٭امام علی(ع) ایک بہترین نمونۂ حیات٭
آئیے آج مولا علی(ع) کی شہادت کی رات ان کی زندگی کے کچھ گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
رسول اللہ(ص) کا ارشاد ہے: انا ادیب اللہ و علی ادیبی یعنی میں اللہ کا تربیت شدہ ہوں اور علی(ع) میرے تربیت شدہ ہیں۔ (بحارالانوار: ج16 ص231)
امام علی(ع)، جن کی هيبت سے دن کے وقت ميدان جنگ ميں بڑے بڑے بہادروں کے بدن کانپ اٹهتے تهے، راتوں کو محراب عبادت ميں مار گزيدہ انسان کی مانند، تڑپتے ہوئے اشکبار آنکهوں کے ساتھ اس طرح فرياد کرتا تها: ”اے دنيا! اے دنيا! کيا تو ميرے پاس آئی ہے؟! کيا تو ميری مشتاق ہے؟! هيهات! هيهات! کسی اور کو دهوکہ دے، مجهے تيری کوئی حاجت نہيں، ميں نے تجهے تين طلاقيں ديں۔۔۔۔۔ آہ! آہ! زاد راہ کتنا کم ہے اور راہ کتنی طويل ہے؟“ (بحار الانوار؛ ج 41، ص121)
شجاعت اور سخاوت کا ايسا امتزاج کس امت و ملت ميں پايا جاتا ہے کہ ميدان جنگ ميں لڑائی کے دوران جب ايک مشرک نے کہا: يا ابن ابی طالب! هبنی سيفک۔۔۔ یعنی اپنی تلوار مجھے دے دیں۔ تو آپ(ع) نے تلوار اس کی جانب پهينک دی۔ جب مشرک نے کہا:وا عجبا!اے فرزند ابی طالب!ايسے سخت وقت ميں تم نے اپنی تلوار مجهے دے دی؟
تو آپ(ع)نے فرمايا: تم نے ميری طرف دست سوال دراز کيا تها اور سائل کو رد کرنا کرم
کے خلاف ہے۔ اس مشرک نے اپنے آپ کو زمين پر گرا کر کہا: يہ اہل دين کی سيرت هے!!، پھر وہ مسلمان هوگيا۔ (بحارالانوار: ج41 ص69)
زمانہ ايسے صاحب منصب کی مثال کہاں پيش کر سکتا ہے جس کی حکومت مصر سے خراسان تک پهيلی ہوئی ہو اور عورت کے کاندهے پر پانی کی مشک ديکھ کر اس سے لے اور منزل تک پہنچا آئے۔ اس سے احوال پرسی کرنے کے بعد، صبح تک اضطراب کی وجہ سے سو نہ سکے کہ اس بيوہ عورت اور اس کے بچوں کا خيال کيوں نہ رکها گيا۔ اگلے دن صبح سويرے يتيموں کے لئے اشياء خوردنی لے جائے، کهانا پکا کر اپنے ہاتهوں سے بچوں کو کهلائے اور عورت امير المومنين (ع) کو پہچاننے کے بعد جب شرمندگی کا اظہار کرے تو اس کے جواب ميں کہے: اے کنيز خدا! تم سے شرمندہ تو ميں ہوں۔ (بحارالانوار: ج41 ص52)
ايام حکومت ميں اپنی تلوار بيچنے کی غرض سے بازار ميں رکهوائی اور فرمايا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت ميں علی(ع) کی جان ہے! اگر ايک لنگ خريدنے کے بهی پيسے ميرے پاس ہوتے تو اپنی تلوار ہرگز نہ بيچتا۔ (بحارالانوار: ج41 ص52)
زر و جواهر کے خزانے اختيار ميں ہونے کے باوجود فرمايا: ((واللّٰہ لقد رقعت مدرعتي هذہ حتی استحييت من راقعها)) یعنی: خدا کی قسم اپنی قبا ميں اتنے پيوند لگائے کہ مجھے درزی سے شرم آنے لگی۔ (نہج البلاغہ: خطبہ 160)
جب کبهی آپ (ع) پر کوئی مصيبت وارد ہوتی اس دن ہزار رکعت نماز بجالاتے، ساٹھ مسکينوں کو صدقہ ديتے اور تين دن روزہ رکهتے تهے۔ (بحارالانوار: ج41 ص132)
خون پسينے کی کمائی سے ہزار غلام آزاد کئے، اور دنيا سے رخصت ہوئے تو آٹھ لاکھ درهم کے مقروض تهے۔ (بحارالانوار: ج40 ص338)
جس رات افطار کے لئے اپنی بیٹی کے ہاں مہمان تهے، اس وسيع ملک کے فرمانروا کی بيٹی کے دستر خواں پر جَو کی روٹی، نمک اوردودھ کے ايک پيالے کے سوا کچھ بهی نہ تها۔ آپ (ع) نے جَو کی روٹی اور نمک سے افطار فرمايا اور دودھ چهوا تک نہيں کہ کہيں آپ (ع) کا دستر خوان رعايا کے دستر خوان سے زيادہ رنگين نہ ہو جائے۔ (بحارالانوار: ج42 ص276)
تاريخ کو اس جيسی کوئی دوسری شخصيت ديکهنا نصيب ہی نہ ہوئی کہ مصر سے خراسان تک سلطنت ہونے کے باوجود خود اس کے اور اس کے گورنروں کے لئے حکومت کا منشور ايسا ہو جسے اميرالمو مٔنين (ع) نے عثمان بن حنيف کے خط ميں منعکس کيا ہے۔ اس خط کا مضمون و مفہوم تقريباً يہ ہے: ”اے ابن حنيف! مجهے يہ اطلاع ملی هے کہ بصرہ کے بڑے لوگوں ميں سے ايک شخص نے تمہيں کهانے پر بلايا اور تم لپک کر پہنچ گئے۔ رنگا رنگ کهانے اور بڑے بڑے پيالے تمهارے لئے لائے گئے۔ اميد نہ تهی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن ميں فقير و نادار دهتکار ديئے گئے ہوں اور جن ميں دولت مند مدعو هوں۔ جو لقمے چباتے ہو انهيں ديکھ ليا کرو اور جس کے متعلق شبہ ہو اسے چهوڑ دو اور جس کے پاک وپاکيزہ راہ سے حاصل هونے کا يقين ہو اس ميں سے کهاؤ۔ جان لو کہ ہر مقتدی کا ايک پيشوا ہوتا ہے جس کی وہ پيروی کرتا ہے اور جس کے نورعلم سے کسب نور کرتا ہے۔ ديکهو تمهارے امام کی حالت تو يہ ہے کہ اس نے دنيا کے سازوسامان ميں سے دو بوسيدہ چادروں اور دو روٹيوں پر قناعت کرلی ہے۔ يہ تمہارے بس کی بات نہيں ہے ليکن اتنا تو کرو کہ پرهيزگاری، سعی وکوشش، پاکدامنی اور امور ميں مضبوطی سے ميرا ساتھ دو ، خدا کی قسم ميں نے تمہاری دنيا سے سونا سميٹ کر نہيں رکها ،نہ اس کے مال و متاع ميں سے انبار جمع کر رکهے ہيں ، نہ اپنے اس بوسيدہ لباس کی جگہ کوئی اور لباس تيار کيا ہے اور نہ ہی اس دنيا کی زمين سے ايک بالشت پر بهی قبضہ جمايا ہے۔“
يہاں تک کہ فرماتے هيں :”اگر ميں چاہتا تو صاف ستهرے شهد ، عمدہ گيہوں اور ريشم کے بنے ہوئے کپڑوں کو اپنے لئے مہيّا کر سکتاتها، ليکن يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ خواہشات مجھ پر غلبہ حاصل کرليں اور حرص مجهے اچهے اچهے کهانے چن لينے کی دعوت دے، جب کہ حجاز اور يمامہ ميں شايد ايسے لوگ ہوں کہ جنہيں ايک روٹی ملنے کی آس بهی نہ ہو اور نہ ہی کبهی انہيں پيٹ بهر کر کهانا نصيب ہوا ہو۔“ (نہج البلاغہ: خطوط 45)
اللہ ہم سب کو سیرت معصومین(ع) پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
آئیے آج مولا علی(ع) کی شہادت کی رات ان کی زندگی کے کچھ گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
رسول اللہ(ص) کا ارشاد ہے: انا ادیب اللہ و علی ادیبی یعنی میں اللہ کا تربیت شدہ ہوں اور علی(ع) میرے تربیت شدہ ہیں۔ (بحارالانوار: ج16 ص231)
امام علی(ع)، جن کی هيبت سے دن کے وقت ميدان جنگ ميں بڑے بڑے بہادروں کے بدن کانپ اٹهتے تهے، راتوں کو محراب عبادت ميں مار گزيدہ انسان کی مانند، تڑپتے ہوئے اشکبار آنکهوں کے ساتھ اس طرح فرياد کرتا تها: ”اے دنيا! اے دنيا! کيا تو ميرے پاس آئی ہے؟! کيا تو ميری مشتاق ہے؟! هيهات! هيهات! کسی اور کو دهوکہ دے، مجهے تيری کوئی حاجت نہيں، ميں نے تجهے تين طلاقيں ديں۔۔۔۔۔ آہ! آہ! زاد راہ کتنا کم ہے اور راہ کتنی طويل ہے؟“ (بحار الانوار؛ ج 41، ص121)
شجاعت اور سخاوت کا ايسا امتزاج کس امت و ملت ميں پايا جاتا ہے کہ ميدان جنگ ميں لڑائی کے دوران جب ايک مشرک نے کہا: يا ابن ابی طالب! هبنی سيفک۔۔۔ یعنی اپنی تلوار مجھے دے دیں۔ تو آپ(ع) نے تلوار اس کی جانب پهينک دی۔ جب مشرک نے کہا:وا عجبا!اے فرزند ابی طالب!ايسے سخت وقت ميں تم نے اپنی تلوار مجهے دے دی؟
تو آپ(ع)نے فرمايا: تم نے ميری طرف دست سوال دراز کيا تها اور سائل کو رد کرنا کرم
کے خلاف ہے۔ اس مشرک نے اپنے آپ کو زمين پر گرا کر کہا: يہ اہل دين کی سيرت هے!!، پھر وہ مسلمان هوگيا۔ (بحارالانوار: ج41 ص69)
زمانہ ايسے صاحب منصب کی مثال کہاں پيش کر سکتا ہے جس کی حکومت مصر سے خراسان تک پهيلی ہوئی ہو اور عورت کے کاندهے پر پانی کی مشک ديکھ کر اس سے لے اور منزل تک پہنچا آئے۔ اس سے احوال پرسی کرنے کے بعد، صبح تک اضطراب کی وجہ سے سو نہ سکے کہ اس بيوہ عورت اور اس کے بچوں کا خيال کيوں نہ رکها گيا۔ اگلے دن صبح سويرے يتيموں کے لئے اشياء خوردنی لے جائے، کهانا پکا کر اپنے ہاتهوں سے بچوں کو کهلائے اور عورت امير المومنين (ع) کو پہچاننے کے بعد جب شرمندگی کا اظہار کرے تو اس کے جواب ميں کہے: اے کنيز خدا! تم سے شرمندہ تو ميں ہوں۔ (بحارالانوار: ج41 ص52)
ايام حکومت ميں اپنی تلوار بيچنے کی غرض سے بازار ميں رکهوائی اور فرمايا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت ميں علی(ع) کی جان ہے! اگر ايک لنگ خريدنے کے بهی پيسے ميرے پاس ہوتے تو اپنی تلوار ہرگز نہ بيچتا۔ (بحارالانوار: ج41 ص52)
زر و جواهر کے خزانے اختيار ميں ہونے کے باوجود فرمايا: ((واللّٰہ لقد رقعت مدرعتي هذہ حتی استحييت من راقعها)) یعنی: خدا کی قسم اپنی قبا ميں اتنے پيوند لگائے کہ مجھے درزی سے شرم آنے لگی۔ (نہج البلاغہ: خطبہ 160)
جب کبهی آپ (ع) پر کوئی مصيبت وارد ہوتی اس دن ہزار رکعت نماز بجالاتے، ساٹھ مسکينوں کو صدقہ ديتے اور تين دن روزہ رکهتے تهے۔ (بحارالانوار: ج41 ص132)
خون پسينے کی کمائی سے ہزار غلام آزاد کئے، اور دنيا سے رخصت ہوئے تو آٹھ لاکھ درهم کے مقروض تهے۔ (بحارالانوار: ج40 ص338)
جس رات افطار کے لئے اپنی بیٹی کے ہاں مہمان تهے، اس وسيع ملک کے فرمانروا کی بيٹی کے دستر خواں پر جَو کی روٹی، نمک اوردودھ کے ايک پيالے کے سوا کچھ بهی نہ تها۔ آپ (ع) نے جَو کی روٹی اور نمک سے افطار فرمايا اور دودھ چهوا تک نہيں کہ کہيں آپ (ع) کا دستر خوان رعايا کے دستر خوان سے زيادہ رنگين نہ ہو جائے۔ (بحارالانوار: ج42 ص276)
تاريخ کو اس جيسی کوئی دوسری شخصيت ديکهنا نصيب ہی نہ ہوئی کہ مصر سے خراسان تک سلطنت ہونے کے باوجود خود اس کے اور اس کے گورنروں کے لئے حکومت کا منشور ايسا ہو جسے اميرالمو مٔنين (ع) نے عثمان بن حنيف کے خط ميں منعکس کيا ہے۔ اس خط کا مضمون و مفہوم تقريباً يہ ہے: ”اے ابن حنيف! مجهے يہ اطلاع ملی هے کہ بصرہ کے بڑے لوگوں ميں سے ايک شخص نے تمہيں کهانے پر بلايا اور تم لپک کر پہنچ گئے۔ رنگا رنگ کهانے اور بڑے بڑے پيالے تمهارے لئے لائے گئے۔ اميد نہ تهی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن ميں فقير و نادار دهتکار ديئے گئے ہوں اور جن ميں دولت مند مدعو هوں۔ جو لقمے چباتے ہو انهيں ديکھ ليا کرو اور جس کے متعلق شبہ ہو اسے چهوڑ دو اور جس کے پاک وپاکيزہ راہ سے حاصل هونے کا يقين ہو اس ميں سے کهاؤ۔ جان لو کہ ہر مقتدی کا ايک پيشوا ہوتا ہے جس کی وہ پيروی کرتا ہے اور جس کے نورعلم سے کسب نور کرتا ہے۔ ديکهو تمهارے امام کی حالت تو يہ ہے کہ اس نے دنيا کے سازوسامان ميں سے دو بوسيدہ چادروں اور دو روٹيوں پر قناعت کرلی ہے۔ يہ تمہارے بس کی بات نہيں ہے ليکن اتنا تو کرو کہ پرهيزگاری، سعی وکوشش، پاکدامنی اور امور ميں مضبوطی سے ميرا ساتھ دو ، خدا کی قسم ميں نے تمہاری دنيا سے سونا سميٹ کر نہيں رکها ،نہ اس کے مال و متاع ميں سے انبار جمع کر رکهے ہيں ، نہ اپنے اس بوسيدہ لباس کی جگہ کوئی اور لباس تيار کيا ہے اور نہ ہی اس دنيا کی زمين سے ايک بالشت پر بهی قبضہ جمايا ہے۔“
يہاں تک کہ فرماتے هيں :”اگر ميں چاہتا تو صاف ستهرے شهد ، عمدہ گيہوں اور ريشم کے بنے ہوئے کپڑوں کو اپنے لئے مہيّا کر سکتاتها، ليکن يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ خواہشات مجھ پر غلبہ حاصل کرليں اور حرص مجهے اچهے اچهے کهانے چن لينے کی دعوت دے، جب کہ حجاز اور يمامہ ميں شايد ايسے لوگ ہوں کہ جنہيں ايک روٹی ملنے کی آس بهی نہ ہو اور نہ ہی کبهی انہيں پيٹ بهر کر کهانا نصيب ہوا ہو۔“ (نہج البلاغہ: خطوط 45)
اللہ ہم سب کو سیرت معصومین(ع) پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں