فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی حیات طیبہ پر ایک نظر
علماء و مورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ ۱۱/ ذی قعدہ ۱۵۳ ھ یوم پنجشنبہ مدینہ منورہ متولد ہوئے آپ کی ولادت کے متعلق علامہ مجلسی اور علامہ محمدپارسا تحریرفرماتے ہیں کہ جناب نجمہ خاتون کا کہناہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے مجھے حمل کی گرانباری مطلقا محسوس نہیں ہوئی، میں اکثرخواب میں تسبیح وتہلیل اورتمہید کی آوازیں سنا کرتی تھی جب امام رضا علیہ السلام پیداہوئے توآپ نے زمین پرتشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پرٹیکے اور اپنا فرق مبارک آسمان کی طرف بلندکردیا آپ کے لبہائے مبارک جنبش کرنے لگے ،ایسامعلوم ہوتاتھا کہ جیسے آپ خداسے کچھ باتیں کررہے ہیں ، اسی اثناء میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت و کرامت مبارک ہو، پھر میں نے مولود کوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعد ارشاد فرمایاکہ ” اسے لے لو یہ زمین پرخداکی نشانی ہے اورمیرے بعد حجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے ابن بابویہ فرماتے ہیں کہ آپ دیگرائمہ علیہم السلام کی طرح مختون اورناف بریدہ متولدہوئے تھے۔
آپ کے والدماجد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اور تعیین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موافق آپ کو”اسم علی“ سے موسوم فرمایا،آپ آل محمد، کے تیسرے ”علی“ ہیں۔آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اور آپ کے القاب صابر، زکی، ولی،رضی اور وصی تھے اور مشہورترین لقب رضا تھا۔
علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کو رضا اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوعالم ، رسول اکرم اورائمہ طاہرین، نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے۔ علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آپ کے والد ماجد کو لقب رضا سے مامون رشیدنے ملقب کیاتھا تو آپ نے فرمایا ہرگزنہیں یہ لقب خدا و رسول کی خوشنودی کاجلوہ بردارہے اور خاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق و مخالف دونوں راضی اورخوشنودتھے۔
آپ کی نشوونما اورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اور اسی مقدس ماحول میں بچپن اور جوانی کی منزلیں طے ہوئیں اور تیس برس کی عمر پوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم علیہ السلام عراق میں قید ظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵/ برس آپ کو برابر اپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔
آپ کی نشوونما اورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اور اسی مقدس ماحول میں بچپن اور جوانی کی منزلیں طے ہوئیں اور تیس برس کی عمر پوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم علیہ السلام عراق میں قید ظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵/ برس آپ کو برابر اپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔
آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈور اس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اور ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمر کے آخری حصہ میں اور دنیاکو چھوڑنے کے موقع پر دوستان اہلبیت کی آپ سے ملاقات یا بعد کے لیے راہنما کا دریافت کرناغیرممکن ہوجائے گااس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کو اپنے بعد ہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولاد علی و فاطمہ میں سے سترہ آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے انہیں جمع فرماکر اپنے فرزند حضرت علی رضاعلیہ السلام کی وصایت اور جانشینی کااعلان فرمادیا اورایک وصیت نامہ بھی تحریر فرمایا جس پرمدینہ کے معززین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواہی لکھی گئی یہ اہتمام دوسرے ائمہ کے یہاں نظرنہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پر جن سے دوسرے ائمہ اپنی شہادت کے موقع پر دو چار نہیں ہونے والے تھے۔
۱۸۳ ھ میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ہارون رشید میں اپنی عمرکا ایک بہت بڑاحصہ گذار کردرجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر متمکن تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ہی ناسازگارتھے۔
حضرت امام علی رضاعلیہ السلام کے اخلاق وعادات اور شمائل وخصائل کا لکھنا اس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں ”مشتی نمونہ ازخرداری“یہ ہیں بحوالہ علامہ شبلنجی ابراہیم بن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگوکرنے میں سختی نہیں کی،اورکبھی کسی بات کوقطع نہیں فرمایا آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والااپنی بات ختم کرلیتاتھا تب اپنی طرف سے آغازکلام فرماتے تھے کسی کی حاجت روائی اورکام نکالنے میں حتی المقدور دریغ نہ فرماتے ،کبھی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے اورنہ اہل محفل کے روبروتکیہ لگاکربیٹھتے تھے کبھی اپنے غلاموں کوگالی نہ دی اور چیزوں کا کیا ذکر،میں نے کبھی آپ کے تھوکتے اورناک صاف کرتے نہیں دیکھا،آپ قہقہہ لگاکرہرگز نہیں ہنستے تھے خندہ زنی کے موقع پرآپ تبسم فرمایاکرتے تھے محاسن اخلاق اورتواضع وانکساری کی یہ حالت تھی کہ دسترخوان پرسائیس اوردربان تک کواپنے ساتھ بٹھالیتے ،راتوں کوبہت کم سوتے اوراکثرراتوں کوشام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے اکثراوقات روزے سے ہوتے تھے مگرہرمہینے کے تین روزےتوآپ سے کبھی قضانہیں ہوئے ارشادفرماتے تھے کہ ہرماہ میں کم ازکم تین روزے رکھ لیناایساہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے ۔
آپ کثرت سے خیرات کیاکرتے تھے اوراکثررات کے تاریک پردہ میں اس استحباب کوادافرمایاکرتے تھے موسم گرمامیں آپ کافرش جس پرآپ بیٹھ کرفتوی دیتے یامسائل بیان کیاکرتے بوریاہوتاتھااورسرمامیں کمبل آپ کایہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہدحکومت تھے آپ کالباس گھرمیں موٹااورخشن ہوتاتھا اوررفع طعن کے لیے باہرآپ اچھالباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندرکاپیراہن دکھلاکرفرمایااچھالباس دنیاوالوں کے لیے اورکمبل کاپیراہن خداکے لیے ہے۔
مورخین کابیان ہے کہ آل محمد کے اس سلسلہ میں ہرفرد حضرت احدیت کی طرف سے بلندترین علم کے درجے پرقراردیا گیاتھاجسے دوست اوردشمن کومانناپڑتاتھا یہ اوربات ہے کہ کسیکوعلمی فیوض پھیلانے کازمانے نے کم موقع دیا اورکسی کوزیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعداگرکسی کوسب سے زیادہ موقع حاصل ہواہے تو وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام ہیں ،جب آپ امامت کے منصب پرنہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمدہیں، اپنے دین مسائل کوان سے دریافت کرلیاکرو، اورجوکچھ اسے کہیں یادرکھو،اورپھرحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آب کی طرف رجوع کرتے تھے۔
منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ