ احیائے تعلیمات محمد و آل محمد(ص)

شیعہ مراجع اور اتحاد بین المسلمین



٭شیعہ مراجع اور اتحاد بین المسلمین٭
سوال: کہا جا رہا ہے کہ آیت اللہ العظمی شیخ حسین وحید خراسانی اتحاد بین المسلمین کے مخالف ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب: آیت الله العظمی شیخ حسین وحید خراسانی(دامت برکاتھم) کا شمار درجہ اول کے مراجع میں ہوتا ہے. قم میں ان کا درس خارج اصول مشہور ہے جہاں ایک وقت میں سینکڑوں فضلا ان سے خوشہ چینی کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف پروپگنڈوں کی طرح یہ بھی درست نہیں کہ آپ اتحاد کے خلاف ہیں. ہاں آپ اس اتحاد کے خلاف ہیں جس میں صدیوں سے رائج شیعہ تاریخی و اصولی موقف سے دستبردار ہوا جائے. اور ایسے اتحاد کے دیگر مراجع بھی قائل نہیں۔
ہر وہ مرجع جو عالم اسلام کے مسائل کو درک کرتا ہو اور تاریخ میں آئمہ ع کی سیرت و کردار کا عمیق مطالعہ کر چکا ہو وہ کبھی اتحاد بین المسلمین اور تقریب مذاہب کا مخالف نہیں ہوگا۔ یہاں ایک اور جید مرجع آیت اللہ العظمی سید موسی شبیری زنجانی(حفظہ اللہ) کے چند الفاظ بہت مفید ہوں گے جو انہوں نے مختلف اسلامی مسالک کے درمیان تقریب (قربت) کے بارے میں لکھے ہیں۔ یاد رہے کہ جو لوگ آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کے بارے میں اس طرح کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں وہ آیت اللہ موسی شبیری زنجانی کا بہت احترام کرتے ہیں، بلکہ آنجناب کی شخصیت ہی ایسی ہے کہ ہر طرز فکر کے لوگ ان کا احترام کرتے ہیں۔ رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (دام ظلہ) کے بیٹوں کے استاد ہیں اور ساتھ ہی مرحوم آیت اللہ العظمی شیخ حسینعلی منتظری(رح) نے اپنے مقلّدوں کو اپنی وفات کے بعد آیت اللہ العظمی شبیری زنجانی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔
آمدم بر سر مطلب، ان کے الفاظ ہم من و عن یہاں ترجمہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں؛
"اتحاد بین المسلمین دو طرح کے ہیں، ایک ممدوح ہے اور ایک مذموم ہے۔ وہ تقریب بین المسلمین جو آیت اللہ شیخ محمد تقی قمّی نے مصر میں قائم کی تھی ممدوح تھی اور اس میں کوئی اشکال نہ تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ شیعہ اور سنّی کے درمیان مشترکات ہیں لیکن زہریلے پروپیگنڈے کی وجہ سے دونوں فرقے ایک دوسرے کو درست انداز میں نہیں پہچانتے۔ اگر طرفین ایک دوسرے کو صحیح طور پر پہچاننے لگیں تو بہت سے اختلافات ختم ہو جائیں۔
اہلسنت کے درمیان یہ بات پھیلائي جاتی ہے کہ شیعہ علی(ع) کو خدا کہنے والے ہیں یا نماز کے بعد "خان الامین" کہتے ہیں (یعنی حضرت جبرائیل نے معاذاللہ رسالت علی ع کے بجائے خیانت سے محمد ص کو دی)، اور اسی طرح دیگر غلط باتوں کی نسبت شیعوں سے دی جاتی ہے۔ ایک اور عامل جس کی وجہ سے سنّی شیعہ کو نہیں پہچان سکتے وہ ان کی شیعہ کتب تک عدم دسترسی ہے۔ جبکہ اس بارے میں ہم اہلسنت کو پڑھ سکتے ہیں کیونکہ سنی کتب ہمارے کتب خانوں میں موجود ہیں اور ممنوع نہیں ہیں۔ لیکن شیعہ کتب بہت سے سنّی ممالک میں ممنوع ہیں۔ اسی طرح شیخ تقی قمّی نے مسالک کے درمیان قربت کو تشکیل دیا تاکہ طرفین کے مشترکات معلوم ہوں اور دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں۔ متعصب افراد پہلے ان کے موافق نہیں تھے اور شاید اواخر تک مخالف رہے۔
شیخ محمد تقی فرمایا کرتے تھے: اس سے قبل کہ میں مسالک کے درمیان تقریب پیش کروں، یہ لوگ میرا نام القابات کے ساتھ لکھتے، لیکن جب میں نے مسالک کے درمیان قربت کے لئے کام شروع کیا تو اعتراض کیا کہ یہ کیوں مصر میں یہ کام کر رہے ہیں، جائیں ایران میں یہ کام کریں۔ اس کے بعد میرے القابات میں کمی ہونا شروع ہوئی یہاں تک کہ صرف میرا نام "محمد تقی" لکھنے لگے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ اواخر میں میرا نام "تقی من التقیہ" لکھنے لگے یعنی میرا نام تقیہ سے مشتق سمجھنے لگے، بجائے تقوی سے۔
اس اتحاد بین المسلمین کی ترویج مرحوم آقائے بروجردی بھی فرماتے تھے۔ ابتدا میں آیت اللہ تقی قمّی شاہ ایران کی طرف سے مصر گئے لیکن بعد میں آقائے بروجردی سے متصل ہوئے اور ان کی طرف سے دارالتقریب (اسلامی مذاہب کو قریب لانے والا ادارہ) کے مسؤول مقرر ہوئے۔ ان اقدامات کی وجہ سے مفتی اعظم مصر شیخ محمد شلتوت نے (مشہور) فتوی دیا کہ مذہب جعفری کے مطابق محاکم قضائی میں عمل کرنا اشکال نہیں رکھتا۔ یہ فتوی اہلسنّت کے درمیان بہت اہمیت کا حامل تھا۔
امّا مذموم اتحاد وہ تقریب ہے جو (ایرانی بادشاہ) نادر شاہ نے شروع کیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ایران کو اصول دین میں سنّی ہونا چاھئے، لیکن چونکہ فروع میں عادت کر چکے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) کے احکامات کے مطابق عمل کریں، لہذا کوئی مانع نہیں کہ (فروع) میں جعفری مسلک کے مطابق عمل کریں۔ بعض شیعہ علماء نے خوف کی وجہ سے نادر شاہ کے اس اتحاد کے فارمولے پر دستخط کئے وگرنہ نادر شاہ ان کو قتل کرتا۔ اور جنہوں نے مخالفت کی ان کو قتل کر دیا گیا۔"
یہاں آيت اللہ موسی شبیری زنجانی کے الفاظ تمام ہوئے۔ چنانچہ شیعہ مراجع کے نزدیک اتحاد بین المسلمین کا مطلب ہے کہ شیعہ سنّی باہم قریب ہوں اور ایک دوسرے کے مشترکات کو دیکھیں۔ دونوں اپنے اپنے مسالک پر قائم رہتے ہوئے اتحاد کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات بہت سارے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور حسب معمول افراط و تفریط کا شکار ہوئے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اتحاد کا مفہوم دونوں مسالک کے درمیان ادغام کی صورت میں لیا اور کہا کہ شیعہ اپنے عقائد سے دستبردار ہو جائیں، اور بعض بالکل شدت سے مخالف ہوئے۔
انہی لوگوں نے حالیہ کچھ بیانات کی وجہ سے آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کے بارے میں مشہور کرنا شروع کیا کہ آپ اتحاد کے مخالف ہیں۔ جبکہ ان کے بیانات کو غور سے پڑھا جائے تو واضح ہوگا کہ آپ اس مذموم اتحاد و تقریب بین مذاہب کے خلاف ہیں جس میں شیعہ اپنے صدیوں پرانے عقائد سے دستبردار ہوں، اور ان معنوں میں اتحاد و تقاریب کو دیگر مراجع نے بھی رد کیا ہے۔
آیت الله العظمی سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) اور آیت الله العظمی شیخ ناصر مکارم شیرازی (دامت برکاتھم) بار ہا وضاحت کر چکے ہیں کہ اتحاد کا مقصد یہ نہیں کہ شیعہ اپنے موقف سے دستبردار ہو جاییں اور یہ بھی کہ تاریخی واقعات بیان کرنا توہین نہیں. چنانچہ ایران میں ایّام فاطمیہ سرکاری سطح پہ منائے جاتے ہیں. اتحاد کا مقصد توہین کے بغیر ہم زیستی ہے لیکن علمی و تاریخی اختلافات اپنی جگہ ممکن ہیں۔
یہ بات بھی بیان ہونا ضروری ہے کہ جید مراجع جیسے آیات عظام سیستانی، مکارم شیرازی و خامنہ ای نے اہلسنت کے مقدسات کی توہین سے منع کیا۔ اختلافات کو توہین اور گالم گلوچ کے بغیر بھی بیان کیا جا سکتا ہے اور یہی شایستہ و منطقی طریقہ ہے جیسا قرآن میں حکم ہے کہ احسن انداز میں جدال کیا جائے۔ کم و بیش یہی رائے آیت الله وحید خراسانی بھی رکھتے ہیں، جیسا کہ ان کے ایک درس میں ایک طالب علم نے خلیفہ ثانی کی توہین کی تو آپ شدید ناراض ہوے اور اس طالب علم کو ٹوکا۔
کچھ عرصہ پہلے علمی حلقوں میں یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ آیت اللہ العظمی وحید خراسانی نے اپنے درس خارج کے دوران سنّی عالم امام فخر الدین رازی کی تفسیر سے ایک روایت پڑھی اور خلیفۂ ثانی حضرت عمر کے نام کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" کہا۔ اس کی وجہ سے بعض لوگوں نے خلیفۂ ثانی کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تو آپ کافی غصّے میں گویا ہوئے کہ کیا میں نے اپنے درس میں اس طرح کی باتوں سے منع نہیں کیا؟
لہذا اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں آيت اللہ العظمی وحید خراسانی کا بھی موقف وہی ہے جو دیگر مراجع جیسے آیت اللہ خامنہ ای و مکارم شیرازی کا ہے۔ جو گروہ اس حوالے سے غلط پروپیگنڈا کر رہا ہے اور لوگوں کے درمیان غلط فہمی پھیلا رہا ہے، ان کا شر نقش بر آب ثابت ہوگا انشاء اللہ۔

خاکسار: سید جواد رضوی
ادارہ احیائے تعلیمات محمد و آل محمد(ص)