٭تیمّم کی کیفیت٭
سوال) تیمّم میں صرف چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیوں کیا جاتا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ کہ پورے چہرے کا مسح واجب ہے یا فقط پیشانی کا؟ قرآن و سنّت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب) اسلامی احکامات کا بنیادی محور یہی ہے کہ انسانوں کو عسر و حرج میں ڈالے بغیر ایک مکمّل ضابطۂ حیات دیا جائے۔ نماز اور دیگرعبادات کے لئے وضو کی تاکید آئی لیکن جب پانی میسّر نہ ہو یا پانی انسان کے لئے ضرر رساں ہو تو شریعت نے بنی نوع انسان کو تنگی سے بچا کر تیمم کا حکم دیا۔ جس طرح سے پانی کو مایۂ طہارت قرار دیا اسی طرح مٹی کو بھی قرار دیا۔
قرآن میں تیمم کیلئے واضح حکم ملتا ہے؛
فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ
اور جب تمہیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ مٹّی پر تیمم کرو۔ اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے بعض حصّوں کا مسح کرو۔
اب جیسا کہ سوال کیا گیا ہے کہ اس کی علّت کیا ہے کہ تیمم کے لئے فقط چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیوں ہے اور سر و پیر کا کیوں نہیں تو اس کا واضح حکم ہمیں قرآن میں ملتا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ امام باقر(ع) نے اس کیلئے ایک لطیف نکتہ اس صحیح السند حدیث میں بیان کیا ہے؛
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع أَ لَا تُخْبِرُنِي مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ وَ قُلْتَ إِنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ وَ بَعْضِ الرِّجْلَيْنِ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ نَزَلَ بِهِ الْكِتَابُ مِنَ اللَّهِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ فَعَرَفْنَا أَنَّ الْوَجْهَ كُلَّهُ يَنْبَغِي أَنْ يُغْسَلَ ثُمَّ قَالَ- وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ ثُمَّ فَصَّلَ بَيْنَ الْكَلَامِ فَقَالَ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ فَعَرَفْنَا حِينَ قَالَ- بِرُؤُسِكُمْ أَنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ لِمَكَانِ الْبَاءِ ثُمَّ وَصَلَ الرِّجْلَيْنِ بِالرَّأْسِ كَمَا وَصَلَ الْيَدَيْنِ بِالْوَجْهِ فَقَالَ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ فَعَرَفْنَا حِينَ وَصَلَهَا بِالرَّأْسِ أَنَّ الْمَسْحَ عَلَى بَعْضِهَا ثُمَّ فَسَّرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِلنَّاسِ فَضَيَّعُوهُ ثُمَّ قَالَ- فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ فَلَمَّا وَضَعَ الْوُضُوءَ إِنْ لَمْ تَجِدُوا الْمَاءَ أَثْبَتَ بَعْضَ الْغَسْلِ مَسْحاً لِأَنَّهُ قَالَ بِوُجُوهِكُمْ ثُمَّ وَصَلَ بِهَا وَ أَيْدِيَكُمْ ثُمَّ قَالَ مِنْهُ أَيْ مِنْ ذَلِكَ التَّيَمُّمِ لِأَنَّهُ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ أَجْمَعَ لَمْ يَجْرِ عَلَى الْوَجْهِ لِأَنَّهُ يُعَلَّقُ مِنْ ذَلِكَ الصَّعِيدِ بِبَعْضِ الْكَفِّ وَ لَا يَعْلَقُ بِبَعْضِهَا ثُمَّ قَالَ ما يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ وَ الْحَرَجُ الضِّيق
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر ع سے کہا کہ آپ وضو میں سر اور پیر کے مسح میں پورے سر اور پیر کا مسح ضروری نہیں سمجھتے بلکہ سر اور پیر کی ایک مقدار کو مسح کے لئے کافی سمجھتے ہیں، کیا آپ بیان کر سکتے ہیں کہ یہ حکم آپ نے کیسے اور کہاں سے بیان فرمایا؟
امام نے تبسّم فرمایا اور فرمانے لگے: "یہ وہ چیز ہے جس کی رسول اللہ ص نے تصریح کی اور کتاب خدا میں نازل ہوا۔ جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے "فاغسلو وجوھکم" یعنی اپنے چہروں کو دھو لو، اس سے ہم نے جانا کہ چہرے کو مکمّل دھونا لازمی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ہاتھ دھونے کو چہرے پر عطف کیا اور فرمایا "وایدیکم الی المرافق" یعنی اپنے ہاتھ کو کہنیوں تک دھو لو (اللہ نے ہاتھ کے دھونے کے لئے الگ فعل کا ذکر نہیں کیا بلکہ چہرے کے فعل یعنی دھونے کا حکم یہاں برقرار رکھا تو ہم نے جانا کہ مکمّل ہاتھ کا کہنیوں تک دھونا لازمی ہے)۔
اس کے بعد اللہ نے کلام کے درمیان فاصلہ دیا اور کہا "وامسحو برؤوسکم" یعنی سر کا مسح کرو۔ برؤوسکم سے ہم نے جانا کہ سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح ہے کیونکہ یہاں حرف "باء" آیا ہے۔ (باء تبعیض کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر پورے سر کے مسح کا حکم ہوتا تو "وامسحو رؤوسکم" کہا جاتا)۔ پھر دونوں پیر کو سر کے حکم سے متّصل کیا جیسے ہاتھوں کو چہرے کے ساتھ وصل کیا تھا اور کہا "وارجلکم الی الکعبین" یعنی مسح کرو پیروں کا ان کے ابھار تک۔ پھر جیسا کہ پیروں کو سر سے وصل کیا تو اس کا مطلب ہوا کہ مسح بھی پیر کے بعض حصّوں کا ہی ہوگا (جیسے سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ص نے لوگوں کو (اس آیت کی) یہی تفسیر بتائی لیکن لوگوں نے آپ کے فرمان کو ضائع کر دیا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ یعنی جب پانی نہ ملے تو پاکیزہ مٹی پر تیمم کرو یعنی اس طرح سے کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے بعض حصّوں کا مسح کرو۔ یعنی جب اللہ نے پانی میسّر نہ ہونے کا مورد بیان کیا تو مٹی سے مسح کو دھونے کے لئے جاگزین کیا۔ کیونکہ ارشاد ہے کہ "بوجوھکم" اور اس کو "ایدیکم منہ" سے وصل کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمام خاک چہرے پر جاری نہیں ہوتا کیونکہ خاک ہاتھ کے کچھ حصّے پر موجود ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالی نے اپنے دین میں تمہارے لئے تنگی اور حرج قرار نہیں دیا۔"
(اصول کافی: ج3 ص30، تفسیر عیاشی ج1 ص299، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص 103، علل الشرائع ج 1 ص279، تہذیب الاحکام ج1 ص61)
شیخ کلینی نے دو اسناد سے اس روایت کو نقل کیا اور دونوں صحیح کے درجے پر ہیں۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ صدوق کا زرارہ تک طریق بھی صحیح ہے۔ علل الشرائع میں بھی اس کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں اور روایت صحیح ہے۔ تہذیب الاحکام میں بھی اس کی سند صحیح ٹھہرے گی۔ دیکھا جائے تو یہ روایت کثرت طرق، کثرت نقل اور مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) کے اعتبار کی وجہ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر ہے۔
اب آپ کے دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا پورے چہرے کا مسح ہوگا یا فقط پیشانی کا۔ شیعہ علماء کی اکثریت قائل ہے کہ پورے چہرے کا مسح نہیں بلکہ فقط پیشانی کا مسح کافی ہے۔ صرف علی بن بابویہ نے پورے چہرے کا مسح واجب کہا۔ البتہ ایک گروہ قائل ہے کہ پورے چہرے اور پیشانی میں اختیار ہے، جس کو بھی اختیار کریں جائز ہے۔ ان فقہاء میں محقق حلّی اور شیخ بہائی شامل ہیں۔
البتہ قول مشہور یہی ہے کہ پورے چہرے کا مسح واجب نہیں، فقط پیشانی کا واجب ہے۔ قرآن کی آیت بھی صریح دلالت کرتی ہے کہ پورے چہرے کا مسح نہیں ہے، جیسا کہ امام باقر(ع) نے واضح کیا۔ علاوہ ازیں ہمیں کئی معتبر احادیث ملتی ہیں؛
عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَنِ التَّيَمُّمِ فَضَرَبَ بِيَدَيْهِ الْأَرْضَ ثُمَّ رَفَعَهُمَا فَنَفَضَهُمَا ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا جَبْهَتَهُ وَ كَفَّيْهِ مَرَّةً وَاحِدَة
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے تیمم کے بارے میں پوچھا تو آپ(ع) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور پھر ہاتھ اٹھا کر ان کو ہلایا، اس کے بعد اپنی پیشانی اور دونوں ہاتھوں کا ایک ایک دفعہ مسح کیا۔ (تہذیب الاحکام: ج1 ص208)
اس حدیث کے تمام راوی ثقات ہیں، لیکن چونکہ عبداللہ ابن بکیر فطحی المذہب تھا اس لئے یہ روایت مؤثق کہلائے گی۔
ایک اور روایت پیش خدمت ہے؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ وَصَفَ التَّيَمُّمَ فَضَرَبَ بِيَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا فَنَفَضَهُمَا ثُمَّ مَسَحَ عَلَى جَبِينِهِ وَ كَفَّيْهِ مَرَّةً وَاحِدَة
امام صادق(ع) تیمّم کی کیفیت بتاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا، اس کے بعد ان کو اٹھا کر ہلایا، پھر اپنی پیشانی اور ہاتھوں کا ایک ایک دفعہ مسح کیا۔
اس روایت کا راوی عمرو بن ابی المقدام ہے جس کی توثیق وارد نہیں ہوئی لیکن مدح وارد ہوئی ہے۔ پس یہ روایت "حسن" کے درجے پر ہے۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
سوال) تیمّم میں صرف چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیوں کیا جاتا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ کہ پورے چہرے کا مسح واجب ہے یا فقط پیشانی کا؟ قرآن و سنّت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب) اسلامی احکامات کا بنیادی محور یہی ہے کہ انسانوں کو عسر و حرج میں ڈالے بغیر ایک مکمّل ضابطۂ حیات دیا جائے۔ نماز اور دیگرعبادات کے لئے وضو کی تاکید آئی لیکن جب پانی میسّر نہ ہو یا پانی انسان کے لئے ضرر رساں ہو تو شریعت نے بنی نوع انسان کو تنگی سے بچا کر تیمم کا حکم دیا۔ جس طرح سے پانی کو مایۂ طہارت قرار دیا اسی طرح مٹی کو بھی قرار دیا۔
قرآن میں تیمم کیلئے واضح حکم ملتا ہے؛
فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ
اور جب تمہیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ مٹّی پر تیمم کرو۔ اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے بعض حصّوں کا مسح کرو۔
اب جیسا کہ سوال کیا گیا ہے کہ اس کی علّت کیا ہے کہ تیمم کے لئے فقط چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیوں ہے اور سر و پیر کا کیوں نہیں تو اس کا واضح حکم ہمیں قرآن میں ملتا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ امام باقر(ع) نے اس کیلئے ایک لطیف نکتہ اس صحیح السند حدیث میں بیان کیا ہے؛
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع أَ لَا تُخْبِرُنِي مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ وَ قُلْتَ إِنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ وَ بَعْضِ الرِّجْلَيْنِ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ نَزَلَ بِهِ الْكِتَابُ مِنَ اللَّهِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ فَعَرَفْنَا أَنَّ الْوَجْهَ كُلَّهُ يَنْبَغِي أَنْ يُغْسَلَ ثُمَّ قَالَ- وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ ثُمَّ فَصَّلَ بَيْنَ الْكَلَامِ فَقَالَ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ فَعَرَفْنَا حِينَ قَالَ- بِرُؤُسِكُمْ أَنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ لِمَكَانِ الْبَاءِ ثُمَّ وَصَلَ الرِّجْلَيْنِ بِالرَّأْسِ كَمَا وَصَلَ الْيَدَيْنِ بِالْوَجْهِ فَقَالَ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ فَعَرَفْنَا حِينَ وَصَلَهَا بِالرَّأْسِ أَنَّ الْمَسْحَ عَلَى بَعْضِهَا ثُمَّ فَسَّرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِلنَّاسِ فَضَيَّعُوهُ ثُمَّ قَالَ- فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ فَلَمَّا وَضَعَ الْوُضُوءَ إِنْ لَمْ تَجِدُوا الْمَاءَ أَثْبَتَ بَعْضَ الْغَسْلِ مَسْحاً لِأَنَّهُ قَالَ بِوُجُوهِكُمْ ثُمَّ وَصَلَ بِهَا وَ أَيْدِيَكُمْ ثُمَّ قَالَ مِنْهُ أَيْ مِنْ ذَلِكَ التَّيَمُّمِ لِأَنَّهُ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ أَجْمَعَ لَمْ يَجْرِ عَلَى الْوَجْهِ لِأَنَّهُ يُعَلَّقُ مِنْ ذَلِكَ الصَّعِيدِ بِبَعْضِ الْكَفِّ وَ لَا يَعْلَقُ بِبَعْضِهَا ثُمَّ قَالَ ما يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ وَ الْحَرَجُ الضِّيق
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر ع سے کہا کہ آپ وضو میں سر اور پیر کے مسح میں پورے سر اور پیر کا مسح ضروری نہیں سمجھتے بلکہ سر اور پیر کی ایک مقدار کو مسح کے لئے کافی سمجھتے ہیں، کیا آپ بیان کر سکتے ہیں کہ یہ حکم آپ نے کیسے اور کہاں سے بیان فرمایا؟
امام نے تبسّم فرمایا اور فرمانے لگے: "یہ وہ چیز ہے جس کی رسول اللہ ص نے تصریح کی اور کتاب خدا میں نازل ہوا۔ جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے "فاغسلو وجوھکم" یعنی اپنے چہروں کو دھو لو، اس سے ہم نے جانا کہ چہرے کو مکمّل دھونا لازمی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ہاتھ دھونے کو چہرے پر عطف کیا اور فرمایا "وایدیکم الی المرافق" یعنی اپنے ہاتھ کو کہنیوں تک دھو لو (اللہ نے ہاتھ کے دھونے کے لئے الگ فعل کا ذکر نہیں کیا بلکہ چہرے کے فعل یعنی دھونے کا حکم یہاں برقرار رکھا تو ہم نے جانا کہ مکمّل ہاتھ کا کہنیوں تک دھونا لازمی ہے)۔
اس کے بعد اللہ نے کلام کے درمیان فاصلہ دیا اور کہا "وامسحو برؤوسکم" یعنی سر کا مسح کرو۔ برؤوسکم سے ہم نے جانا کہ سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح ہے کیونکہ یہاں حرف "باء" آیا ہے۔ (باء تبعیض کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر پورے سر کے مسح کا حکم ہوتا تو "وامسحو رؤوسکم" کہا جاتا)۔ پھر دونوں پیر کو سر کے حکم سے متّصل کیا جیسے ہاتھوں کو چہرے کے ساتھ وصل کیا تھا اور کہا "وارجلکم الی الکعبین" یعنی مسح کرو پیروں کا ان کے ابھار تک۔ پھر جیسا کہ پیروں کو سر سے وصل کیا تو اس کا مطلب ہوا کہ مسح بھی پیر کے بعض حصّوں کا ہی ہوگا (جیسے سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ص نے لوگوں کو (اس آیت کی) یہی تفسیر بتائی لیکن لوگوں نے آپ کے فرمان کو ضائع کر دیا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ یعنی جب پانی نہ ملے تو پاکیزہ مٹی پر تیمم کرو یعنی اس طرح سے کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے بعض حصّوں کا مسح کرو۔ یعنی جب اللہ نے پانی میسّر نہ ہونے کا مورد بیان کیا تو مٹی سے مسح کو دھونے کے لئے جاگزین کیا۔ کیونکہ ارشاد ہے کہ "بوجوھکم" اور اس کو "ایدیکم منہ" سے وصل کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمام خاک چہرے پر جاری نہیں ہوتا کیونکہ خاک ہاتھ کے کچھ حصّے پر موجود ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالی نے اپنے دین میں تمہارے لئے تنگی اور حرج قرار نہیں دیا۔"
(اصول کافی: ج3 ص30، تفسیر عیاشی ج1 ص299، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص 103، علل الشرائع ج 1 ص279، تہذیب الاحکام ج1 ص61)
شیخ کلینی نے دو اسناد سے اس روایت کو نقل کیا اور دونوں صحیح کے درجے پر ہیں۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ صدوق کا زرارہ تک طریق بھی صحیح ہے۔ علل الشرائع میں بھی اس کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں اور روایت صحیح ہے۔ تہذیب الاحکام میں بھی اس کی سند صحیح ٹھہرے گی۔ دیکھا جائے تو یہ روایت کثرت طرق، کثرت نقل اور مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) کے اعتبار کی وجہ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر ہے۔
اب آپ کے دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا پورے چہرے کا مسح ہوگا یا فقط پیشانی کا۔ شیعہ علماء کی اکثریت قائل ہے کہ پورے چہرے کا مسح نہیں بلکہ فقط پیشانی کا مسح کافی ہے۔ صرف علی بن بابویہ نے پورے چہرے کا مسح واجب کہا۔ البتہ ایک گروہ قائل ہے کہ پورے چہرے اور پیشانی میں اختیار ہے، جس کو بھی اختیار کریں جائز ہے۔ ان فقہاء میں محقق حلّی اور شیخ بہائی شامل ہیں۔
البتہ قول مشہور یہی ہے کہ پورے چہرے کا مسح واجب نہیں، فقط پیشانی کا واجب ہے۔ قرآن کی آیت بھی صریح دلالت کرتی ہے کہ پورے چہرے کا مسح نہیں ہے، جیسا کہ امام باقر(ع) نے واضح کیا۔ علاوہ ازیں ہمیں کئی معتبر احادیث ملتی ہیں؛
عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَنِ التَّيَمُّمِ فَضَرَبَ بِيَدَيْهِ الْأَرْضَ ثُمَّ رَفَعَهُمَا فَنَفَضَهُمَا ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا جَبْهَتَهُ وَ كَفَّيْهِ مَرَّةً وَاحِدَة
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے تیمم کے بارے میں پوچھا تو آپ(ع) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور پھر ہاتھ اٹھا کر ان کو ہلایا، اس کے بعد اپنی پیشانی اور دونوں ہاتھوں کا ایک ایک دفعہ مسح کیا۔ (تہذیب الاحکام: ج1 ص208)
اس حدیث کے تمام راوی ثقات ہیں، لیکن چونکہ عبداللہ ابن بکیر فطحی المذہب تھا اس لئے یہ روایت مؤثق کہلائے گی۔
ایک اور روایت پیش خدمت ہے؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ وَصَفَ التَّيَمُّمَ فَضَرَبَ بِيَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا فَنَفَضَهُمَا ثُمَّ مَسَحَ عَلَى جَبِينِهِ وَ كَفَّيْهِ مَرَّةً وَاحِدَة
امام صادق(ع) تیمّم کی کیفیت بتاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا، اس کے بعد ان کو اٹھا کر ہلایا، پھر اپنی پیشانی اور ہاتھوں کا ایک ایک دفعہ مسح کیا۔
اس روایت کا راوی عمرو بن ابی المقدام ہے جس کی توثیق وارد نہیں ہوئی لیکن مدح وارد ہوئی ہے۔ پس یہ روایت "حسن" کے درجے پر ہے۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں