٭رمضان کی نافلہ نمازیں اور مکتب تشیّع٭
رمضان ایک بہت ہی بابرکت اور رحمتوں والا مہینہ ھے جس میں اللہ تعالی نے روزے فرض کیے۔ اس مہینے میں کئی اعمال ایسے ھیں جو اسی سے مخصوص ھیں اور ان میں سے ایک رمضان کی خاص نفل نمازیں ھیں جو ھر رات کو بجا لائی جاتی ھیں اور شارعین نے ان نمازوں کی کافی تاکید کی ھے۔ لیکن افسوس کہ مسلم امّہ اس معاملے میں بھی افراط و تفریط کا شکار ھوئی، ایک طرف اھل سنّت حضرات ھیں جو ان نفل نمازوں کو جماعت میں پڑھتے ھیں جبکہ رسول اللہ(ص) نے نفل نمازوں کو جماعت میں پڑھنے سے منع فرمایا۔ اور دوسری طرف شیعہ حضرات ھیں جو ان نفل نمازوں کو پڑھتے ھی نہیں جبکہ آئمہ طاھرین(ع) اور اھل بیت رسول(ع) نے ان نمازوں کی کافی ترغیب دی ھے۔ نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ عامۃ الناس رمضان کے فیوض و برکات سے محروم رھتے ھیں، اور روزہ صرف سحری سے افطار تک بھوک پیاس برداشت کرنے کا ھی مترادف سمجھا جاتا ھے۔ یہاں تک کہ لوگ حسب معمول صرف واجبات و فرائض کی انجام دہی کو کافی سمجھتے ھوئے روزانہ کی نافلہ نمازوں پر بھی کاربند نہیں ھوتے۔ یعنی صرف بھوک و پیاس سے معلوم ھوتا ھے کہ رمضان ھے وگرنہ ایک عام شیعہ کے لئے رمضان میں اور دیگر مہینوں میں کوئی فرق نہیں رھتا۔
رسول اللہ(ص) اور آئمہ(ع) نے رمضان میں خاص نوافل کی تاکید کے ھے اور اس کا طریقہ یہ بتایا ھے کہ پہلی رمضان سے لے کر 20 رمضان تک روزانہ ھر شب 20 رکعت نفلییں دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں اور آخری عشرے میں 30 رکعت پڑھی جائیں۔ جبکہ 19، 21 اور 23 کی شب کو 100 رکعت پڑھی جائیں تو یہ تقریبا 1000 رکعتیں بن جاتی ھیں۔
ذیل میں کچھ احادیث تبرکا بیان کی جاتی ھیں تاکہ ھمارے موقف کی تائید ھو؛
وعنه، عن الحسن بن علي، عن أبيه قال: كتب رجل إلى أبي جعفر (عليه السلام) يسأله عن صلاة نوافل شهر رمضان وعن الزيادة فيها ؟ فكتب (عليه السلام) إليه كتابا قرأته بخطه: صل في أول شهر رمضان في عشرين ليلة عشرين ركعة، صل منها ما بين المغرب والعتمة ثماني ركعات، وبعد العشاء اثنتى عشرة ركعة، وفي العشر الاواخر ثماني ركعات بين المغرب والعتمة، واثنتين وعشرين ركعة بعد العتمة إلا في ليلة إحدى وعشرين (وثلاثوعشرين)، فان المأة تجزيك إنشاء الله، وذلك سوى الخمسين، وأكثر من قراءة (إنا أنزلناه)
حسن بن علی اپنے والد سے نقل کرتے ھیں کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں مکتوب ارسال کیا جس میں ماہ رمضان کے نوافل اور اس ماہ میں جو نمازیں کثرت سے پڑھی جاتی ھیں ان کے بارے میں پوچھا۔ امام(ع) نے جواب میں اپنے مبارک ہاتھوں سے جواب لکھا جسے میں نے بھی پڑھا۔ (جو کچھ یوں تھا) اوّل رمضان سے لے کر بیسویں رمضان تک ھر شب 20 رکعت نماز اس طرح پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان 8 رکعت اور غشاء کے بعد 12 رکعت اور آخری عشرے میں 30 رکعت اس طرح پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان 8 رکعت اور عشاء کے بعد 22 رکعت۔ سوائے 21 اور 23 کی شب کہ ان میں 100 رکعت پڑھنا کافی ھے انشاء اللہ۔
وعنه، عن علي بن سليمان، عن علي بن أبى خليس، عن أحمد بن محمد بن مطهر قال: كتبت إلى أبي محمد (عليه السلام) أن رجلا روى عن آبائك (عليهم السلام) أن رسول الله (صلى الله عليه وآله) ما كان يزيد من الصلاة في شهر رمضان على ما كان يصليه في سائر الايام، فوقع (عليه السلام): كذب فض الله فاه، صل في كل ليلة من شهر رمضان عشرين ركعة إلى عشرين من الشهر، وصل ليلة إحدى وعشرين مائة ركعة، وصل ليلة ثلاث وعشرين مائة ركعة، وصل في كل ليلة من العشر الاواخر ثلاثين ركعة. ورواه ابن طاووس في كتاب (الاقبال) باسناده عن هارون بن موسى التلعكبري، عن أبي علي بن همام، عن علي بن سليمان، عن ابن أبي خليس، عن محمد بن أحمد بن مطهر نحوه ۔ والحديثين اللذين قبله باسناده عن علي بن عبد الواحد النهدي، عن علي بن حاتم، وكذا الحديث الاول. وروى الثاني نقلا من كتاب علي بن الحسن بن فضال مثله
احمد ابن محمد ابن مطہر بیان کرتے ھیں کہ میں نے امام حسن عسکری(ع) کی خدمت میں خط لکھا کہ ایک شخص آپ کے آباء(ع) سے روایت کرتا ھے کہ رسول اللہ(ص) عام دنوں میں جو نماز پڑھا کرتے تھے ماہ رمضان میں کوئی اضافہ نہیں کرتے تھے۔ امام(ع) نے اپنے مہر کے ساتھ جواب لکھا کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ھے، اللہ اس کا منہ توڑے۔ تم ماہ رمضان کی پہلی سے لے کر اس کی 20 تاریخ تک ھر شب بیس رکعت نماز پڑھو اور 21 کی شب سو رکعت پڑھو اور پھر 23 کی شب بھی سو رکعت پڑھو اور آخری عشرے میں 30 رکعت پڑھو۔
علي بن موسى بن طاووس في كتاب (الاقبال) نقلا عن الرسالة العزية للشيخ المفيد قال: تصلي في العشرين ليلة الاولة كل ليلةعشرين ركعة، ثماني بين العشائين، واثنتي عشرة ركعة بعد العشاء الاخرة، ويصلي في العشر الاواخر كل ليلة ثلاثين ركعة يضيف إلى هذا الترتيب في ليلة تسع عشرة وليلة احدى وعشرين و ليلة ثلاث وعشرين كل ليلة مائة ركعة، وذلك تمام الالف ركعة قال: وهي رواية محمد بن أبي قرة في كتاب (عمل شهر رمضان) فيما أسنده عن علي بن مهزيار عن مولانا الجواد (عليه السلام)۔
سیّد ابن طاووس اپنی کتاب میں شیخ مفید(ر) کی کتاب رسالہ عزیہ سے نقل کرتے ھوئے کہتے ھیں کہ ماہ رمضان کی پہلی 20 شب میں ھر رات 20 رکعت نماز اس ترتیب سے پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان آٹھ رکعت اور عشاء کے بعد 12 رکعت اور آخری عشرہ میں ھر رات 30 رکعت۔ 19، 21، اور 23 کی شب اس میں ایک سو رکعت کا اضافہ کرو۔ اس طرح کل 1000 رکعت ھو جائیں گی۔ شیخ ابو قرہ نے اپنی کتاب "عمل شھر رمضان" میں اسناد کے ساتھ علی ابن مہزیار قمی سے امام جواد(ع) سے یہی روایت نقل کی ھے۔
٭وسائل الشیعہ، ج5 ص155٭
نوٹ؛ شاید روزانہ اتنی تعداد میں نمازیں پڑھنا ھر کسی کے لئے ممکن نہ ھو، اس صورت میں جتنی رکعتیں پڑھ سکتے ھیں پڑھیں۔ اللہ تعالی قبول کرے گا
خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
رمضان ایک بہت ہی بابرکت اور رحمتوں والا مہینہ ھے جس میں اللہ تعالی نے روزے فرض کیے۔ اس مہینے میں کئی اعمال ایسے ھیں جو اسی سے مخصوص ھیں اور ان میں سے ایک رمضان کی خاص نفل نمازیں ھیں جو ھر رات کو بجا لائی جاتی ھیں اور شارعین نے ان نمازوں کی کافی تاکید کی ھے۔ لیکن افسوس کہ مسلم امّہ اس معاملے میں بھی افراط و تفریط کا شکار ھوئی، ایک طرف اھل سنّت حضرات ھیں جو ان نفل نمازوں کو جماعت میں پڑھتے ھیں جبکہ رسول اللہ(ص) نے نفل نمازوں کو جماعت میں پڑھنے سے منع فرمایا۔ اور دوسری طرف شیعہ حضرات ھیں جو ان نفل نمازوں کو پڑھتے ھی نہیں جبکہ آئمہ طاھرین(ع) اور اھل بیت رسول(ع) نے ان نمازوں کی کافی ترغیب دی ھے۔ نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ عامۃ الناس رمضان کے فیوض و برکات سے محروم رھتے ھیں، اور روزہ صرف سحری سے افطار تک بھوک پیاس برداشت کرنے کا ھی مترادف سمجھا جاتا ھے۔ یہاں تک کہ لوگ حسب معمول صرف واجبات و فرائض کی انجام دہی کو کافی سمجھتے ھوئے روزانہ کی نافلہ نمازوں پر بھی کاربند نہیں ھوتے۔ یعنی صرف بھوک و پیاس سے معلوم ھوتا ھے کہ رمضان ھے وگرنہ ایک عام شیعہ کے لئے رمضان میں اور دیگر مہینوں میں کوئی فرق نہیں رھتا۔
رسول اللہ(ص) اور آئمہ(ع) نے رمضان میں خاص نوافل کی تاکید کے ھے اور اس کا طریقہ یہ بتایا ھے کہ پہلی رمضان سے لے کر 20 رمضان تک روزانہ ھر شب 20 رکعت نفلییں دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں اور آخری عشرے میں 30 رکعت پڑھی جائیں۔ جبکہ 19، 21 اور 23 کی شب کو 100 رکعت پڑھی جائیں تو یہ تقریبا 1000 رکعتیں بن جاتی ھیں۔
ذیل میں کچھ احادیث تبرکا بیان کی جاتی ھیں تاکہ ھمارے موقف کی تائید ھو؛
وعنه، عن الحسن بن علي، عن أبيه قال: كتب رجل إلى أبي جعفر (عليه السلام) يسأله عن صلاة نوافل شهر رمضان وعن الزيادة فيها ؟ فكتب (عليه السلام) إليه كتابا قرأته بخطه: صل في أول شهر رمضان في عشرين ليلة عشرين ركعة، صل منها ما بين المغرب والعتمة ثماني ركعات، وبعد العشاء اثنتى عشرة ركعة، وفي العشر الاواخر ثماني ركعات بين المغرب والعتمة، واثنتين وعشرين ركعة بعد العتمة إلا في ليلة إحدى وعشرين (وثلاثوعشرين)، فان المأة تجزيك إنشاء الله، وذلك سوى الخمسين، وأكثر من قراءة (إنا أنزلناه)
حسن بن علی اپنے والد سے نقل کرتے ھیں کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں مکتوب ارسال کیا جس میں ماہ رمضان کے نوافل اور اس ماہ میں جو نمازیں کثرت سے پڑھی جاتی ھیں ان کے بارے میں پوچھا۔ امام(ع) نے جواب میں اپنے مبارک ہاتھوں سے جواب لکھا جسے میں نے بھی پڑھا۔ (جو کچھ یوں تھا) اوّل رمضان سے لے کر بیسویں رمضان تک ھر شب 20 رکعت نماز اس طرح پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان 8 رکعت اور غشاء کے بعد 12 رکعت اور آخری عشرے میں 30 رکعت اس طرح پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان 8 رکعت اور عشاء کے بعد 22 رکعت۔ سوائے 21 اور 23 کی شب کہ ان میں 100 رکعت پڑھنا کافی ھے انشاء اللہ۔
وعنه، عن علي بن سليمان، عن علي بن أبى خليس، عن أحمد بن محمد بن مطهر قال: كتبت إلى أبي محمد (عليه السلام) أن رجلا روى عن آبائك (عليهم السلام) أن رسول الله (صلى الله عليه وآله) ما كان يزيد من الصلاة في شهر رمضان على ما كان يصليه في سائر الايام، فوقع (عليه السلام): كذب فض الله فاه، صل في كل ليلة من شهر رمضان عشرين ركعة إلى عشرين من الشهر، وصل ليلة إحدى وعشرين مائة ركعة، وصل ليلة ثلاث وعشرين مائة ركعة، وصل في كل ليلة من العشر الاواخر ثلاثين ركعة. ورواه ابن طاووس في كتاب (الاقبال) باسناده عن هارون بن موسى التلعكبري، عن أبي علي بن همام، عن علي بن سليمان، عن ابن أبي خليس، عن محمد بن أحمد بن مطهر نحوه ۔ والحديثين اللذين قبله باسناده عن علي بن عبد الواحد النهدي، عن علي بن حاتم، وكذا الحديث الاول. وروى الثاني نقلا من كتاب علي بن الحسن بن فضال مثله
احمد ابن محمد ابن مطہر بیان کرتے ھیں کہ میں نے امام حسن عسکری(ع) کی خدمت میں خط لکھا کہ ایک شخص آپ کے آباء(ع) سے روایت کرتا ھے کہ رسول اللہ(ص) عام دنوں میں جو نماز پڑھا کرتے تھے ماہ رمضان میں کوئی اضافہ نہیں کرتے تھے۔ امام(ع) نے اپنے مہر کے ساتھ جواب لکھا کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ھے، اللہ اس کا منہ توڑے۔ تم ماہ رمضان کی پہلی سے لے کر اس کی 20 تاریخ تک ھر شب بیس رکعت نماز پڑھو اور 21 کی شب سو رکعت پڑھو اور پھر 23 کی شب بھی سو رکعت پڑھو اور آخری عشرے میں 30 رکعت پڑھو۔
علي بن موسى بن طاووس في كتاب (الاقبال) نقلا عن الرسالة العزية للشيخ المفيد قال: تصلي في العشرين ليلة الاولة كل ليلةعشرين ركعة، ثماني بين العشائين، واثنتي عشرة ركعة بعد العشاء الاخرة، ويصلي في العشر الاواخر كل ليلة ثلاثين ركعة يضيف إلى هذا الترتيب في ليلة تسع عشرة وليلة احدى وعشرين و ليلة ثلاث وعشرين كل ليلة مائة ركعة، وذلك تمام الالف ركعة قال: وهي رواية محمد بن أبي قرة في كتاب (عمل شهر رمضان) فيما أسنده عن علي بن مهزيار عن مولانا الجواد (عليه السلام)۔
سیّد ابن طاووس اپنی کتاب میں شیخ مفید(ر) کی کتاب رسالہ عزیہ سے نقل کرتے ھوئے کہتے ھیں کہ ماہ رمضان کی پہلی 20 شب میں ھر رات 20 رکعت نماز اس ترتیب سے پڑھو کہ مغرب و عشاء کے درمیان آٹھ رکعت اور عشاء کے بعد 12 رکعت اور آخری عشرہ میں ھر رات 30 رکعت۔ 19، 21، اور 23 کی شب اس میں ایک سو رکعت کا اضافہ کرو۔ اس طرح کل 1000 رکعت ھو جائیں گی۔ شیخ ابو قرہ نے اپنی کتاب "عمل شھر رمضان" میں اسناد کے ساتھ علی ابن مہزیار قمی سے امام جواد(ع) سے یہی روایت نقل کی ھے۔
٭وسائل الشیعہ، ج5 ص155٭
نوٹ؛ شاید روزانہ اتنی تعداد میں نمازیں پڑھنا ھر کسی کے لئے ممکن نہ ھو، اس صورت میں جتنی رکعتیں پڑھ سکتے ھیں پڑھیں۔ اللہ تعالی قبول کرے گا
خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں